نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

صحافتی تنظیموں کو شہدا کی کبھی کمی نہیں ہوتی۔۔۔||مبشرعلی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان میں سب سے زیادہ جس لفظ کو شہید کیا گیا ہے، وہ لفظ ہے شہید۔
کوئی ڈکیتی میں مارا جائے تو شہید، ہنگامہ آرائی میں ہلاک ہوجائے تو شہید، ٹریفک حادثے میں فوت ہوجائے تو شہید۔
سیاسی جماعتوں کا تو خیر کاروبار ہے، وہ اپنے کارکن کو شہید نہ کہیں تو مستقبل کے شہید کیسے ملیں گے۔ لیکن ان کی دیکھا دیکھی مزدور یونینوں، طلبہ تنظیموں اور صحافتی اداروں نے بھی اپنے ہر ساتھی کو شہید قرار دینا شروع کردیا۔
یہ حال غیر مسلم معاشروں کا ہو تو ٹھیک ہے، لیکن مسلمان ملک میں شہید کی اسلامی اصطلاح کا غلط استعمال مفاد پرستانہ ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔
ایک غلط لفظ برتنے کی پیشگی معذرت چاہتا ہوں۔ اردو لغت میں درج ہے کہ جو شخص کثرت جماع سے انتقال کرجائے، اسے چوتیا شہید کہتے ہیں۔
جس طرح کے حالات ہیں، پاکستان میں جلد ہر اس شخص کو بھی شہید قرار دے دیا جائے گا جو قبض میں زور لگاتے ہوئے چل بسے گا۔
ارشد شریف کی منفی ذہنیت اور یوتھیاپن کے باوجود اس کی موت پر دکھ ہوا۔ پہلی خبر کینیا میں قتل کیے جانے کی نشر ہوئی۔ اب اسے ٹریفک حادثہ کہا جارہا ہے۔ ممکن ہے کہ حادثہ ہی ہو۔ لیکن انگلیاں اسی طرف اٹھ رہی ہیں جن پر صحافیوں اور بلاگرز کو دھمکانے، اغوا، تشدد اور قتل کرنے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔
ارشد شریف انھیں کا پٹھو تھا۔ انھیں کے اشارے پر دوسروں پر الزامات لگاتا تھا۔ میں ٹوئیٹر دیکھ رہا تھا۔ اس پر ایس ای سی پی کے سابق چئیرمین ظفر حجازی شکوہ کررہے تھے کہ ارشد شریف نے ان پر اور ان کے بیٹے پر اپنے پروگراموں میں الزامات لگائے اور کبھی ان کا موقف لینے کی زحمت نہیں کی۔ موقف وہ لیتا ہے، جو سچ جاننا چاہتا ہے۔ ایجنسیوں کے کہنے پر پروگرام کرنے والے دوسروں کو بدنام کرتے ہیں۔ ان کا موقف کیوں لیں گے۔
یہی کام اے آر وائے نے میرے خلاف کیا تھا۔ ہیڈلائنز میں میرا نام اور تصویر چلائی۔ میرے خلاف رپورٹ چلائی۔ پھر ارشد کی بیوی جویریہ صدیق کو میرے خلاف زہر اگلنے کے لیے پلیٹ فارم دیا۔ مجھ سے کسی نے رابطہ کرنے کی زحمت نہیں کی۔ میرے سامنے بھائی اصفر امام نے امریکا میں اے آر وائے کے رپورٹر کو کال کرکے وضاحت لینا چاہی اور اسپیکر آن کرلیا۔ اس رپورٹر نے مجھے گالی دے کر بات شروع کی۔ اصفر بھائی شریف آدمی ہیں۔ انھوں نے گھبرا کے کال کاٹ دی تھی۔
ولی خان بابر جیو کے رپورٹر تھے۔ ان کے قتل نے ہم سب کو ہلا کے رکھ دیا تھا۔ مجھے کسی نے بتایا تھا کہ وہ ایک خطرناک کھیل میں پڑگئے تھے۔ جیو کو بتائے بغیر کسی حساس معاملے کی صحافتی تحقیقات کررہے تھے۔ جن کے خلاف تحقیقات کررہے ہیں، انھیں معلوم ہوگیا۔ پھر ہم سب ولی بابر کو روئے۔
کیا ارشد شریف بھی کسی خطرناک کھیل میں پڑگیا تھا؟ ایسا بعید از قیاس نہیں۔ سب کچھ ٹھیک رہتا تو پاکستان سے فرار ہونے کی کیا ضرورت تھی۔ شہباز گل نے جب اے آر وائے پر بیپر میں فوجیوں کو بغاوت پر اکسانے کی کوشش کی تو اس کا لہجہ معمول سے مختلف تھا۔ خیال تھا کہ وہ فی البدیہہ نہیں بولا بلکہ کوئی اسکرپٹ پڑھ رہا تھا۔ ٹوئیٹر پر کہا گیا کہ وہ اسکرپٹ اسے ارشد شریف نے لکھ کر دیا تھا۔ شہباز گل پکڑا گیا۔ ارشد شریف نے ملک چھوڑ دیا۔
پاکستان میں بعض صحافیوں کو جمہوریت اور سچ کا ایسا درد لاحق ہے کہ کوئی دوا کارگر نہیں۔ جمہوریت اور سچ کا محض نام ہوتا ہے۔ لاکھوں کی سیدھی تنخواہ اور مزید لاکھوں کی کہیں اور سے آمدن اس درد کی وجہ ہوتی ہے۔ اندر کی خبریں اور پیسے بند ہوجائیں یا کوئی دوسرا امیدوار پیدا ہوجائے تو صحافی ہی صحافی کے خلاف سازش سے باز نہیں آتا۔ صحافی برادری ٹھیک ہوتی تو آج ایک کے بجائے ان کی آٹھ تنظیمیں ہوتیں؟
پاکستان سے چار ہزار میل دور سویڈن ہو، پانچ ہزار میل دور لندن یا سات ہزار میل دور کینیڈا، کوئی ساجد حسین، کریمہ بلوچ اور احمد وقاص گورایا محفوظ نہیں۔ گورایا خوش نصیب تھے کہ ان کے قتل کی سازش پکڑی گئی اور وہ بچ گئے۔ ارشد شریف کو قتل کیا گیا یا حادثہ ہی تھا، جو بھی ہو، پاکستان کے بے سرے یوتھیے صحافیوں کو پیغام تو پہنچا ہے۔ ان کی اگلی چند راتیں بے خواب رہیں گی۔
صحافتی تنظیموں کو شہدا کی کبھی کمی نہیں ہوتی۔ ایک کی یاد جاتی نہیں کہ دوسرا صحافی مار دیا جاتا ہے۔ ارشد شریف کے مبینہ یا غیر مبینہ قتل سے صحافیوں، بلاگرز اور جمہوریت کے نام نہاد چیمپینز کو ایک اور شہید مل گیا۔ کچھ روز سب ڈھول پیٹیں گے۔ پھر کوئی اور شہید مل جائے گا۔ لیکن ارشد شریف کی تین بیوائیں اور پانچ بچے زندگی بھر ناکردہ گناہ کی سزا بھگتیں گے۔

یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

About The Author