مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بے شمار لوگوں کی طرح میرا لڑکپن بھی اشتیاق احمد، مظہر کلیم اور ابن صفی کے ناول پڑھتے ہوئے گزرا ہے۔ ان میں ابن صفی کا درجہ دوسروں سے بلند ہے لیکن بچوں کی پہلی منزل اشتیاق احمد ہی ہوا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے ان کا جو پہلا ناول پڑھا، وہ مصنوعی قتل تھا۔ جیرال کا منصوبہ ان کا پہلا خاص نمبر تھا۔
ہائی اسکول میں آنے کے بعد میں نے انھیں خط لکھنا شروع کیے۔ وہ ہر خط کا جواب بذریعہ ڈاک ضرور بھیجتے تھے۔ کوئی ان کی طرف سے جواب لکھتا تھا۔ اس کا اندازہ اس طرح ہوا کہ خط بال پین سے لکھا جاتا تھا اور اشتیاق احمد دستخط انک پین سے کرتے تھے۔ میرے بعض خط ناولوں میں چھپے بھی۔ وہ ناول کے آخر میں ایک سوال پوچھتے تھے اور درست جواب پر انعام ملتا تھا۔ کراچی میں ناول بھی دیر سے پہنچتے تھے اور میرے جواب کا خط لاہور پہنچنے میں بھی کچھ وقت لگتا تھا۔ اس کے باوجود میں نے کئی بار انعام جیتے۔ ان کے سب سے طویل خاص نمبر سنہری چٹان کے انعام یافتگان میں بھی میں شامل تھا۔
اشتیاق احمد نے بچوں کا ایک رسالہ چاند ستارے کے نام سے نکالنے کا اعلان کیا۔ میں اس وقت نویں یا دسویں میں تھا۔ رسالے کے لیے ایک حمد بھیجی۔ وہ پہلے شمارے کے پہلے صفحے پر چھپی۔ بعد میں اور تحریریں بھی شائع ہوئیں۔ رسالہ کچھ عرصے بعد بند ہوگیا لیکن میرے پاس وہ شمارے محفوظ ہیں جن میں میرا نام چھپا۔
اشتیاق احمد جھنگ میں رہتے تھے اور سپاہ صحابہ کے زیر اثر آگئے تھے۔ وہ اہل تشیع سے نفرت کرنے لگے تھے۔ اس کا اظہار ان کی آپ بیتی میں بھی ہوا ہے۔ انھوں نے کراچی بک فئیر میں آنا شروع کیا تو میں ان سے جاکر ملا۔ وہ بہت محبت سے ملے۔ پھر کئی سال تک ملاقاتیں ہوئیں۔ اگر میں پہلے دن نہ پہنچتا تو وہ اپنے میزبان فاروق بھائی سے میرے بارے میں پوچھتے۔ آخری بار میں اپنے بیوی بچوں کو ان سے ملوانے لے گیا اور تصویریں بنوائیں۔ ان کا انتقال بھی کراچی بک فئیر سے واپسی پر ائیرپورٹ پر ہوا تھا۔
مظہر کلیم سے کبھی خط و کتابت یا ملاقات نہیں ہوئی لیکن میں نے ان کے بھی سیکڑوں ناول اور کہانیوں کی کتابیں پڑھیں۔ وہ عمران سیریز کے علاوہ آنگلو بانگلو، چلوسک ملوسک، چھن چھنگلو، عمرو عیار اور ٹارزن کی کہانیاں بھی لکھتے تھے۔ میں نے ان کی بہت سی کتابیں جمع کرلی تھیں۔
ہمارے چھوٹے ماموں ابن صفی کو پڑھتے تھے۔ وہ ایک بار کراچی سے اسلام آباد جاتے ہوئے خانیوال میں نانی کے پاس رکے تو ایک ناول بھول گئے۔ مجھے یاد ہے، اس کا عنوان تھا، بلی چیختی ہے۔ میں نے میٹرک کے بعد ابن صفی کو دلچسپی سے پڑھنا شروع کیا اور سارے ناول پڑھ ڈالے۔ ان کا کافی پہلے انتقال ہوگیا تھا اس لیے میری ان سے ملاقات ممکن نہیں تھی لیکن میری خوش قسمتی کہ ان کے بیٹے احمد صفی سے آشنائی ہوگئی۔ ان سے کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ وہ بے حد نفیس، خوش اخلاق اور محبت کرنے والے آدمی ہیں۔ ان سے چند ملاقاتیں بھی زندگی کا سرمایہ ہیں۔
ابن صفی کا پہلا جاسوسی ناول مارچ 1952 میں چھپا تھا جس کا عنوان دلیر مجرم تھا۔ یہ عمران سیریز نہیں، انسپکٹر فریدی اور سارجنٹ حمید کے کرداروں پر مبنی تھا۔ مظہر کلیم کا پہلا ناول ماکا زونگا تھا۔ انھوں نے انکشاف کیا تھا کہ یہ ناول پہلی بار ابن صفی کے نام سے چھپا تھا کیونکہ اس وقت ان کے سوا کسی کے نام کا ناول نہیں بکتا تھا۔ اشتیاق احمد کا پہلا ناول پیکٹ کا راز تھا۔ یہ انسپکٹر جمشید سیریز کا آغاز تھا لیکن دلچسپ بات ہے کہ اس میں انسپکٹر جمشید کہیں نہیں تھے کیونکہ ان کا انتقال ہوچکا تھا۔ پیکٹ کا راز کی مقبولیت کی وجہ سے اشتیاق احمد کو دوسرے ناول میں انسپکٹر جمشید کو زندہ کرنا پڑا۔ پھر یہ ہوا کہ اشتیاق احمد کا انتقال ہوگیا لیکن انسپکٹر جمشید زندہ ہیں۔
آج میں نے کتب خانہ گروپ میں تینوں بڑے ادیبوں کے اولین جاسوسی ناول پیش کیے ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر