مئی 18, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

گورنر پنجاب میاں بلیغ الرحمن سے ملاقات۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گورنر پنجاب میاں بلیغ الرحمن کے بہاولپور کیمپ آفس کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے میری گورنر سے ملاقات کا اہتمام کیا۔ گورنر ہائوس لاہور کے دربار محل پہنچا تو پورے وسیب خصوصاً بہاولپور سے کثیر تعداد میں لوگ وہاں پہنچے ہوئے تھے، ان میں سے اکثریت شناسا تھی، مقررہ وقت سے ملاقات میں تاخیر ہوئی کہ گورنر ہائوس میں مسلم لیگ (ن) کے زعماء کی میٹنگ چل رہی تھی۔ ملاقات سے پہلے لوگ ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے کہ یہ ٹھیک ہے کہ گورنر کے پاس انتظامی اختیارات نہیں مگر ہم اس امید پر یہاں آئے ہیں کہ وہ آرڈر نہیں کر سکتے ،سفارش تو کر سکتے ہیں ۔ ملاقات میں تاخیر بڑھتی جا رہی تھی ، دوسروں کے ساتھ میں خود بھی حیران ہو رہا تھا کہ اس مختصر ملاقات کے لئے دو دن صرف ہو گئے، وقت کے علاوہ آنے جانے کے اخراجات ایک سفید پوش کے لئے خاصے بوجھ سے کم نہیں۔ کچھ لوگ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ ہفتے میں ایک یا دو دن وسیب سے آنے والوں کی ملاقات کے لئے مختص ہوتے ہیں اور اُس دن بھی کوئی میٹنگ آ جاتی ہے۔ بہرحال تاخیر سے سہی گورنر صاحب تشریف لائے تووسیب کی روایت کے مطابق ایک ایک شخص سے اتنی محبت اور اتنی خندہ پیشانی سے ملے کہ سب کی تھکاوٹیں دور ہو گئیں۔ میری طرح سب کے پاس فائلیں تھیں، گورنر صاحب نے ایک ایک شخص کی بات غور سے سنی اور درخواستوں پر احکامات بھی جاری کرتے رہے۔ میں نے اپنے وسیب کے حوالے سے چند ایک درخواستیں گورنر صاحب کی خدمت میں پیش کیں اور زبانی بتایا کہ پی آئی ڈی آفس بہاولپور کے قیام کیلئے ہائیکورٹ بہاولپور بینچ نے ہمارے حق میں فیصلہ دیا ہے۔ ہائیکورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں PID آفس بہاولپور کی منظوری دی گئی ہے اور عارضی طور پر ریڈیو پاکستان بہاولپور کی بلڈنگ میںآفس قائم کیا گیا ہے جسے دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ ہماری وزارت اطلاعات کا ایک نام ہے اور اس کے دفاتر کی قدر و منزلت بھی دیگر دفاتر کے مقابلے میں بہتر نظر آنی چاہئے مگر افسوس کہ PID بہاولپور کے آفس کی جو حالت ہے وہ یہ ہے کہ ریڈیو پاکستان بہاولپور کا PID آفس کے لئے ایک چھوٹا اور بوسیدہ سا کمرہ مختص ہے،اُس کمرے میں صرف ایک پرانی میز اور ایک کرسی کے سوا کچھ نہیں، پی آئی ڈی کا ایک آدمی بٹھایا گیا ہے ، نہ تو افسران تعینات ہوئے ہیں اور نہ ہی دیگر عملہ اور نہ ہی فنڈز دئیے گئے ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ پی آئی ڈی بہاولپور آفس کی سٹیٹ آف دی آرٹ عمارت ہونی چاہئے اور بہاولپور جس طرح اپنے محلات ، تعلیمی اداروں اور بہترین دفاتر کی وجہ سے مشہور ہے اسی طرح پی آئی ڈی کا آفس قائم ہونا چاہئے۔ میں بات کر رہا تھا گورنر صاحب میری بات توجہ سے سن رہے تھے۔ میں نے کہا کہ وزیر اطلاعات محترمہ مریم اورنگزیب صاحبہ کو سفارش فرمائیں کہ فنڈ اور سٹاف دیا جائے اور PIDکے دیگر ریجنل آفسز میں جیسے سٹاف اور سہولتیں موجود ہیں، اُسی طرح کی سہولت بہاولپور میں بھی دی جائے۔ اس مقصد کے لئے افسران اور عملے کی تعیناتی، اخبارات کی ABC کے شعبے کا قیام اور شعبہ اشتہار ات بھی قائم ہونا چاہئے کہ وہاں صوبائی حکومت نے بھی شعبہ اشتہارات قائم کر رکھا ہے۔ میں نے بتایا کہ پاکستان کے لئے سابق ریاست بہاولپور کی عظیم خدمات ہیںاور قیام پاکستان سے پہلے ریاست بہاولپور کے صحافیوںکو وہ تمام سہولتیں میسر تھیںجو کہ کسی بھی فلاحی ریاست کے صحافیوںکو حاصل ہوتی ہیں، بہاولپور سمیت پورے وسیب میںاحساس محرومی ہے، وسیب سے مسلسل بے توجہی اور بے اعتنائی محرومی کے بڑے احساس کوجنم دیتی آ رہی ہے۔ میں نے یہ بھی درخواست کی کہ بہاولپور کی عظمت رفتہ کو بحال کرنے کی اشد ضرورت ہے ، میں نے اس طرف بھی توجہ مبذول کروائی کہ سی پیک منصوبے سے بہاولپور اور بہاولنگر کو محروم رکھا گیا اور دریائے ستلج کی فروختگی سے سابق ریاست بہاولپور میں صحرائے چولستان کے بعد ایک اور چولستان وجود میں آ رہا ہے، گورنر صاحب نے میری باتیں توجہ سے سنیں اور خصوصی طور پر اپنے پی اے سے کہا کہ دھریجہ صاحب کا موبائل نمبر نوٹ کریں ہم ایک دوسرے سے رابطے میں رہیں گے۔ میں نے ایمرسن کالج یونیورسٹی ملتان، غازی یونیورسٹی ڈی جی خان، خواتین یونیورسٹی ملتان، خواجہ فرید یونیورسٹی رحیم یار خان، سرگودھا یونیورسٹی اور خواتین یونیورسٹی بہاولپور میں سرائیکی ڈیپارٹمنٹ کے قیام کیلئے الگ الگ درخواستیں دیں، ملاقات میں گورنر صاحب کو بتایا کہ بہائوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں سالہا سال سے ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی ہو رہی ہے، وسیب کے کالجوں میں بھی سرائیکی پڑھائی جا رہی ہے، ضروری ہے کہ وسیب کی دیگر یونیورسٹیوں میں بھی سرائیکی تعلیم و تحقیق کا اجراء کرایا جائے کہ کسی بھی یونیورسٹی کے قیام کا پہلا مقصد مقامی زبان و ادب کی ترویج اور اُس کے آثار پر تحقیق ہوتا ہے۔ ایک اور ضروری درخواست یہ پیش کی کہ سی ایس ایس کے امتحان میں سرائیکی پیپر کا اجراء کیا جائے کہ پنجابی، سندھی، بلوچی اور پشتو کے پیپر سی ایس ایس کے امتحان میں موجود ہیں مگر سرائیکی میں ڈگری حاصل کرنے والے سٹوڈنٹ کو اس کی ڈگری کے مطابق پیپر سے محروم کرنا بے انصافی ہے۔ گورنر نے تمام مسائل کو توجہ سے سنا اور اپنے پی اے کو ضروری احکامات صادر کئے۔ میںنے گورنر صاحب سے یہ بھی کہا کہ پاکستانی زبانوں کی ترقی کے لئے اقدامات ہونے چاہئیں، سرائیکی ، پنجابی ، سندھی سمیت تمام پاکستانی زبانوں کو قومی زبانوں کو درجہ ملنا چاہئے اور بچے کو اُس کی ماں بولی میں تعلیم کا حق ملنا چاہئے، جس طرح سرکاری سطح پر سندھی ، پنجابی ، بلوچی ، پشتو ، براہوی اور ہندکو کے ادارے قائم ہیں اسی طرح سرائیکی زبان کی ترقی کے لئے بھی سرکاری سطح پر ادارے قائم ہونے چاہئیں۔ ملاقات کے دوران گورنر پنجاب میاں بلیغ الرحمن نے کہا کہ مجھے فخر ہے کہ میرے ایک بزرگ نے قرآن مجید کا پہلا سرائیکی ترجمہ کیا اور دوسرے بزرگ نے 1944ء میں دیوان فرید کو اردو ترجمہ اور شرح کے ساتھ شائع کرایا۔ انہوں نے کہا کہ سرائیکی قدیم، میٹھی اور چاروں صوبوں میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے، اس کی ترقی کیلئے حکومت ہر صورت اقدامات کرے گی۔ گورنر صاحب نے مجھے یقین دلایا کہ پی آئی ڈی آفس بہاولپور کے قیام کیلئے وزیر اطلاعات محترمہ مریم اورنگزیب کو خصوصی سفارش کروں گا، موجودہ عوامی حکومت عوامی مسائل کے حل کیلئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرے گی۔ ملاقات سے قبل میں نے گورنر صاحب کو سرائیکی اجرک پہنائی اور اپنی کتاب ’’میری دھرتی میرے لوگ ‘‘پیش کی۔

 

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: