مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خالد بھائی سے پہلی ملاقات ریڈیو اسٹیشن پر ہوئی تھی۔ کرکٹ کوئز کا پروگرام تھا جس کے میزبان ایس ایم نقی تھے۔ کراچی سے چار افراد کا انتخاب ہونا تھا۔ ہم دونوں منتخب ہوئے اور اگلے مرحلے کے لیے کوالیفائی کرلیا۔ وہ پروگرام لاہور میں ریکارڈ ہوا اور چھٹے ورلڈکپ کے موقع پر پی ٹی وی پر نشر کیا گیا۔
یہ 1995 کے آخری مہینوں کی بات ہے۔ میں اس وقت تک عملی صحافت میں نہیں آیا تھا لیکن خالد بھائی دی نیوز میں کام کرتے تھے۔ میرے چند مضامین دی نیوز میں چھپ چکے تھے اس لیے خالد بھائی میرے نام سے واقف تھے۔ گل حمید بھٹی دی نیوز کے اسپورٹس ایڈیٹر ہونے کی وجہ سے ان کے بھی گرو تھے اور پاکستان ایسوسی ایشن آف کرکٹ اسٹیٹسٹیشنز کے سربراہ ہونے کی وجہ سے میرے بھی۔ بھٹی صاحب اس سے پہلے کرکٹر پاکستان کے ایڈیٹر تھے اور بعد میں دی نیوز کے بھی ایڈیٹر رہے۔ ان کی بیگم رضیہ بھٹی نیوزلائن کی ایڈیٹر تھیں۔ رضیہ بھٹی کس بلند کردار کی مالک تھیں، یہ آپ ناول نگار محمد حنیف سے پوچھیں۔
ذکر خالد بھائی کا تھا۔ ہم دونوں ٹی وی پروگرام کے لیے لاہور گئے تو شالیمار ہوٹل میں ایک ہفتے تک روم میٹ رہے۔ لبرٹی میں اس ہوٹل کا نام بعد میں بدل گیا اور شاید بیسٹ ویسٹرن ہوگیا۔ ایک ہفتے کے دوران ہمیں ایک دوسرے کو جاننے کا موقع ملا اور گہری دوستی ہوگئی۔ میں نے ریڈیو کوئز میں تمام سوالات کے درست جواب دیے تھے اس لیے کراچی کی ٹیم کا کپتان بنایا گیا۔ اس پر خالد بھائی نے کوچ کا اعزازی عہدہ قبول کرلیا۔ ہر پروگرام سے پہلے وہ ٹیم کو تیاری کراتے اور معلومات کا امتحان لیتے۔
اس پروگرام کے میزبان انور مقصود اور بشری انصاری تھے۔ ایورنیو اسٹوڈیوز میں سیٹ لگا تھا جہاں ہمیں ایک فلم کی شوٹنگ دیکھنے کا موقع بھی ملا۔ ہمارے سیٹ پر ایک چھوٹا سا میدان بنایا گیا جس پر کوئز شو میں مقابلہ کرنے والی ٹیموں کے درمیان ایک اوور کی اننگز بھی کھیلی جاتی۔ خالد بھائی پروگرام والے دن ہمیں لبرٹی کے قریبی میدان میں لے جاتے اور محدود دائرے میں بیٹنگ اور بولنگ کی پریکٹس کرواتے۔
ان دنوں ایک ہی چینل تھا اور ویڈیو کیمرے کا پریشر ہوتا ہی ہے۔ میں نے گھبراہٹ میں کئی سوالات کے غلط جواب دیے۔ لیکن ہر بار خالد بھائی نے صورتحال سنبھال لی۔ پہلے راونڈ میں ہم نے ملتان، دوسرے میں اسپورٹس رپورٹرز کی ٹیم، سیمی فائنل میں حیدر آباد اور فائنل میں لاہور کو شکست دی۔ کامیابی پر ہمیں ایک لاکھ روپے انعام ملا لیکن اس سے زیادہ فائدہ یہ ہوا کہ ملک بھر میں شہرت مل گئی۔
کوئز جیتنے کے بعد میں جرنلزم میں آگیا۔ ابتدا اسپورٹس رپورٹنگ سے کی۔ خالد بھائی سے ملاقاتیں بڑھنے لگیں۔ فون پر اکثر گفتگو رہتی۔ ان کے گھر بھی کئی بار گیا۔ ہم کرکٹ کی کتابوں کا تبادلہ کرتے۔ دی نیوز میں ایک دو مضامین ایسے شائع ہوئے جو ہم نے مل کر لکھے تھے اور ان پر دونوں کا نام چھپا۔
خالد بھائی کا بچپن سری لنکا میں گزرا تھا اور انگریزی ابتدا سے اچھی تھی۔ دی نیوز میں سب ایڈیٹر تھے اور دوسروں کی کاپی درست کرتے تھے۔ ان دنوں دی نیوز کراچی میں وحید خان، فرشتے گیتی، خالد محمود اور خالد حسین اسپورٹس رپورٹنگ کرتے تھے۔ ہمارے خالد بھائی کو رپورٹنگ کا موقع نہیں ملتا تھا۔ بعد میں انھوں نے ڈان جوائن کیا تو رپورٹنگ بھی کی اور خود کو منوایا۔ میں اسپورٹس رپورٹنگ کرتا تھا تو پریس بکس میں دیکھتا کہ اچھے اچھے رپورٹر اپنی رپورٹ فائل کرنے سے پہلے خالد بھائی کو دکھاتے تھے۔
پھر اسپورٹس میں میری دلچسپی کم ہوگئی۔ پہلے ایکسپریس، پھر جنگ لندن ڈیسک اور اس کے بعد جیو کے مین بلیٹن کی مصروفیات کے باعث خالد بھائی سے ملاقاتیں نہیں رہیں۔ سال چھ مہینے میں فون پر بات ہوجاتی تھی۔ جیو دبئی جانے کے بعد وہ سلسلہ رک گیا۔ چار سال بعد کراچی منتقل ہوا تو پرانے دوستوں سے تعلق بحال کرنے کی کوشش کی۔ خالد بھائی کو ایک دو بار فون کیا۔ کہیں میرے منہ سے نکل گیا کہ میں نے ٹی وی کوئز کی ریکارڈنگ وی ایچ ایس ٹیپس کی صورت میں محفوظ کرلی تھی۔ بار بار کی شفٹنگ میں ادھر ادھر ہوگئی۔ وہ اچانک پرجوش ہوگئے۔ مجھ سے کہا کہ فورا وہ ڈھونڈ کر مجھے دو۔ میں نے کہا، اچھا کوشش کرتا ہوں۔
اس کے بعد انھوں نے کئی بار فون کیا اور جب میں عذر پیش کرتا کہ ٹیپس نہیں ملیں، اور جب مل گئیں تو انھیں ڈیجیٹائز نہیں کرواسکا، کیونکہ اب وی سی آر کس کے پاس ہے، تو وہ سخت خفا ہوجاتے۔ میں نے شرمندہ ہوکر انھیں فون کرنا چھوڑ دیا۔ ان کا فون آتا تو کال مس کردیتا۔
کئی سال بعد ایک دن ڈان کے قریب سے گزرتے ہوئے دیکھا کہ وہ سڑک پر کھڑے ہیں۔ پہچاننے میں کچھ وقت لگا۔ مجھے سر پر چپکے ہوئے کالے بالوں والا کلین شیو نوجوان یاد تھا۔ سفید بالوں اور چُگی سفید داڑھی میں وہ جماعت اسلامی کے رہنما معلوم ہوئے۔ میں نے گاڑی روک کر خیریت معلوم کی۔ کہا کہ آپ کے گھر کی طرف سے گزروں گا، بیٹھ جائیں۔ انھوں نے بتایا کہ وہ گھر نہیں جارہے۔ ٹھیک سے یاد نہیں لیکن شاید کسی بیرون شہر یا بیرون ملک اسائنمنٹ کے لیے ٹکٹ بنوانے کہیں جانا تھا اور کسی کولیگ کے منتظر تھے۔ دس سال میں وہ ہماری واحد ملاقات تھی، اور آخری بھی کیونکہ پھر میں امریکا آگیا۔
گزشتہ سال نومبر میں بھائی عبدالرشید شکور کی ایک پوسٹ سے معلوم ہوا کہ خالد ایچ خان اسپتال میں ہیں اور دعاوں کی درخواست ہے۔ میں نے پوچھا کہ انھیں کیا ہوا۔ رشید بھائی نے بتایا کہ دماغ کی شریان پھٹ گئی ہے۔ چند دن موت و زیست کی کشمکش میں رہنے کے بعد وہ ایسے سفر پر روانہ ہوگئے جس کی کسی نے رپورٹنگ نہیں کی، کسی نے سفرنامہ نہیں لکھا اور جس سے کوئی واپس نہیں آیا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر