حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پنجاب حکومت کے اخراجات کی پنجاب اسمبلی میں پیش کی گئی آڈٹ رپورٹ کے مطابق محکمہ داخلہ پنجاب نے 2020-21ء پنجاب میں مجموعی طور پر 8ارب 69کروڑ روپے کی بے ضابطگیاں کی گئیں۔
رپورٹ کے مطابق محکمہ داخلہ پنجاب نے 5ارب 65کروڑ روپے کی خریداری کی اور اشیاء کی خریداری کے وقت پروکیورمنٹ رولز پرعمل نہیں کیا گیا۔ یہ رقم مشینری، فرنیچر، یونیفارمز، آئی ٹی آلات اور دیگر اشیاء کی خریداری پر خرچ کی گئی۔
محکمہ داخلہ نے 3ارب روپے ،4سے زیادہ کمپنیوں اور لوگوں کو ادا کئے۔ ستمبر 2019ء ، جولائی 2020ء اور دسمبر 2021ء میں ہونے والی ان ادائیگیوں کا ریکارڈ فراہم نہیں کیا گیا۔ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں متعلقہ افسران کے خلاف تحقیقات اور کارروائی کی سفارش کی گئی۔
آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کردوں کہ رپورٹ کے مطابق ان ادائیگیوں کے حوالے سے ریکارڈ ٹمپر شدہ ہے۔ کوٹیشنز وغیرہ اور دیگر دستاویزات بار بار کے اصرار پر فراہم نہیں کی گئیں۔ نیز یہ کہ اس عرصہ میں پنجاب میں تحریک انصاف اور ق لیگ کی مخلوط حکومت ہی تھی۔
دوسری خبر یہ ہے کہ بجلی کی قیمت میں فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر 9پیسے فی یونٹ اضافہ کردیا گیا ہے۔ لگ بھگ سوا ارب روپے صارفین سے وصول کئے جائیں گے۔ فقیر راحموں کے بقول ’’بھتہ تو دینا ہی پڑے گا‘‘۔ دیں گے بھائی کر بھی کیا کرسکتے ہیں۔ ایک خبر سیالکوٹ سے ہے، تحریک انصاف کے ایک مقامی پروگرام میں ڈیوٹی پر تعینات پولیس اہلکار کو سابق وزیراعظم عمران خان کے حق میں نعرے لگانے حراست میں لے لیا گیا ہے۔
خیر ان خبروں کو چھوڑیں یہ روز شائع ہوتی ہیں اور ایک دن بعد بوسیدہ، کوئی فالو اپ وغیرہ نہیں، عوام کی دادرسی بھی نہیں ہوپاتی ۔ سب اچھا کی صدائیں لگتی ہیں۔ پھر بھی ایک خبر اور ہے عمران خان کے لانگ مارچ جہاد کے اعلان کے ساتھ ہی سٹاک مارکیٹ 650 پوائنٹ گرنے سے سرمایہ کاروں کے 179 ارب روپے ڈوب گئے۔ ڈالر کی قیمت میں 4روپے اضافہ ہوگیا۔ ڈالر کے اس اتار چڑھائو سے وہ پریشان اور خوش ہوں جو ڈالروں کا کاروبار کرتے ہیں یا جو بچت پروگرام کے لئے ڈالر خریدتے ہیں سادہ لوگوں کے دوسرے مسائل ہیں۔ اہم مسئلہ مہنگائی ہے۔
گزشتہ ساٹھ برسوں کے دوران کم از کم ہمارا واسطہ ایسی بدترین مہنگائی سے نہیں پڑا۔ ظلم یہ ہے کہ ہری مرچ 450روپے کلو ہے۔ اس پر ستم یہ ہے کہ ایک دکان پر نرخ کچھ اور دوسری دکان پر کچھ اور۔
معروف اینکر ارشد شریف کے پراسرار قتل کی گتھی سلجھ نہیں رہی۔ کینیا کے صحافی اس حوالے سے جو رپورٹس اپنے اداروں کو دے رہے ہیں ان کے مطابق ایک بین الاقوامی مالیاتی گروپ کے ساتھ ساتھ ایک پاکستانی میڈیا ہائوس جس کے مالک کا دبئی میں وسیع کاروبار ہے، کا کردار ہر گزرنے والے دن کے ساتھ مشکوک ہوتا جارہا ہے۔ اس ساری صورتحال کے بیچوں بیچ گزشتہ شب 9بجے سے پہلے تک عمران خان کے بااعتماد رفیق اور سابق وزیر فیصل واوڈا نے پریس کانفرنس کرکے غدار، احسان فراموش، اسٹیبلشمنٹ کا طبلچی ہونے کا ’’اعزاز‘‘ حاصل کرلیا۔
پی ٹی آئی نے واوڈا کو کور کمیٹی کے واٹس ایپ گروپ سے نکالا پھر کچھ دیر میں تحریک انصاف سندھ کے صدر علی زیدی نے اس کی رکنیت معطل کرتے ہوئے شوکاز نوٹس جاری کردیا۔
فیصل واوڈا نے اے آر وائی نیوز میں کاشف عباسی کے پروگرام میں جب فوجی بوٹ سامنے میز پر رکھا تھا تو ان کی تعریف میں زمین آسمان کے کلابے ملانے والے تھکتے نہیں تھے کہا جارہا تھا کہ یہ بوٹ نہیں سیاست کا حقیقی مقام ہے۔
اب گزشتہ شب سے وہی فیصل واوڈا ہیں وہی تحریک انصاف ہے ٹائیگر اعظم لیرولیر ہے جو کہا لکھا جارہا ہے وہ یہاں نقل کرنا ممکن نہیں۔
ذوالفقار مرزا کی زرداری اور مصطفی کمال کی الطاف حسین کے خلاف پریس کانفرنسوں کو وقت کا انتقام قرار دینے والے کہہ رہے ہیں واوڈا غدار ہے اس نے ہمارے لانگ مارچ جہاد کو خراب کرنے کی کوشش کی ہے او یہ کوشش ’’حاجی‘‘ کے ایما پر ہوئی۔
کچھ لوگ اس پریس کانفرنس کو جوابی وار قرار دے رہے ہیں یعنی عمران اور اس کے حامیوں کی جانب سے ارشد شریف کے قتل کا الزام اسٹیبلشمنٹ پر لگائے جانے کا جواب۔ واوڈا کتنے بااعتماد اور سچے ہیں اس پر لمے چوڑے تبصرے کی ضرورت نہیں۔
وہ سنجیدہ اور شائستہ آدمی کبھی نہیں رہے۔ بڑھک باز، زبان دراز ہی سمجھے گئے ہمیشہ ۔ انصاف مخلوق کے البتہ وہ گزشتہ شب سے قبل ہیرو تھے پھر زیرو ہوگئے۔ اپنی پریس کانفرنس میں اس نے دعوے پہ دعویٰ ہی کیا کہ ثبوت محفوظ ہیں۔ مجھے قتل کیا گیا تو تین گھنٹوں میں وہ بھی قتل ہوں گے جو مجھے قتل کروائیں گے۔
یہ اور اس طرح کی لایعنی باتوں سے بھری پریس کانفرنس جو ایک طبقے کے نزدیک غداری اور دوسرے کے نزدیک انکشافات ہیں۔ فقیر راحموں کہتے ہیں واوڈا کی پریس کانفرنس غداری ہے نہ انکشافات، مال جس بھائو خریدا گیا تھا اسی بھائو فروخت کرنے کی کوشش تھی بس ’’سیلز مین بونگا ” نکلا۔ اسے اپنے مال کے درست ہونے پر خود یقین نہیں تھا۔ اس لئے آئیں بائیں شائیں اور ٹائیں ٹائیں فش۔
واوڈا کی پریس کانفرنس کیا اتنی اہم تھی کہ پی ٹی وی سمیت سارے چینلز لائیو نشر کریں؟ مجھ قلم مزدور کے خیال میں لائیو نشریات غیرضروری رہیں ۔ وجہ یہی ہے کہ واوڈا کبھی کسی دستے کے سربراہ نہیں بلکہ ہمیشہ پیدل سپاہی ہی رہے۔ دولت مند خاندان سے ہیں زبان درازی اور دولت اس کے سوا اس میں خوبی کیا ہے ماسوائے ایک کے کہ گزشتہ شب سے قبل وہ عمران خان کے ڈائی ہارٹ ٹائیگر تھے۔
وہ ماحول بدل سکتے تھے اگر اپنے درجن بھر دعوئوں کو سچ ثابت کرنے کےلئے صرف ایک ثبوت میڈیا کے سامنے رکھ دیتے۔ ماہر نفسیات سے اس کی پریس کانفرنس اور چہرے کے تاثرات کا تجزیہ کروالیجئے۔ وہ بھی یہی کہے گا کہ جب ’’توڑ‘‘ بہت زیادہ ہو تو عادی شخص کی حالت ایسی ہی ہو جاتی ہے ۔
پی ٹی آئی کا ردعمل ضرورت سے کچھ زیادہ ہی ہوگیا۔ ثبوتوں سے محروم دعوئوں پر اس طرح ری ایکٹ کرنے کی ضرورت نہیں تھی البتہ یہ مطالبہ مناسب ہے کہ ارشد شریف سے قتل سے کچھ پہلے تک رابطے میں رہنے کے تین دعویداروں مراد سعید، سابق سینیٹر انور بیگ اور فیصل واوڈا کو کسی تاخیر کے بغیر حفاظتی تحویل میں لے لیا جانا چاہیے تاکہ ان کے دعوئوں کی صداقت پرکھنے کا بندوبست ہوسکے۔
یہاں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ مقتول اینکر ارشد شریف کی حقیقی والدہ اور بچے موجود تھے تو جعلی مائوں اور بیٹی کی ویڈیو بناکر پروپیگنڈے کی کیا ضرورت تھی۔ پی ٹی آئی والے اس طرح کے بودے تجربات شہباز گل کی گرفتاری کے بعد بھی کرچکے تھے اور وہ تجربے الٹ پڑگئے آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ جعلسازی جماعتی سطح پر نہیں ہوئی لیکن جس طرح شہباز گل والے معاملے میں پوری جماعت نے اس وقت جعلسازی کو اون کیا اسی طرح گزشتہ روز بھی پوری تحریک انصاف نہ صرف ان جعلی ویڈیوز کا دفاع فرمارہی تھی بلکہ جھوٹ کا پردہ چاک کرنے والوں کو کوسا جارہا تھا۔
عثمان بزدار کے ایک تونسوی ” بالک ” نے جو ان کی وزارت اعلیٰ کے عرصہ میں لاہور میں موج میلہ پروگرام کا آرگنائزر رہا اَت اٹھائے رکھی۔
ادھر اسلام آباد میں ارشد شریف مرحوم کی تیسری اہلیہ جوکہ صحافی ہیں، کو جھانسی کی رانی بناکر پیش کرنے والے یوٹیوبرز نے آسمان سر پر اٹھارکھا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مقتول ارشد شریف کی زندگی میں اس کے خلاف غلاظت سے بھرے یوٹیوب پروگرام کرنے والے اب اس کے ’’وارث‘‘ بلکہ یوں کہیں فکری وارث بنے ہوئے ہیں۔
بہت ہی سطحی صورتحال ہے۔ خطرہ یہ ہے کہ بوزنوں کے ادہم میں مقتول کا خون رائیگاں چلا جائے گا اصل منصوبہ ساز سہولت کار اور قاتل محفوظ ہوجائیں گے۔ حالانکہ ہونا نہیں چاہیے، قتل تو ہواہے۔
قاتل اور منصوبہ ساز بے نقاب ہونے چاہئیں جس جس پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں ان سب کو تحقیقات میں شامل کیا جانا ضروری ہے۔ جو جو یہ دعویٰ کررہا ہے کہ وہ قاتلوں اور سازشیوں کو جانتا ہے ان سبھی کی حفاظتی تحویل بنتی ہے تاکہ ثبوت مٹنے نہ پائیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر