حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے ہاں دہائیوں تک یہ پروپیگنڈہ زوروشور سے ہوا کہ جماعت اسلامی پاکستان کی نظریاتی اساس کی محافظ ہے۔ یہ نظریاتی اساس ہے کیا، دو قومی نظریہ یا سکیورٹی سٹیٹ کی نظریاتی فہم کو ’’امر ربی‘‘ کے طور پر پیش کرنے میں تعاون؟
طالب علم کے خیال میں دوسری بات قدرے درست لگتی ہے کیونکہ مذہبی یا وطنی تصور قومیت کے حوالے سے جماعت اسلامی کے بانی سید مودودی مرحوم لکھتے ہیں
’’اگر پاکستان ایک ریاست بننے جارہا ہے جہاں جمہوریت رائج ہوگی تو پھر یہ اتنی گندی جگہ (ناپاکستان) ہوگی جتنے برصغیر کے دوسرے علاقے؟ ان کے خیال میں
’’مسلم قومیت بھی خدا کے نزدیک اتنی ہی معتوب ہوگی جتنی انڈین قومیت‘‘۔ مولانا کے بقول جناح اسلام کی ابجد بھی نہیں جانتے اور وہ انڈین مسلمانوں کو گمراہ کررہے ہیں۔ قومیت کو اسلام کے ساتھ کوئی سروکار نہیں۔
انہوں (مولانا نے) ایک مرحلہ پر یہ بھی کہا کہ ’’مسلم لیگ کے رہنما اخلاقی طور پر مردہ ہوچکے ہیں۔ چنانچہ ان کے پاس اپنی تحریک کو اسلامی تحریک قرار دینے کا کوئی حق نہیں‘‘۔ (مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش والیم تھری)
مندرجہ بالا اقتباسات کے کے عزیز خورشید کمال عزیز نے اپی کتاب ’’پاکستانی تاریخ کا قتل‘‘ کے صفحہ 196اور 197 پر دیئے ہیں۔
ہم ایسے طالب علم جب تاریخ میں درج ایسے حوالہ جات پڑھتے ہیں تو تھوڑی دیر کے لئے حیران ہوتے ہیں اس حیرانی کی وجہ یہ ہے کہ ہم تو یہ پڑھتے رہے کہ ’’پاکستان کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا، نظریاتی غذا سید مودودی نے فراہم کی اور عملی مشن محمدعلی جناح نے مکمل کیا‘‘۔
حالانکہ سید مودودی کہتے ہیں ’’سرکاری ملازمین کے لئے ریاست سے وفاداری کا حلف اٹھانا ممکن نہ ہوگا تاوقتیکہ حکومتی نظام مکمل طور پر اسلامی نہ بن جائے‘‘
(نوائے وقت 12ستمبر 1948ء)
اسی طرح ایم سرور کی تصنیف مولانا مودودی کی تحریک اسلامی صفحہ 331/332 پر درج’’کشمیر میں جنگ ہے جہاد نہیں‘‘ کے موضوع پر تفصیل موجود ہے۔
مسئلہ ملکیت زمین پر بھی مولانا کہتے ہیں کہ
” اسلام میں مسلمان پر رقبہ ملکیت میں رکھنے کی کوئی حد مقرر نہیں چنانچہ زرعی اصلاحات نہیں ہوسکتیں‘‘۔ انہوں نے لیاقت اور دولتانہ کی زرعی اصلاحات کے پروگراموں کو غیراسلامی قرار دیا (ڈان و نوائے وقت 7جون، 25سے 30جولائی اور 9اگست 1950ء)‘‘
خیر ہم اور آپ بھی اس حقیقت سے تو آگاہ ہی ہیں کہ پاکستان کوئی سوشلسٹ ریاست یا عوامی جمہوری ریاست بننے کے لئے معرض وجود میں نہیں آیا تھا۔ ڈوبتے اور ابھرتے سامراجوں کے درمیان مقبوضہ علاقہ جات کے مستقبل کے حوالے سے طے شدہ حکمت عملی پر ہی عمل ہوا طریقہ کار ہر جگہ جدا تھا۔
بلاد عرب، افریقہ اور جنوبی ایشیا میں نئی مملکتوں کے ظہور کی وجوہات اور بنائے گئے حالات ہر دو کا تجزیہ کیجئے، سوال کا جواب آسانی سے مل جائے گا۔
آگے بڑھنے سے قبل یہ ضرور عرض کردوں کہ طالب علم، جناب خورشید کمال عزیز کی کتاب کے اقتباسات کی روشنی میں اب تک جو لکھ چکا اس کامقصد کسی کی توہین و تحقیر ہے نہ تقسیم (بٹوارے) کو اذنِ ربی سمجھ کر رزق کا سامان کرنا
مقصد یہی ہے کہ تاریخ کے نام پر ہوئے گھٹالوں سے پردہ اٹھایا جائے۔
اب اگر کچھ لوگوں کے نزدیک یہ گھٹالے ہی ابدی سچائی ہیں تو اس پر بھی چیں بچیں ہونے کی ضرورت نہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ کل جو لوگ یہ کہتے تھے کہ
’’کسی مسلمان کے لئے ایسی اسمبلی اور پارلیمیمنٹ کا رکن بننا حرام ہے جو جدید دور کے جمہوری اصولوں کی بنیاد پر معرض وجود میں آئی ہو۔ ایسی اسمبلیوں کے لئے ہونے والے انتخابات میں ووٹ ڈالنا حرام ہے” (رسائل و مسائل جلد اول)
وہ خود نہ صرف اس نظام کا پرجوش حصہ ہیں بلکہ اتحادی سیاست میں تو اتنا حصہ مانگ لیتے ہیں جتنے ان کے ساتھ لوگ بھی نہیں ہوتے۔
یہی گھٹالہ قومی لباس کے حوالے سے رہا اور ہے۔
"پاکستانی تاریخ کا قتل” کے منصف کے کے عزیز اپنی کتاب کے صفحہ 199 پر این ڈبلیو ایف پی کی جماعت ششم کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ اس میں لکھا ہے کہ ” 1947ء سے قبل اردو جنوبی ایشیاء کے شمالی حصوں کی زبان تھی اور اب بھی ہے۔
این ڈبلیو ایف پی کی ہی جماعت نہم و دہم کی کتابوں کے مطابق اردو برصغیر میں عام بولی جانے والی زبان تھی۔
لاہور میں نجی تعلیمی اداروں کی جماعت سوئم انگلش کی کتاب میں طلبہ کو پڑھایا گیا کہ اردو واحد زبان ہے جو تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ آج بھی پشاور پاکستان سے راس کماری انڈیا تک برصغیر کے طول و عرض میں بولی سمجھی جاتی ہے۔
پنجاب کی نہم و دہم کی کتب کے مطابق ’’یہ ملک کے تمام حصوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ وفاقی تعلیمی اداروں کی انٹرمیڈیٹ کی کتاب کے مطابق یہ برصغیر کی زبان تھی”۔
بجا کہ اردو ایک زبان کے طور پر متعارف ہوئی لیکن یہ کہنا کہ یہ شمالی انڈیا کے لوگوں کی زبان تھی یا جنوبی ایشیا کی ایک بڑی زبان، حقیقت سے مختلف ہے۔
اردو بنگالی تنازع تو محمدعلی جناح صاحب کی آنکھوں کے سامنے برپا ہوا۔
مختلف قدیم زبانیں بولنے والوں کے درمیان رابطے کی موثر زبان کو قومی زبان کا درجہ ایک قومی ( یک قومی نظریہ ) تصور کی بنیاد پر دیا گیا۔
ورنہ ہمارے ہاں تو ایک عرصہ تک مذہبی طبقہ عربی کو باضابطہ قومی زبان قرار دینے پر مُصر رہا۔
زبان اچھی یا بری نہیں ہوتی اصل مسئلہ رویوں کا ہے۔ بٹوارے کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے والے پاکستان کے دونوں حصوں کے لوگوں کے لئے اردو اجنبی زبان نہیں تھی مگر یہ کہنا کہ یہ ان کی زبان تھی صریحاً غلط ہوگا
کیونکہ مشرقی پاکستان میں بنگالی 99فیصد لوگ بولتے تھے۔ مغربی پاکستان میں پشتو، سندھی، بلوچی، سرائیکی، پنجابی، براہوی بڑی زبانیں تھیں اور آج بھی ہیں۔
یہ زبانیں قدیم ورثہ اور شناخت رکھتی ہیں۔ اس حقیقت سے انکار کور چشمی کہلائے گا اسی طرح یہ کہنا بھی غلط ہوگا کہ اردو آج بھی یہاں اجنبی زبان ہے۔
جس بات کو نظرانداز کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ قومی رابطے یا فیڈریشن کے رابطے کی زبان اردو کے ساتھ مقامی زبانوں کو بھی ذریعہ تعلیم بنانے اور اگلے مراحل طے کرنا حق تھا اور ہے۔
ہم اس معاملے کو اس طرح بھی سمجھ سکتے ہیں کہ ہند و سندھ میں مسلمانوں کی آمد کے بعد سے خطبہ جمعہ اور عیدین کے خطبوں کا ایک حصہ عربی میں ہوتا ہے۔
عربی خطبوں کی سماعت کرنے والے نمازی حضرات میں سے کتنے ہیں جو براہ راست عربی متن کو زیرزبر کے ساتھ آسانی کے ساتھ سمجھ سکتے ہوں؟
عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ زبانوں سے استفادہ کوئی غلط کام نہیں البتہ کسی زبان کے تقدس کی تلوار بے نیام سے دوسری زبانوں کا قتل عام درست نہیں ہے۔
ہم جب اپنی درسی کتب یا دو قومی نظریہ کے خام مال سے تیار ہوئے محققین کو پڑھتے ہیں تو وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ برصغیر پر قبضہ کرنے والا انگریز غاصب تھا۔ وہ حملہ آورتھا اس نے مسلمانوں کو ان کے حق اقتدار سے محروم کیا۔
برطانوی سامراجیت سے یقیناً انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن سوال یہ ہے کہ مسلمان برصغیر میں کیسے آئے؟ آج بھی ان خاندانوں کے نام انگلیوں پر شمار کئے جاسکتے ہیں جو بلاد عرب کی اپنے وقتوں کی حکومتوں کے مظالم سے جان بچاکر پناہ کے لئے اس سرزمین پر اترے اور بس گئے
لیکن جب ہم برصغیر (یہاں ہماری مراد ہند اور سندھ ہے) کی مسلم حکمرانی کے ادوار کو دیکھتے ہیں تو یہ بھی درحقیقت حملہ آور لشکروں کی فتوحات کی دین ہی ہے۔
ہم تاریخ کو مرضی کے جانور کی طرح گلے میں رسی ڈال کر اپنی پسند سے نہیں گھوما پھیرا سکتے۔
برصغیر کی مسلم حکمرانی بھی لشکر کشی کا نتیجہ ہے۔
’’انگریز نے دھوکے سے قبضہ کیا، تجارت کے نام پر آیا تھا‘‘۔ یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ قبضہ گیری کے انداز بدلتے رہتے ہیں۔ مغل یا ان سے قبل کے مسلم حکمرانوں کا خمیر لشکر کشی سے گندھا ہے، مقامیت سے ہرگز نہیں۔
ہاں ان سب پر تاریخ کے اس اصول پر بات کی جاسکتی ہے کہ کون لوٹ کر آبائی وطن لے گیا کون یہاں ٹھہر گیا۔
ٹھہر جانے سے گو جرم ختم نہیں ہوجاتا لیکن ملک گیری اور اقتدار سازی کے لئے جس کو بھی موقع ملا اس نے کسر نہیں چھوڑی۔
یہی تاریخ ہے اس سے آنکھیں چرانے کی ضرورت نہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر