نومبر 7, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بھلائی کے چار وجود ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پچھلی شب سے گرفتارِ بلا ہوں۔ زندگی کے جھمیلے ہی زندگی ہیں ان سموں میں ہوتی دستکیں عجیب ہیں۔
فقیر راحموں نے کہا
’’عالمین کے سائیں، امتحانی قاعدہ ختم ہونے کو ہے۔ سوال پھر بھی ہیں۔
کیا ایک امتحان کے بعد کے پھر امتحان۔
آدمی ذات کا بوجھ اٹھائے چلتا ہے،
دم دم، قدم قدم، سانس پھول رہے ہیں۔
ایک درد سینے میں ہے اور مٹھی میں باقی سانس۔
سائیاں!
یہ ریت پریت کیا ہے اور ذات پات کیا۔
یار کے کوچے میں دھمالیوں کے قدموں سے، فیض پاتی زندگی ہی تو، سارا سچ ہے‘‘۔
یہ فقیر راحموں بھی عجیب ہے بلکہ بہت عجیب۔ اسے کئی بار سمجھایا بھی ہے کہ پیر وارث شاہؒ کہتے ہیں، "بھید والے صندوق کی چابی دفن ہی رہنی چاہیے” ۔
ان سموں میں حسین بن منصور حلاج کی یادوں نے دستک دی۔ فرماتے ہیں
’’عاشق کے لئے اپنی کھال کے ساتھ جینا ایسے ہی ہے جیسے لبِ دریا پیاس سے مرنا‘‘۔ حسین بن منصور حلاجؒ نے ہی کہا تھا ’’میرے دوستو ! زندگی اگر تماشا بنادے تو سمجھ لو مرادیں بر آئی ہیں‘‘۔ دجلہ کے مغربی کنارے پر گاڑھی گئی سولی پر جھولتے ہوئے کلام کیا اور کہا
’’لوگو! سانسوں کے دان پر پلنے سے بہتر ہے ان کا قرض ادا کیا جائے، وہ ہو ہم ہوں، دونوں ہوں۔
معراج دیدار یار میں ہے۔ اُسے پانے کے لئے اِس کی قربانی واجب ہے۔
یہ زیادہ سے زیادہ میری جان لے سکتے ہیں میرے الفاظ کو سولی نہیں چڑھاسکتے‘‘۔
ساعت بھر کے لئے گرفتارِ یادِ حلاجؒ نے سانس لیا تو شہید سرمدؒ نے دستک دی۔ فرماتے ہیں
’’تم ہر جگہ دل ربائی کے لئے مشہور ہو ۔ دوستی میں بھی تجھ جیسا کوئی نہیں۔
ہم تو تیرے اسی انداز پر عاشق ہوئے ۔
جان کیسے لینی ہے، فیصلہ تو کر، سرمد کی جان بھی حاضر ہے اور سر بھی۔
اے دوست دیدار تو کرا۔ تیرے جلوے سے ہم زندگی پائیں گے۔
"ہائے میرا دل کسی لیلیٰ صفت کا ایسا دیوانہ ہوا، آوارگی میں صحرا کو گلستانِ وطن سمجھ لیا۔
ارے ان پرہیز گاروں کو تو دیکھو، خزاں کے موسم میں بہار کے زور کو ترستے ہیں‘‘۔
سرمدں ہی کہتے ہیں
’’زندگی تیری تلاش میں بسر ہوئی، خواہشوں اور ارمانوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھا، میں نیند سے بیدار ہوا، چاروں طرف دیوانے پڑے تھے، ان کے انجام پر دل بھر آیا۔
راتیں غفلت میں مبتلا کردیتی ہیں۔ ارے دن کا سورج بنانے والے، سیاہ شب اور مقدر کے لئے بھی ایک سورج تخلیق کر‘‘۔
’’اے میرے ہم نفس اب کیا اور ہوگا، اس صبح صادق کے بعد۔ خواب ہوں کہ سراب دونوں آنکھوں کا فریب ہیں‘‘۔
شہید سرمدؒ کہتے ہیں
’’پیٹ کے دوزخ کو بھرنے کی خواہش پر ہوئی دوستی بھی اجرت مانگتی ہے۔
ایک تم ہو جو روٹی کے لئے نہیں مجھ سے میرے لئے واجب ہوئے۔ نفس کے گھوڑوں پر سوار کاش سمجھ سکیں۔
روٹی کے لئے دربدر دوڑتے پھرنے سے، خواہشوں کو جھٹک دینا زندگی ہے‘‘۔
ایک دن فقیر راحموں کہنے لگا، یار شاہ جی
’’میں جب حساب کا دفتر کھولتا ہوں تو خالی اوراق منہ چڑاتے ہیں، اسے سینے سے لگاتے ہوئے کہا، دوست حساب نہیں لکھتے، جو حساب لکھتے ہیں وہ دوست نہیں ہوتے‘‘۔
کیا مطلب، کہنے لگا۔ ایک سانس لی اور عرض کیا مرشد کریم سیدی بلھے شاہؒ کہتے تھے
’’ہماری طلب اور اس کی عطا کا حساب ممکن ہی نہیں۔ جس دن آدمی یہ جان لے گا کہ وہ ظرف کے پیالے سے زیادہ نہیں دیتا خود کو پہچان لے گا‘‘۔
سلطان باہوؒ کہتے ہیں
’’عشق خون جگر پیئے بنا نہیں ہوتا، اس تک جانے کے سارے راستے آدمی کے اندر سے ہوکر جاتے ہیں، آدمی ہے کہ اِدھر اُدھر بھٹکتا رہتا ہے۔
اگر کسی نے یہ جانا ہوگا کہ وصل دوست یونہی ہوجائے گا تو اس سے بڑا دھوکہ اور کوئی نہیں۔
یار سر مانگے، کھال، سولی پر چڑھنے کی فرمائش کرے، عاشق کا کام صرف یار کی رضا میں راضی ہونا ہے‘‘۔
سیدی بلھے شاہؒ کہتے ہیں
’’جمع کی رسی سے بندھے طمع کے گھاٹ سے سیراب ہونے والوں پر ایک دن یہ حقیقت آشکار ہوکر رہے گی کہ نفس کی اسیری آدمی کو خود سے بھی نہیں ملنے دیتی‘‘۔
سلطان باہوؒ کے بقول،
’’لوگ ایثار کو بوجھ اور حق کو مصیبت سمجھتے ہیں حالانکہ ایثار تعمیر ذات کا اصل ہے اور حق ایسی روشنی جو جہل کے اندھیرے کو کاٹ کر متلاشی کو اُس تک لے جاتی ہے‘‘۔
بھگت کبیر کہتے ہیں
’’نفس کا ہاتھی ہلاکت میں ڈالتا ہے، خواہشیں باز بن کر شکار کرتی ہیں، اب جنتر منتر سے اس شکاری باز کو قابو کرنا مشکل ہے‘‘۔
بھگت کبیر ہی کہتے ہیں
’’دکھ سکھ پھرولنے کے لئے دوست نہیں بناتا، میں ہنستا کھیلتا ہی اس لئے ہوں کہ فراق کے صدمے بیان کرنے سے بچا رہوں’’۔ جہالت کی آگ سے علم محفوظ رکھتا ہے۔
علم کو معرفت کی رہنمائی مل جائے تو آگ بجھ جاتی ہے ۔ جو نفس کے کہنے پر دوڑا بھاگا اس نے سانسوں کا سرمایہ برباد کیا۔ درخت، تالاب، بھگت اور بادل یہ چاروں دوسروں کی بھلائی کے لئے ہی وجود لیتے ہیں۔
یہی زندگی کی اصل حقیقت ہے‘‘۔ بھگت کبیر کے خیال میں
’’پیر وہی ہے جو درد کو سمجھے جو بتائے بغیر سمجھ نہیں پاتا وہ جھوٹا ہے پیر نہیں۔ میں خواب دیکھتا ہوں، اسے بھی خواب میں ملتا ہوں، لوگ بڑے حاسد ہیں، ان لوگوں کے ڈر سے آنکھ نہیں کھولتا کہ کہیں سپنا ادھورا نہ رہ جائے‘‘۔
ساعت بھر کے لئے رکئے ہم پھر سے سرمد سے ملتے ہیں۔ شہید سرمدؒ سے وہ کہتے ہیں
’’جب میں بوڑھا ہوا گناہ جوان ہوگیا۔ داغ کا پھول خزاں کے دنوں میں کھلا، لالہ رخوں نے میرا مزاج بچوں جیسا بنادیا، اب کبھی میں پرہیز گار بن جاتا ہوں اور کبھی سراسر گناہ۔
یہ جو دنیا کا غم ہے اسے میں نے کبھی سینے سے نہیں لگایا۔ بھلا یار کے گھر میں کوئی آگ لگاتا ہے”
"زندگی بس بلبلے کی مانند ہے۔ سفر آفتوں سے بھرا سمندرہے خواہشیں، سراب ہی سراب، ذرا باطن کی آنکھ کھول کے دیکھ دوست کے دروازے پر سوال نہیں رقص کرتے ہیں‘‘۔
"میں نے امید کی لمبی ڈور کو توڑ دیا تاکہ تجھے دونوں جہانوں میں آرام ملے۔ زندگی کے باغ میں وہ قرار کہاں جو خیال یار میں ہے‘‘۔
سرمدؒ سے باتیں جاری تھیں فقیر راحموں نے یاد دلایا اس سے وعدہ کیا تھا کہ گزرے ماہ و سال کی باتیں کریں گے، اچھا کیا باتیں کریں، کچھ ہے کیا ان میں ایسا کہ پھرولا جائے۔ ماضی کی راکھ پھرولتے رہنے سے کیا ملتا ہے۔ عین ممکن تھا کہ بات بڑھ جاتی وہ تو شکر ہے کہ مرشد کی آواز نے سماعتوں پر دستک دی۔ مرشد (شاہ لطیفؒ) کہہ رہے تھے
’’تیری جستجو میں رات دن ایک کیا، ہر تمنا تیری امانت ہے، یہ جو حجاب درمیان میں ہے، کیا یہ امتحان عشق ہے، کسی دن اسے اٹھا، تجھ سے باتیں کریں کہ تیرے سوا انہیں سمجھتا کون ہے۔
یہ وصل کی دوام کے طالبین تو بس پالینے کو منزل سمجھتے ہیں۔
میں یہ بھید سمجھ گیا۔ فقط پالینا کافی نہیں، جیسے یار چاہے ویسا بننا پڑتا ہے۔ اپنی خانہ ویرانی کو دیکھ کر رونے والے شتر سواروں کے دھوکے میں رہتے ہیں۔
ہستی کو مٹانا ہی مظہرِ جاناں ہے۔ صرف کتابوں کے اوراق پلٹتے رہنے سے آگہی نصیب نہیں ہوتی۔
علم آدمی کو آگہی کے درواز پر لے جاتا ہے۔ اس کے دیدار کے سامنے موت کی یاد ہے۔ ہم زندگی وارنے میں پہل کرتے ہیں۔ اے میری خواہشو تم آرام کرو، مجھے شعلہ زار کی طلب ہے‘‘۔
شاہ لطیفؒ ہی کہتے ہیں
’’اے میرے دلِ بے قرار سنتا تو جا، میں کوئے یار میں رقص کرنے کا خواہش مند ہوں، رقص سے مت ڈرو، جس نے تال سے سُر ملائے وہ قرار جاں پاگیا‘‘۔
طالب علم کو پھر حسین بن منصور حلاجؒ کی یاد آئی۔ وہی حسین بن منصور حلاجؒ جسے دجلہ کے مغربی کنارے پر مصلوب کیا گیا تھا ۔
ہائے شکم سیری کے مریضوں کے فتوے کیسے کیسے چراغ گل کرگئے۔
فقیر راحموں کہہ رہا ہے شاہ جی،
"شکم سیری کے مریض اورفتوے گُل ہوتے ہیں چراغ تو روشن رہتے ہیں”
بات اس کی درست ہے حلاجؒ کا چراغ آج بھی جل رہا ہے۔
فقیر راحموں کہنے لگا
’’زمانے ہم نے تیرے درمیاں رہتے ہوئے اپنے حصے سے زیادہ بوجھ اٹھایا۔ یادوں کی راکھ کریدی، خوابوں نے آنکھوں میں کانٹے چبھوئے۔ پیاس سے حلق خشک ہوا‘‘
مرشد بلھے شاہؒ نے کہا تھا ’’جس نے بھید پالیا وہی سرفراز ہوا‘‘۔ ابھی مسافت باقی ہے اور باتیں بھی، اور باتیں ادھار رہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author