نومبر 7, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

زندگی نہ ملے گی دوبارہ۔۔۔||مبشرعلی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی ایک بار ملتی ہے۔ اسے ڈھنگ سے گزارنا چاہیے۔ بہت کچھ انسان کے بس میں نہیں ہوتا لیکن منصوبہ سازی ضرور کرنی چاہیے۔ میں نے زندگی میں کئی اہدف مقرر کیے اور کامیابی سے انھیں حاصل کیا۔
بابا کی خواہش تھی کہ میں ڈاکٹر بنوں۔ لیکن میں میٹرک میں تھا جب انھیں احساس ہوا کہ وہ میری تعلیم مکمل ہونے سے پہلے ریٹائر ہوجائیں گے اور ان کے پاس میرے تعلیمی اخراجات کے پیسے نہیں ہوں گے۔ وہ اپنے خواب سے دستبردار ہوگئے اور مجھے آگاہ کردیا۔ ان کے مشورے پر میں نے بی کام میں داخلہ لے لیا تاکہ ان کی طرح بینک میں ملازمت کی کوشش کروں۔
میں بینک میں کام نہیں کرنا چاہتا تھا۔ بی کام کے باوجود جرنلزم کی طرف جانے کا ارادہ کیا۔ بچپن سے کہانیاں لکھ رہا تھا۔ ترجمہ کی ہوئی کہانیاں چھپ رہی تھیں۔ ایک دو اخبارات میں درخواست بھیجی اور انٹرویو ہوئے لیکن کامیابی نہیں ملی۔ تب میں نے ایک پلان بنایا۔
مجھے کرکٹ سے دلچسپی تھی اور کھیلوں پر مضامین لکھتا تھا۔ میں نے کرکٹ ریکارڈز کی ایک کتاب مرتب کی۔ پی ٹی سی پاکستان میں کرکٹ کا سب سے بڑا اسپانسر تھا۔ اسے اپنے ماموں کی مدد سے بہت اچھی انگریزی میں ایک خط لکھا کہ میری کتاب کو اسپانسر کریں۔ اس کے علاوہ بھی کئی اداروں میں جاکر اشتہارات حاصل کیے۔ کسی تجربے کے بغیر کتاب کمپوز کروائی، خود پروف پڑھے، پریس سے معاملات طے کیے، کاغذ خرید کر پریس پہنچایا، جلدبندی کروائی۔ کتاب چھپ گئی تو تمام اداروں میں پہنچاکر پیسے وصول کیے، اخبارات کے دفاتر جاکر اسپورٹس رپورٹرز سے ملا، کتاب پیش کی، خبریں چھپوائی، اخبار وطن، کرکٹر اور کرکٹ ہیرلڈ میں تعارف کروایا۔ حد یہ کہ بیرون ملک کھیلوں کے جریدوں اور صحافیوں کو کتاب بھیجی۔ وزڈن المانیک تک میں کتاب کا نام چھپا۔ برطانوی صحافیوں نے مجھے شکریے کے خطوط بھیجے اور چھٹے ورلڈکپ کی کوریج کے لیے پاکستان آئے تو مجھ سے ملے۔
فائدہ یہ ہوا کہ بہت سے کھلاڑی اور صحافی مجھے جان گئے۔ چند ماہ میں پہلی ملازمت مل گئی۔ پھر صوفی صاحب ملے۔ وہ پہلے اخبار وطن کے ایڈیٹر تھے، پھر جنگ، ایکسپریس اور اب جیو کے اسپورٹس ایڈیٹر ہیں۔ ایکسپریس کا آغاز ہوا تو مجھے ملازمت دلوائی۔ جیو میں بھی مجھے ساتھ لے گئے۔
تعلیم، صلاحیتیں اور شوق بھی چاہیے لیکن نیٹ ورکنگ ضروری ہے۔
دوسرا منصوبہ سنیں۔ کتابیں ہمیشہ سے جمع کررہا ہوں۔ لیکن بیٹی پیدا ہوئی تو ننھے بچوں کی کتابیں خریدنا شروع کردیں۔ رنگین کتابیں۔ کارٹون والی کتابیں۔ بچوں کی پسند کی کتابیں۔ پھر بیٹا ہوا۔ بچے بڑے ہوتے گئے۔ ان کی پسند کی کتابیں خریدتا گیا۔ ہم جب بھی شاپنگ کے لیے جاتے، میں کتابوں کی دکان میں ضرور لے جاتا۔ بچوں کو ایک دو کتابیں ضرور دلواتا۔ بچوں میں مطالعے کا شوق پیدا ہوگیا۔ مجھ سے بھی زیادہ شوق۔ میری بیٹی میری کتابوں کا مجھ سے زیادہ دھیان رکھتی ہے۔ بیٹا بے شمار کتابیں چاٹ چکا ہے۔
لوگ کہتے ہیں کہ ان کے بچوں کو مطالعے کا شوق نہیں۔ یہ شوق ایک دن میں پیدا نہیں ہوتا۔ منصوبہ بنانا پڑتا ہے۔ اس پر عمل کرنا پڑتا ہے۔
تیسرے منصوبے میں زیادہ لوگوں کو دلچسپی ہوگی۔
میرا دوست شباہت حسین ہمیشہ سے پاکستان سے نکلنا چاہتا تھا۔ وہ 1996 میں اس کوشش میں کامیاب ہوا۔ اس کے بعد پہلی بار میں نے باہر جانے کا سوچا۔ شادی کے بعد میں نے خود سے تین وعدے کیے۔ بیوی بچے چھوڑ کر نہیں جاوں گا، غیر قانونی طریقے سے نہیں جاوں گا اور اسائلم نہیں لوں گا۔
میں نے بیس سال تک پاکستان سے نکلنے کے منصوبے پر قدم بہ قدم عمل کیا۔ تعلیمی قابلیت بڑھائی۔ اچھے اداروں میں کام کیا۔ جب پیسے ہوئے، قریبی ملکوں میں جاتا رہا تاکہ پاسپورٹ بھاری ہوجائے۔ صحافی ہونے کی وجہ سے تھوڑا نام بھی بن گیا اور کچھ تعلقات بھی استوار ہوگئے۔
اس دوران انگلینڈ کا وزٹ ویزا تین بار اپلائی کیا۔ دو بار ریجیکٹ ہوا، ایک بار لگ گیا لیکن جا نہیں سکا۔ یورپ کا وزٹ ویزا ایک بار ریجیکٹ ہوا، ایک بار لگ گیا اور دورہ کرلیا۔ امریکا کا وزٹ ویزا دو بار ریجیکٹ ہوا اور تیسری بار جرنلسٹ ویزا ملا تو دورہ کرلیا۔ اس دورے میں وائس آف امریکا کے دفتر گیا۔ خود نہیں گیا، دوست وہاں تھے جنھوں نے مدعو کیا۔
یہ محض اتفاق تھا کہ اس وقت وہاں اسامی تھی۔ اس وقت نہ ہوتی، مستقبل میں امکان ہوتا تو میں نیٹ ورکنگ کرچکا تھا۔ پیشکش ہوئی، میں نے قبول کی اور آخرکار بیوی بچوں کے ساتھ امریکا پہنچ گیا۔ اب جاب نہیں رہی لیکن امیگریشن ہوچکی تھی۔ میرے بچوں کے پاس وہی مواقع ہیں جو اس سرزمین کے کسی بھی شہری کے پاس ہیں۔ میں اور وہ دونوں امریکی یونیورسٹیوں میں پڑھ رہے ہیں۔ اور کیا چاہیے؟
اگر آپ کسی مسیحا یا امام مہدی کے منتظر ہیں کہ وہ آکر آپ کو ڈگری یا جاب یا ویزا دلوائیں گے تو یقین کیجیے، وہ آ بھی گئے تو آپ کو کچھ نہیں دیں گے۔ آپ خود اپنے امام ہیں۔ جی چاہے تو دنیا فتح کرلیں۔ نہیں تو اپنی ناپسندیدہ ملازمت کی ماہانہ تنخواہ سے اس بجلی کا بھاری بل بھرتے رہیں، جو جرنیلوں، ججوں اور سیاست دانوں کو مفت ملتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

About The Author