دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آج کل پھر وہی حالات ہیں۔۔۔||مبشرعلی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیس بائیس سال پہلے میں جنگ میں لندن ڈیسک پر کام کرتا تھا۔ ماسٹرز نہیں کیا تھا۔ قابلیت بڑھانے کے لیے کراچی یونیورسٹی میں داخلے کی کوشش کی۔ معلوم ہوا کہ گریجویشن کو ایک خاص مدت، شاید پانچ سال ہوچکے ہوں تو ریگولر ماسٹرز میں داخلہ مشکل ہوجاتا ہے۔ ایسے امیدواروں کے لیے ہر کلاس میں صرف ایک نشست ہوتی ہے۔
میں نے اس کا حل یہ سوچا کہ دوبارہ پرائیویٹ گریجویشن کرلی جائے۔ ایک سال رجسٹریشن کروائی اور اگلے سال کمبائنڈ کا داخلہ فارم بھردیا کہ تمام دس پرچے ایک ساتھ دے دوں گا۔
مالی حالات خراب تھے۔ بابا کی پینشن اور میری تنخواہ ملاکر بھی گزارہ نہیں ہورہا تھا۔ خوش قسمتی سے عباس عالم صاحب سے واقفیت ہوئی اور انھوں نے ایڈ ایجنسی آر لنٹس میں پارٹ ٹائم جاب کروادی۔
میں صبح آٹھ بجے گھر سے نکلتا تھا۔ نو سے دو بجے تک لنٹس، پھر چار سے گیارہ بجے رات تک جنگ۔ لندن ڈیسک کے کارکن پانچ بجے تک پہنچتے تھے۔ میں وقت سے دو گھنٹے پہلے پہنچ کر ایڈیٹوریل انچارج اصلاحی صاحب کے پاس بیٹھا رہتا۔
اس دوران ایکسپریس سے ملازمت کی پیشکش ہوئی۔ وہاں میں پہلے کئی سال کام کرچکا تھا۔ جنگ سے بہتر تنخواہ تھی لیکن ٹائمنگ ایسی تھی کہ لنٹس کی ملازمت چھوٹ جاتی۔ جنگ اور لنٹس کے پیسے ملاکر ایکسپریس سے زیادہ بن رہے تھے۔ میں پیچھے ہٹ گیا لیکن جنگ تک خبر پہنچ گئی کہ مجھے پیشکش ہوئی ہے۔ انھوں نے مجھے لندن ڈیسک کی ملازمت کے ساتھ کراچی میگزین کے اسپورٹس صفحات کا انچارج بنادیا۔ تنخواہ ڈیوڑھی سے بھی زیادہ کردی۔
میں نے سکھ کا سانس لیا۔ لنٹس کا کنٹریکٹ دسمبر تک کا تھا اور ایک ماہ باقی تھا۔ سوچا کہ اسے مکمل کرلوں۔
اتفاق سے دسمبر ہی میں بی اے کے پرچے آگئے جن کا وقت دوپہر دو سے پانچ بجے تک تھا۔
اب شیڈول یہ بنا کہ صبح نو سے دوپہر دو بجے تک لنٹس میں کام کرتا۔ بس پکڑ کے تین بجے تک ہانپتا کانپتا کراچی یونیورسٹی پہنچتا۔ ممتحن کہتا، ایک گھنٹا ضائع کردیا، اب کیا لینے آئے ہو؟ میں ایک گھنٹے میں پرچہ مکمل کرکے چار بجے واپس کرتا تو وہ طنزیہ مسکراہٹ سے دیکھتا کہ ہار مان لی نا؟ بس سے پانچ بجے جنگ پہنچ جاتا۔
جنگ لندن سے چھٹی والے دن جنگ میگزین کے اسپورٹس مضامین لکھتا۔ ایک آدھ انٹرویو فون پر کرلیتا۔ پھر صفحات کی پیج میکنگ کرواتا۔ پیج میکر نخرے کرتا تو ان پیج پر صفحہ خود بنالیتا تھا۔ میں سارا کام جانتا تھا۔
ایک مسئلہ یہ ہوا کہ عوام اخبار کے زبیر صاحب مرحوم نے مجھ سے کہا کہ ورلڈ بینک کی سندھ طاس معاہدے کی رپورٹ کا اردو ترجمہ کردو۔ میں اس قدر مصروف تھا کہ رونے کو جی چاہتا تھا۔ انھیں منع کردینا چاہیے تھا یا وقتی طور پر ٹال دینا چاہیے تھا۔ لیکن نہیں ٹال سکا۔ کئی راتیں جاگ کر وہ ترجمہ کیا۔
جنوری میں حالات سنبھل گئے۔ لنٹس چھوڑ دی۔ جنگ کی تنخواہ مناسب ہوگئی۔ بی اے کا نتیجہ آیا تو فرسٹ ڈویژن میں کامیاب ہوگیا۔
فرسٹ ڈویژن اتفاق سے نہیں آئی۔ ہمیشہ سے ایسا ہے کہ جو ایک بار پڑھ لیا، وہ یاد رہتا ہے۔ لکھنے کی رفتار بھی اول دن سے تیز رہی ہے۔ کبھی کوئی پرچہ مکمل کرنے میں ڈیڑھ گھنٹے سے زیادہ وقت نہیں لگا۔
آج کل پھر وہی حالات ہیں۔
صبح ایک کام لبھا ہے۔ پیسے کم ہیں لیکن آگے بہتری کی امید ہے۔ آٹھ نو گھنٹے کی شفٹ کے بعد چند گھنٹے اوبر بھی چلانی پڑتی ہے۔ یونیورسٹی کا تیسرا سیمسٹر چل رہا ہے۔ فیس بک کی لڑائیاں جاری ہیں۔ کتب خانے میں کتابیں شئیر کررہا ہوں۔ مہینے میں فکشن کی دو تین کتابیں پڑھ لیتا ہوں۔ اسپینش سیکھنے کی کوشش بھی جاری ہے۔
اس کے علاوہ نااہلیت کم کرنے کے لیے دس ماہ میں آٹھ سرٹیفکیشنز کرچکا ہوں۔ آج پھر ایک ٹیسٹ ہے۔ امتحانات سے نہیں گھبراتا لیکن اعصاب پر دباؤ تو ہوتا ہے۔ اسی دباؤ کو کم کرنے کے لیے ماضی کو یاد کررہا ہوں۔

یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

About The Author