رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیاست تو سیاسی اداروں کے ذریعے ہوتی ہے اور ان کا بنیادی مقصد اقتدار کا آئینی طریقے سے حصول‘ اس کے استحکام اور پُرامن منتقلی کے علاوہ تنازعات کا حل نکالنا ہوتا ہے۔ ادارے‘ جن کی بات میں کررہا ہوں وہ پارلیمان‘ سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت ہیں۔ ادارے قیادت کی صلاحیت‘ تدبر اور قومی مفاد کے جذبے سے فعال ہوتے ہیں۔ ادارے تو صرف قانونی بنیاد فراہم کرتے ہیں‘ اُن کی فعالیت اور غیر فعالیت کے ذمہ داران ان کو چلانے اور ان سے کام لینے والے ہوتے ہیں۔ تنازعات‘ سیاسی کشمکش میں تبدیل ہو جائیں اور کوئی ایسا بحران پیدا ہو جائے کہ باہر نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہ آئے تو سمجھیں کہ ادارے اپنا کام نہیں کر سکتے۔ ان کی کامیابی اور ناکامی میں سیاسی روایات‘ آئین اور سیاستدانوں کے رویوں کا کردار اہم ہوتا ہے۔ پارلیمان ہو یا کابینہ‘ اپنے طور پر کچھ نہیں۔ وہ وہی کچھ ہیں جو ان کے اراکین ہیں۔ ہمارے ہاں دونوں اہم اداروں کی باگ ڈور چند سیاسی رہنماؤں کے ہاتھ میں ہے۔ اگر پارٹی کا سربراہ کہہ دے کہ سب استعفیٰ دے کر پارلیمان سے باہر آ جاؤ تو حکم کی تعمیل میں دیر نہیں لگتی۔ وہ جسے چاہے کسی عہدے سے نوازے اور جس کی رکنیت ختم کردے تو معتوب رکن کے پاس کوئی راستہ باقی نہیں رہتا۔ یہ پارلیمانی نظام کا جبر بھی ہے اور ہماری سیاسی جماعتوں میں آمرانہ ذہنیت اور سیاسی گدی نشینی کی مضبوط روایت بھی۔ سیاسی لڑائیاں‘ باہمی چپلقش‘ الزام تراشیاں اور ایک دوسرے کو دھول چٹانے‘ اقتدار سے باہر کرنے کے سب جائز اور ناجائز حربے استعمال کرنا اور مخالف جماعت یا جماعتوں کی حکومت کو عدم استحکام کا شکار کرنا ہماری سیاسی قیادت کی روش رہی ہے۔ آج کے بحران کو میں ماضی کے ایسے ہی واقعات کے تناظر میں دیکھ رہا ہوں۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ بحران کیوں پیدا ہوتے ہیں۔ کون پیدا کرتا ہے اور کیوں؟ جب سیاسی اقتدار کے جائز اور قانونی ہونے کا مسئلہ کھڑا ہو جائے یا اسے مسئلہ بنا دیا جائے تو ہمارے محترم قائدینِ ملک اور قوم کے سامنے دو ہی راستے ہوتے ہیں۔ تمام اہم سیاسی جماعتو ں کے رہنما مل بیٹھیں اور اس کا جو بھی آئینی حل نظر آئے‘ اس پر اتفاق کر لیں۔ یہ کہنا آسان ہے‘ مگر عملی سیاست کی حرکیات اور اقتدار سے چمٹے رہنے کی خواہش‘ اعتدال اور صلح جوئی کی راہ پر انا اور خود غرضی دھرنا دے کر بیٹھ جاتی ہے۔ ہماری تاریخ میں جن کے پاس بھی کرسی تھی وہ بات چیت کے لیے تیار تو ہوتے تھے مگر کوشش یہی ہوتی تھی کہ اقتدار اُن کے ہاتھ میں رہے۔ ایوب خان اقتدار کی منتقلی کے لیے تیار ہوئے مگر بہت دیر کردی۔ حالات بگڑ چکے تھے اور جو گول میزکانفرنس میں شرکت سے انکار کررہے تھے‘ انہیں خوف تھا کہ اگر ایسا کیا تو تحریک کا زور زائل ہو سکتا ہے۔ نواب زادہ نصراللہ خان نے بہت کوشش کی تھی۔ سنجیدہ اور مخلص تھے مگر ان کا مذاق اڑایا جاتا رہا کیونکہ اس وقت ذوالفقار علی بھٹوکا گراف بہت بلند ہو چکا تھا۔ سوچتا ہوں کہ اگر وقت پر ایوب خان اپنے بنائے ہوئے آئین کے مطابق اقتدار قومی اسمبلی کے سپیکر‘ فضل القادر چودھری کو منتقل کر دیتے تو پاکستان کی تاریخ مختلف ہوتی۔ بحران چلتا رہا‘ بہت وقت ضائع کردیا یہاں تک کہ وہ دن آگئے جن کا ذکر کرتے ہوئے آج بھی شرم آتی ہے ۔
مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش میں تبدیل ہوتے دیکھا۔ سیاسی بحران پیدا کرنے اور حل پر آمادہ نہ ہونے کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔ اب تو کوئی پاگل ہی کہہ سکتا ہے کہ اقتدار عوامی لیگ کو منتقل نہ کرنا جائز تھا۔ تاریخ کے سب کرداروں کو ذرا ذہن میں لائیں کہ وہ کیسے ڈٹ گئے اور حل کی راہ میں رکاوٹ بنے۔ حل آسان تھا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس‘ جس کا تعین ہو چکا تھا‘ کو اچانک رات کے اندھیرے میں ملتوی نہ کیا جاتا۔ عوامی لیگ حکومت بناتی‘ پیپلز پارٹی صرف سندھ اور پنجاب میں جہاں اسے مینڈیٹ ملا تھا۔ مگر ہمارے سیاسی اور غیر سیاسی دھڑوں کا کھیل ہی کچھ اور تھا۔
بھٹو صاحب کی صنعتوں‘ بینکوں‘ نجی تعلیمی اداروںکو قومیانے کی پالیسی‘ ایسے وقت میں جب چین اور روس میں بھی سوشلزم بحران کاشکار تھا‘ سمجھ سے بالا تر تھی۔ تاریخ اور عالمی امور پر ان کی گہری نگاہ تھی مگر خود پسندی کے دائرے ان کی ذات کا احاطہ کیے ہوئے تھے۔ وقت سے پہلے انتخابات1977ء میں اس لیے کرائے کیونکہ مقبولیت کھوکھلی ہو چکی تھی۔ ہر صورت اقتدار میں رہنا چاہتے تھے۔ جمہوریت اب ان کے ہاتھ کی چھڑی بن کررہ گئی تھی۔ جو کچھ انہوں نے اپنے مخالفین اور سیاسی جماعت کے کچھ رہنمائوں کے ساتھ کیا‘ پاکستانی تاریخ میں ان سے پہلے یا بعد میں کسی نے نہ کیا۔ موجودہ حالات میں کچھ واقعات سامنے آئے ہیں جو ان رویوں سے مشابہت رکھتے ہیں۔ ایسا جھرلو پھرا کہ نوجماعتی اتحاد سراپا احتجاج بن گیا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ انتخابات دوبارہ ہوں اور ان کا انعقاد غیر جانبدار انتظامیہ کی زیر نگرانی ہو۔ اس وقت بھٹو اقتدار میں نہ ہوں۔ بالکل جائز مطالبہ تھا۔ مذاکرات ہوتے رہے۔ حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کو جیلوں سے نکال کر اُن کے سامنے بٹھایا جاتا اور آئندہ کی پیشی پر بات ختم ہو جاتی۔ کئی ماہ گزر گئے۔ ملک مفلوج ہو کر رہ گیا تھا۔ حالات قابو میں نہ تھے۔ چار اور پانچ مئی کی شب وہ ہوا جس کا اس وقت کچھ سیاسی جماعتیں مطالبہ کررہی تھیں۔ ان کے خدشات روز بروز بڑھ رہے تھے۔ ہم ایک اور متوقع جمہوریت کا وجود کھو بیٹھے۔
نجانے کتنے بحران پیدا ہوئے۔ یاد ہوگا کہ جب ضیاء الحق فضائی حادثے میں چل بسے تو بعد میں آج کے سیاسی اتحادیوں نے اگلے دس برس میں ایک دوسرے کے ساتھ کیا کیا تھا۔ وہ جو بحران میاں نواز شریف نے دوتہائی اکثریت رکھنے کے باوجود پیدا کیا‘ اس کی کیا ضرورت تھی۔ اگر پرویز مشرف کو ایک آدھ سال اور رہنے دیا جاتا تو شاید ہماری تاریخ مختلف ہوتی۔ آج ہم پھر وہیں کھڑے ہیں جہاں کئی بار پہلے بھی جا چکے ہیں۔ موجودہ بحران جس نے بھی پیدا کیا اور جو بھی اس کی وجہ بنا‘ اس کے بارے میں سب نے سن رکھا ہے۔ سیاست شتر بے مہار ہو چکی۔ دس اپریل سے لے کر آج تک کوئی دن نہیں گزرا جب جلسہ نہ ہوا ہو یا جلوس نہ نکلا ہو یا لانگ مارچ کی دھمکی نہ دی گئی ہو۔ دوسری جانب کرسی مضبوط ہونے کے دعوے نہ ہوئے ہوں۔ دنیا وبا کے بعد سنبھل رہی ہے اور ہم اپنی تباہی پر تلے ہوئے ہیں۔ جس انداز میں رنگ برنگے سیاسی دھڑوں کو اکٹھا کرکے اقتدار کا جواز تراشا گیا‘ اس کا مصنوعی پن اس کے معماروں پر بھی واضح ہے۔ باقی کسر ضمنی انتخابات نے نکال دی۔ ان جماعتوں کے اندر بھی لوگ موجود ہیں جو اس بحران کا حل شفاف انتخابات میں دیکھتے ہیں مگر ہماری یا ان کی اقتدار کے ایوانوں میں کون سنتا ہے۔ میرے خیال میں اب بھی وقت ہے کہ عمران خان اور شہباز شریف مل بیٹھیں‘ حالات کی نزاکت کا ادراک کریں اور جمہوریت اور اپنی سیاست کو بچا لیں۔ وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ لانگ مارچ کامیاب ہو یا ناکام‘ دونوں صورتوں میں سیاسی نتائج شاید وہ نہ ہوں جو ان کے ذہن میں ہیں۔ خلفشار بڑھے گا تو وہ دور شروع ہو سکتا ہے جہاں جمہوریت کو پسپا ہونا پڑے۔ ممکن ہے کہ ایسا نہ ہو مگر خدشہ اس لیے ہے کیونکہ ہماری تاریخ ایک گول دائرے میں سفر کرتی ہے۔ تاریخ سے سبق سیکھیں‘ اسے دہرانے سے گریز کریں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر