دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آپس کے اختلافات کو زیادہ شدت نہ دیجئے۔۔۔||مبشرعلی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چند دن پہلے خالد تھتھال صاحب سے فیس بک پر مناقشہ ہوا تو میں نے ان کے پاکستانی فری تھنکرز گروپ کے بارے میں بھی ایک پوسٹ کی کہ اس کے ملحدین حسین کا تمسخر اڑاتے ہیں اور یزید کے عاشق ہیں۔ میں فری تھنکرز گروپ چھوڑ چکا تھا لیکن اس کے منتظمین نے مجھے متوجہ کیا کیونکہ بقول ان کے، ارکان نے ان سے میری پوسٹ کے بارے میں سوال کیے۔ منتظمین نے اپنی پالیسی کی وضاحت کی اور مجھ سے کہا کہ گروپ میں واپس آکر اپنا موقف پیش کروں۔
میں نے گزشتہ روز اپنا موقف پیش کیا اور اپنے تاثر میں کوئی تبدیلی نہ ہونے کی وجہ سے معذرت نہیں کی۔ البتہ میں اس کے لیے تیار تھا کہ کمنٹس دیکھ کر فیصلہ کروں گا۔ اب تک پچاس سے زیادہ کمنٹس آچکے ہیں اور ایک آدھ کے سوا ہر کمنٹ میرے موقف کی تائید ہے۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ میں نے پاکستانی فری تھنکرز گروپ کی انتظامیہ پر کوئی الزام نہیں لگایا تھا۔ یہ "ملحدین” کے بارے میں تھا۔ یہ بھی یاد رہے کہ گروپ میں صرف ملحدین نہیں، اگنوسٹک اور مذہبی افراد بھی موجود ہیں۔ ایک صاحب کو میں جانتا ہوں جو سپاہ صحابہ کے رہنما رہ چکے ہیں۔
گروپ کے کئی ایڈمن ہیں۔ ان میں سے ایک کامران لاشاری ہیں۔ ان کی خواہش تھی کہ جس طرح میں نے گروپ سے متعلق پوسٹ کرکے اس پر تنقید کا راستہ کھولا، مجھے ان کے جواب کو بھی اپنے قارئین تک پہنچانا چاہیے۔ میں یہ وعدہ یہاں پورا کررہا ہوں۔ ان کی تحریر میں کوئی کانٹ چھانٹ نہیں کی۔
کامران لاشاری اور گروپ کے ایک اور ایڈمن کو میں نے دو روز پہلے اپنی فرینڈ لسٹ میں شامل کیا ہے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ اگر اس پوسٹ پر کوئی تنقیدی کمنٹس آئیں تو انھیں جواب دینے کا موقع میسر ہو۔ لاشاری صاحب نے میری تحریر کے حوالے دیے ہیں اس لیے میں اپنی مکمل اور طویل تحریر یہاں پیش نہیں کررہا۔ ان میں پوری بات موجود ہے۔
اس سے آگے کی ساری تحریر کامران لاشاری صاحب کی ہے۔
۔
مبشر زیدی صاحب نے تحریر فرمایا ہے: "منتظمین کا کہنا ہے کہ وہ کربلا کی جنگ کے دونوں فریقوں کے بارے میں ان کا یکساں رویہ ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں ظلم والے پہلو کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ امام حسین کو الزام دینا وکٹم بلیمنگ ہے۔ اگر آپ وکٹم بلیمنگ جاری رکھنا چاہتے ہیں تو آپ کی مرضی۔”
گذارش ہے کہ سب سے پہلے اس بات کو سمجھا جائے کہ جب ہم بطور گروپ انتظامیہ کہتے ہیں کہ "ہمارا رویہ یکساں ہے” ، تو اس سے ہماری مراد یہ نہیں ہے کہ ہم حسین اور یزید کو برابر سمجھتے ہیں یا کسی وکٹم بلیمنگ کا حصہ ہیں۔
بلکہ اس سے ہماری مراد فقط اور فقط یہ ہے کہ ہم بطور انتظامیہ گروپ میں دونوں فریقین کو پورا موقع دیتے ہیں کہ وہ اپنا اپنا مؤقف پیش کریں۔ مجھے نہیں لگتا کہ بطور انتظامیہ ہم نے کسی کے ساتھ کوئی زیادتی کی ہے، لیکن اگر کسی فریق کو محسوس ہوا ہو کہ ہم نے اسے کھل کر اپنا مؤقف بیان کرنے کا موقعہ نہیں دیا ہے، تو کھل کر ہم سے شکایت کر سکتا ہے۔
اور جہاں تک اس بات کا تعلق تھا کہ جہاں میں نے یہ لکھا تھا: "ہمارا عمومی نظریہ یہ ہی ہے کہ کربلا کی جنگ حق و باطل کی جنگ نہیں تھی، وہ ایک ہی قبیلے کی دو شاخوں کے درمیان اقتدار پر قبضہ کی جنگ تھی، جس میں ایک ہار گیا اور دوسرا جیت گیا۔ ہماری ہمدردریاں نہ جیتنے والے کے ستھ ہیں اور نہ ہارنے والے کے ساتھ۔ ہمارے لیے دونوں برابر ہیں۔”
تو یہ بات بطور گروپ انتظامیہ کے نہیں لکھی گئی تھی، بلکہ بطور ایتھئسٹ/فری تھنکر کمیونٹی کے ایک فرد کے ایک "عمومی” رائے کو "ذاتی” حیثیت میں بیان کیا گیا تھا۔
میں معذرت خواہ ہوں اگر میں اس فرق کو اپنی پچھلی پوسٹ میں واضح طور پر بیان نہیں کر پایا۔
اس لیے پچھلی پوسٹ میں میں نے بطور انتظامیہ یہ بات کی تھی: "بطور پاکستانی فری تھنکرز گروپ کے ایڈمن کے، میں معذرت خواہ ہوں کہ آپ کو گروپ کا یہ تاثر ملا کہ ہم یزید یا حسین میں سے کسی ایک سائیڈ پر ہیں۔ ہماری مجبوری سمجھئے۔ فری تھنکرز میں کوئی کسی کا پیروکار نہیں بلکہ ہر ایک اپنی رائے میں آزاد ہے۔۔۔ اگر آپ حسین کا دفاع کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو بھی ہم کھلے دل سے خوش آمدید کہتے ہیں۔”
پھر مبشر زیدی صاحب نے گروپ انتظامیہ کے حوالے سے تحریر فرمایا ہے: "میں آخر میں کہنا چاہتا ہوں کہ اس گروپ کو اگال دان نہیں بننا چاہیے کہ جہاں کم علم لوگ اپنا غصہ، اپنا زہر، اپنا تعصب نکالنے کے لیے آئیں اور بدبو پھیلاکر چلے جائیں۔ یہ کوئی جواز یا دلیل نہیں کہ میں دیہاتی ہوں اس لیے مجھے گھٹیا باتیں کرنے کا لائسنس ملا ہوا ہے۔ اگر کسی کو بات کرنی نہیں آتی یا تربیت میں کمی رہ گئی ہے تو پہلے تربیتی کورس کرے اور پھر پبلک فورم پر آئے۔ اس گروپ میں نظریات پر بات ہونی چاہیے۔ یہ مشکوک تاریخ پر سوالات اٹھانے کا مقام ہونا چاہیے۔”
بطور انتظامیہ، ہم اس بات پر مبشر صاحب کی تائید کرتے ہیں اور ممبران سے ایسے رویے کی ہی توقع کرتے ہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہم "عملی” میدان میں اس چیز کا حصول ممکن نہیں سمجھتے۔
سب سے پہلی بات ہماری اپنی کمی کی آتی ہے۔ جیسا کہ میں نے پچھلی پوسٹ میں عرض کیا تھا: "ہمارے نزدیک کوئی بھی چیز معصوم عن الخطا اور 100٪ پرفیکٹ نہیں ہے۔ ہم اپنی خامیوں کو کھلے دل سے قبول کرتے ہیں اور ان خامیوں اور کوتاہیوں کے باوجود گروپ کے ذریعے کوشش کرتے ہیں کہ روشنی کو پھیلا سکیں۔”
دوسری بات یہ ہے کہ ہم گروپ کو انہیں سیکولر بنیادوں پر چلانے کی کوشش کرتے ہیں جو کہ مغربی سیکولر ممالک کی بنیاد ہیں۔
اور یہ سیکولر نظام یہ مطالبہ کرتا ہے کہ دوسروں سے انٹرایکشن کرتے وقت اخلاقیات کا مظاہرہ کیا جائے، لیکن دوسری طرف یہی سیکولر نظام یہ بھی کہتا ہے کہ کوئی بھی معاشرہ 100٪ اخلاقیات کا مظاہرہ نہیں کر سکتا، چنانچہ دوسری طرف وہ فریقین سے یہ مطالبہ بھی کرتا ہے کہ اگر کوئی زبانی کلامی تنقید کرتا ہے، یا تمسخر اڑاتا ہے، تو پھی فریقین کو یہ بات برداشت کرنا ہوگی۔
اس سیکولر قانون کو سمجھیے کہ
جہاں تبلیغ ہے، وہاں تنقید بھی ہے۔
مثلاً اگر آپ اسلام کی تبلیغ کر رہے ہیں، تو پھر آپ کو اسلام پر تنقید بھی برداشت کرنا ہوگی۔
جہاں تعریف ہے، وہاں تمسخر بھی ہے
مثلاً مسلمانوں کو پوری اجازت ہے کہ وہ اسلام اور محمد صاحب کی جتنی مرضی مدح سرائی کر لیں، اور انکی شان میں تعریفوں کے پل باندھ لیں۔ کوئی آپ کو ایسا کرنے سے نہ تو مغربی سیکولر ممالک میں روکے گا، اور نہ ہی ہمارے گروپ میں۔
لیکن اسی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ فریقِ مخالف اگر اسلام اور محمد صاحب سے اختلاف رکھتا ہے، حتیٰ کہ نفرت کرتا ہے، اور وہ اس مدح سرائی و تعریف کے جواب میں تمسخر اڑاتا ہے، تو یہ بھی اس کا حق سمجھا جائے گا۔
اگر مذہبی حضرات یہ چاہیں کہ معاشرے میں انکی پسندیدہ شخصیات کی صرف اور صرف مدح سرائی کا حق ہو، مگر تمسخر کا حق نہ ہو، تو پھر ایسا معاشرہ "غیر متوازن” اور فرسٹریشن کا شکار ہو جاتا ہے۔ اسی لیے مسلمانوں کے ہزار مطالبے کے باوجود سیکولر مغربی ممالک میں اسلامی شخصیات کے تمسخر اڑانے پر کوئی پابندی نہیں ہے، اور نہ ہی ہونی بھی چاہیے، بلکہ ایک فریق کو یہ جس طرح پرسنل نفرت کے باوجود مدح سرائی کو برداشت کرنا ہے، اسی طرح دوسرے فریق کو پرسنلی انتہائی محبت و عقیدت کے تمسخر آرائی کو بھی برداشت کرنا ہے۔
چنانچہ اگر کوئی چاہے تو وہ ہم سے اس معاملے میں مکمل اختلاف کر سکتا ہے، لیکن ہم بطور انتطامیہ گروپ کو انہی سیکولر بنیادوں پر چلانا چاہتے ہیں کہ جہاں ہم ایک فریق سے اخلاقیات کے مظاہرے کی توقع کرتے ہیں، تو پھر دوسرے فریق سے بھی برداشت و تحمل کے مظاہرے کی توقع کرتے ہیں۔
چنانچہ یہ گروپ پالیسی کے متعلق بطور انتظامیہ ہماری گذارشات تھیں۔ درخواست یہ ہے کہ بس یہ ذہن میں رکھیے کہ ہم "پرفیکٹ” نہیں ہیں اور نہ ہی کوئی پرفیکٹ سلوشن پیش کر سکتے ہیں۔
میں نے پرائیویٹ میسج میں مبشر صاحب سے درخواست کی تھی کہ جیسے ان کے پاس پورا موقع ہے کہ وہ گروپ میں آ کر اپنے مؤقف کو مکمل طور پر بیان فرما سکیں، ایسے ہی انصاف کے میزان پر ہمیں بھی موقع ہونا چاہیے کہ ہم بھی اپنا مؤقف مکمل طور پر مبشر صاحب کی وال پر بیان کرسکیں۔
مجھے یہ درخواست پیش کرنے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی تھی کیونکہ مبشر صاحب کی وال کا حال بھی کم و بیش وہی ہے جو کہ ہمارے گروپ کا ہے۔ ہمارے گروپ کے ممبران بھی ذاتی رائے میں آزاد ہیں اور وہ اپنی آرا میں تمسخر کے دائرے کو چھوتے ہیں۔ اور مبشر صاحب نے اپنی وال پر ہمارے متعلق جو پوسٹ کی تھی، وہ تو ٹھیک ہے، مگر نیچے تبصروں میں مبشر صاحب کے قارئین نے انتہا پر جاتے ہوئے ہمارے گروپ کے متعلق انتہا کے ریمارکس دیے ہیں۔ ہم قارئین کے ان انتہائی ریمارکس کا ذمہ دار مبشر صاحب کو نہیں گردانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کی وال پر موجود قارئین ہمارے گروپ کے متعلق اپنا مذہبی غصہ اور نفرت یقیناً کھل کر نکالیں گے، مگر ہم اسے تحمل سے برداشت کرتے ہیں اور اسے روکنے وغیرہ کے لیے ہم مبشر صاحب سے رجوع نہیں کر رہے ہیں۔
بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ مبشر صاحب کی وال کے قارئین کو موقع مل سکے کہ وہ براہ راست ہم سے تعلق میں آ سکیں اور کھل کر براہ راست ہم پر تنقید اور اعتراض کر سکیں، اور ہمیں موقع مل سکے کہ ہم اپنا مؤقف کھل کر ان کے سامنے بیان کر سکیں۔ اس سے اختلافات ختم ہوں یا نہ ہوں، مگر کم از کم بہت سی غلط فہمیاں یقیناً ختم ہو پائیں گی۔
مبشر صاحب نے فرمایا ہے کہ وہ ہمارا مؤقف خود اپنے قارئین کے سامنے پیش کر دیں گے۔
اب میں بطور انتظامیہ ایڈمن کے نہیں، بلکہ کربلا اور عزاداری کے حوالے سے فقط اپنا پرسنل مؤقف بیان کرنے جا رہا ہوں۔
مختصر الفاظ میں: عزاداری مکمل طور پر "آؤٹ آف بیلنس” ہے۔
اور اس غیر متوازن عزاداری کی وجہ سے عقیدت کے ایسے پردے پیدا ہوتے ہیں جو کہ ائمہ اہلبیت حضرات کی طرف سے "انسانیت” پر ڈھائے جانے والے انتہائی مظالم کو چھپا لیتے ہیں۔
یہ ایسا ہے کہ ہولوکاسٹ کے دوران کسی یہودی نے کسی نازی خاندان پر ظلم کیا، اور پھر نازی کی آل اولاد اپنے خاندان پر ڈھائے جانے والے واحد ظلم کا چرچا کرنا شروع کر دے، اور یہ چرچا اس پیمانے پر کیا جائے کہ جس سے بقیہ لاکھوں یہودیوں کے قتل اور ہولوکاسٹ پر "مکمل پردہ” پڑ جائے، اور اس وجہ سے نازی ازم پھیلتا اور پھولتا رہے۔
اس "غیر متوازن عزاداری” کی وجہ سے جن حقائق پر مکمل پردہ پڑ گیا ہے، وہ یہ ہیں:
کتنے اہل تشیع حضرات کو آج علم ہے کہ شیعہ آئمہ (بشمول رسول اللہ) جنگ میں مخالفین کی عورتوں اور حتیٰ کہ چھوٹی بچیوں کو قید کرنے کے بعد اسی رات جہادیوں کے ذریعے ان کا ریپ بھی کرواتے تھے؟
حالانکہ دن میں انہوں نے ان عورتوں اور چھوٹی بچیوں کے باپ، بھائی، شوہر اور بیٹوں کو قتل کیا ہوتا تھا؟
آئمہ اہلبیت حضرات کی تعلیم کے مطابق پہلی رات ہی چھوٹی بچیوں اور کنواری لڑکیوں میں دخول کی مکمل اجازت تھی۔
پہلے سے شوہردار عورتوں کی صورت میں ان کی شرمگاہ میں دخول نہیں کیا جا سکتا تھا، مگر انہیں ننگا کرکے ان کے جسموں سے کھیلا جاسکتا تھا، اور ان سے دیگر ہر قسم کی سیکس سروس لی جا سکتی تھی۔
مزید ظلم یہ تھا کہ یزید نے تو سیدہ زینب کی چادر چھینی تھی، مگر ائمہ اہلبیت کی تعلیمات کے مطابق قیدی/باندی عورتوں کی نہ صرف چادریں چھینی جاتی تھیِ، بلکہ ان کے سینے بھی برہنہ رکھے جاتے تھے (بعینہ سنی اسلام کی طرح)۔
مزید ظلم یہ تھا کہ جناب سکینہ قیدِ زنداں میں جب وفات پاتی ہیں تو مرتے ہوئے انہیں جناب زینب کی گود سے میسر تھی۔ مگر ائمہ اہلبیت کی تعلیمات کی روشنی میں قیدی/باندی عورتوں پر ظلم یہ تھا کہ ان کی بچوں اور بچیوں کو ان سے چھین کر غلامی کے بازاروں میں بیچ ڈالا جاتا تھا، اور ماوؤں کو کچھ خبر نہ ہوتی تھی کہ ان کی بچیاں اور بچے کس حال میں ہیں۔ زندہ بھی ہیں یا پھر مارے گئے۔ اور مرتے وقت انہیں کوئی گود بھی میسر تھی یا نہیں۔
جب پہلی مرتبہ شامِ غریباں کے مصائب سنے تو دل دہل اٹھا۔ واقعی کیا آفت ہو گی زینب پر جب وہ اپنے نوعمر بچوں عون و محمد اور اپنے اٹھارہ بھائیوں کی لاشوں کو دیکھتی ہوں گی۔ کیا وقت ہو گا ان خواتین پر جب انکے باپ، بھائی اور بیٹوں کے سر کاٹ کر نیزے پر بلند کیے گئے اور پھر کربلا تا کوفہ تا دمشق انکے ساتھ محوِ سفر رہے۔
آج ایتھئسٹ بن جانے کے بعد حسین سے غرض نہ رہی، مگر اسکے باوجود کربلا کی ان اسیر خواتین اور بچوں کا درد پھر بھی موجود ہے۔ شاید یہ انسانیت کا وہ رشتہ ہے جو ٹوٹ نہ پایا۔
مگر یہ درد بڑھ گیا جب علم میں اضافہ ہوا، اور اسیرانِ خیبر و بنو قریظہ کے مصائب پر سے بھی پردہ اٹھا۔
کیا اسیرانِ خیبر و بنو قریظہ انسان نہ تھے؟
تاریخ طبری، جلد 8، صفحہ 122:
قال ابن إسحاق: فلما افتتح رسول الله صلى الله عليه وسلم القموص حصن بني أبي الحقيق، أُتي بصفية بنت حيي ابن أخطب، وأخرى معها، فمر بهما بلال – وهو الذي جاء بهما – على قتلى من قتلى يهود، فلما رأتهم التي مع صفية صاحت، وصكت وجهها، وحثت التراب على رأسها، فلما رآها رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:((أعزبوا عني هذه الشيطانة)) وأمر بصفية فحيزت خلفه، وألقى عليها رداءه، فعرف المسلمون أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد اصطفاها لنفسه.
ترجمہ:
جنگ خیبر کے بعد حضرت بلال جب حضرت صفیہ کو لے کر آئے، ان کے ساتھ ایک اور یہودی لڑکی بھی تھی، جب وہ اپنے بھائی بندوں کی لاشوں کے پاس سے گذریں تو اس لڑکی نے دھاڑیں مارتے ہوئے اپنے منہ پر تھپڑ مارنے شروع کر دیے، اس نے زمین سے مٹی لے کر اپنے بالوں میں ڈال لی، جب رسول اللہ نے اس لڑکی کو یوں واویلا کرتے دیکھا تو انہیں بہت غصہ آیا اور آپ نے فرمایا؛ "اس چڑیل کو میری نظروں سے دور کر دو”۔
یہ روایت پڑھ کر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ مجھے اسیرانِ خیبر و بنو قریظہ بھی انسان نظر آنے لگے۔ کیا میرا قصور کہ میں ان کا غم بھی محسوس کرنے لگا؟
بطور مسلمان، زینب کی چادر لٹنے اور ننگے سر کوفہ و دمشق کے بازاروں سے گذارنے پر میں غمگین تھا۔ مگر پھر پتا چلا کہ اسیرانِ خیبر و بنو قریظہ وغیرہ کو نہ صرف سروں سے ننگا کیا گیا، بلکہ انکے کپڑے اتار کے سینے بھی ننگے کر دیے گئے۔ کیا میرا قصور کہ میں یہ پڑھ کر کانپ ہی تو گیا؟
مگر داستانِ ظلم طویل ہو گئی ۔۔۔ اور طویل ہونے کے ساتھ مزید ظلم سے بھر گئی۔ جب پتا چلا کہ نہ صرف سینے ننگے کیے گئے، بلکہ مسلمان انکے باپ، بھائیوں اور بیٹوں کو قتل کرنے کے بعد پہلی ہی رات کو انہیں ننگا کر کے انہیں سیکس سروس مہیا کرنے پر مجبور کر رہے تھے، انکا ریپ کر رہے تھے، انہیں کوئی پرواہ نہ تھی کہ وہ مظلوم عورتیں اپنے پیاروں کے غم میں نڈھال ہیں۔ ایسی حالت میں عورت ذات کو سیکس پر مجبور کرنا کیا دنیا کا ظالم ترین جرم نہیں؟
داستانِ ظلم اس پر بھی ختم نہ ہو سکی، بلکہ آگے بڑھی اور بیان کرنے لگی کہ پھر ان عورتوں کو مدینہ کے غلامی کے بازاروں میں دوسرے مردوں کو بیچ ڈالا گیا۔ جبکہ چھوٹے بچوں کو ماوؤں سے علیحدہ کر کے دوسرے مالکوں کو بیچ ڈالا گیا۔
کیا اسیرانِ خیبر و بنو قریظہ کی شام غریباں کسی طرح بھی اسیرانِ کربلا کی شامِ غریباں سے کم ہے؟
حسین کو کم از کم قیدی بنا لینے کے بعد تو قتل نہیں کیا گیا
اور زینب کی چادر لٹنا تو آفت تھا، مگر کم از کم رینب کی عزت کو تو اسی رات نہ لوٹا گیا۔
گستاخی معاف کر دیجئے گا، مگر مجھے تو خیبر و قریظہ میں زیادہ ظلم نظر آیا۔
موضوع پر واپس پلٹتے ہیں۔
اور یاد کیجئے کہ موضوع یہ ہے کہ عزاداری ‘آؤٹ آف بیلنس’ محسوس ہوتی ہے۔
اس آؤٹ آف بیلنس عزاداری کی وجہ سے عقیدت کے وہ پردے پیدا ہوتے ہیں جو کہ انسانیت پر کیے گئے طویل مظالم کو چھپا جاتے ہیں۔
انسانیت میرا دامن پکڑ کر بیٹھ جاتی ہے۔ میرا سر چکرا جاتا ہے۔
اگر آج کے سادات سمجھتے ہیں کہ انہیں اپنے اباؤ اجداد ہونے کی وجہ سے کربلا کا سوگ منانے کا زیادہ حق حاصل ہے، تو پھر رسول اللہ اور ائمہ اہلبیت کی آل اولاد ہونے کے ناطے شاید یہ ذمہ داری بھی ان پر زیادہ عائد ہوتی ہے کہ وہ ان کی طرف سے انسانیت پر ڈھائے جانے والے ان مظالم کو سب سے زیادہ بڑھ چڑھ کر عوام کے سامنے آشکار کریں، تاکہ اسلام کا یہ نظام مزید نہ پھیل سکے۔
آج اگر ایران میں مہسا امینی کا قتل ہوا ہے، تو بالواسطہ طور پر یہی آؤٹ آف بیلنس عزاداری بھی اس کی ذمہ دار ہے۔
آج ایران کی اسلامی حکومت اسی غیر متوازی عزاداری کی وجہ سے طاقت میں ہے اور بہت سے لوگ اسے عزاداری کی برین واشنگ کی وجہ سے سپورٹ کرتے ہیں۔
اس آؤٹ آف بیلنس عزاداری کی بجائے اگر ائمہ اہلبیت کی آل اولاد نے اس سچائی کو آشکار کیا ہوتا کہ ائمہ اہلبیت باندیوں (اور غیر مسلم خواتین) کے حجاب پر پابندی لگا کر ان کے حجاب کو اتروا دیتے تھے، تو پھر یقینی طور پر آج کوئیا مہسا امینی حجاب کے نام پر قتل نہ کی جاتی۔
اب میں مبشر زیدی صاحب سے نہیں، بلکہ اپنی کمیونٹی (یعنی فری تھنکرز) سے مخاطب ہوں، اور یہ خطاب بطور ایڈمن نہیں، بلکہ ذاتی حیثیت میں ہے۔:
آپ کو پتا ہی ہے کہ فری تھنکرز کا مسئلہ یہ ہے کہ ان میں کوئی نبی نہیں ہوتا جو انہیں فقط "ایک رائے” پر جمع کرے۔ اس وجہ سے فری تھنکرز کی آراء میں مذہبی حضرات کے مقابلے میں بہت زیادہ "تنوع” پایا جاتا ہے۔ اگر لاکھوں فری تھنکرز کی آراء کے مقابلے میں میری رائے مختلف ہو گی، تو بھی میں اپنی رائے کو لے کر اٹھ کھڑا ہوں گا۔
میری نظر میں "شیعہ ملحد” ایک نان ایشو ہے۔ اگر وہ محرم میں مجالس میں جا رہے ہیں تو مجھے ضرورت محسوس نہیں ہوئی کہ اس پر اعتراض کروں۔
میری نظر میں "مبشر زیدی” صاحب پرسنل لائف میں مجالس پڑھ رہے ہیں تو وہ بھی مجھے اس پر بھی کوئی اعتراض کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔
میری نظر میں گلاس آدھا خالی نہیں ہے، بلکہ گلاس آدھا (یا ایک چوتھائی) بھرا ہوا ہے، اور میں اسی پر خوش ہوں اور شیعہ ملحدین اور مبشر صاحب کو جوں کا توں قبول کرتا ہوں۔
مجھے یہ یاد ہے کہ زمانہ مسلمانی میں میرے ذہن میں ہم جنس پرستوں کے خلاف انتہائی زہر بھر دیا گیا تھا، اور انہیں دیکھ کر ہی مجھے ابکائیاں آنی شروع ہو جاتی تھیں۔ اسلام چھوڑ دینے کے باوجود ہم جنس پرستوں کے خلاف میری یہ گھن دور نہیں ہو پائی۔ مگر وقت بہترین مرہم ہے۔ مجھے سالوں کا سفر طے کرنا پڑا تاکہ میں ہم جنس پرستوں کے خلاف اپنی اس گھن پر قابو پا سکوں، انکی آپس کی محبت کو قبول کر سکوں۔
میری رائے میں یہی حال شیعہ ملحدین کا ہے (میں پرسنلی ملحد کی اصطلاح استعمال کرنے کے حق میں نہیں ہوں، اس لیے ایکس شیعہ ایتھئسٹ کہوں گا)۔
ایکس شیعہ ایتھیئسٹ حضرات اگر اسلام کو ترک کر بھی دیتے ہیں، تب بھی ان کے لیے کربلا کو ترک کرنا مشکل ہے۔ مگر وقت بہترین مرہم ہے اور کچھ سالوں کی مسافت طے کرنے کے بعد کربلا بھی دھندلانے لگتی ہے۔ ان شیعہ ایتھئسٹ حضرات کی گواہیاں ہمارے گروپ میں موجود ہیں۔
یہی حال ایکس دیوبندی/اہلحدیث ایتھیئسٹ حضرات کا ہے۔ اسلام ترک کرنے کے باوجود ہو سکتا ہے کہ ان کے دلوں میں کربلا اور حسین کے حوالے سے خلش موجود ہو، اور ہو سکتا ہے کہ وہ معاویہ کو صحابی رسول سمجھ کر معاویہ سے عقیدت جاری رکھیں اور پسرِ صحابی کے ناطے یزید سے بھی الفت جاری رہے۔ بہرحال، وقت کے ساتھ ساتھ یہ جراثیم بھی دور ہو جائیں گے۔
لہذا میری نظر میں ایکس شیعہ/بریلوی ایتھیزم اور ایکس دیوبندی/اہلحدیث ایتھیئزم ایک نان ایشو ہے۔ میں ان دونوں کو ویلکم کہتا ہوں۔ میری نظر میں گلاس پھر بھی آدھا بھرا ہوا ہے، اور بقیہ گلاس بھی وقت کے ساتھ ساتھ بھر جائے گا۔
چنانچہ اپنے آپس کے اختلافات کو زیادہ شدت نہ دیجئے کیونکہ ان کی نوعیت ثانوی ہے۔ اس کے مقابلےمیں اولین نوعیت کی ذمہ داری اسلام پر تنقید کرنے کی ہے۔ چنانچہ ثانوی معاملات میں پڑ کر اولین ترجیحات کو بھول نہ جائیے گا۔

یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

About The Author