حسنین جمال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسی لڑکی جو مردوں کی طرح رہتی ہو، اسے دیکھ کے ہمیں کچھ بھی مسئلہ نہیں ہوتا۔
ماہی منڈا، ٹام بوائے، رف ٹف یا کچھ بھی کہہ کر ہم اس کے بارے میں بات کرتے ہیں اور کہانی آئی گئی ہو جاتی ہے۔
بچپن میں ایک روپیے کے اندر سولہ آنے ہوا کرتے تھے۔ آدھا روپیہ مطلب اٹھنی اور چوتھائی روپیے کی چونی۔
تو مرد ہمیں سولہ آنے پورا چاہیے۔ اس میں چونی بھی کم ہو گی تو ہمیں خواہ مخواہ غصہ، تکلیف، افسوس، عبرت، غیرت، شرم یا کچھ بھی ایسا آنا شروع ہو جائے گا جو عام طور پہ تب آتا ہے جب اخلاق سے گری ہوئی بات کہیں ہو جائے یا دکھائی دے۔
ایسا ہوتا اس لیے ہے کہ مرد صرف ہمیں نہیں، پورے معاشرے کو ’مکمل‘ چاہیے۔ عورت مکمل ہو یا غیر مکمل، ہم اس کے بارے میں زیادہ کنسرنڈ نہیں ہوتے۔ وہ تو پہلے ہی ‘عورت’ ہے!
ابھی تک آپ مطمئن نہیں لگ رہے؟ اوکے۔ بچپن میں اگر بیٹی لڑکوں جیسا بولے، مردانہ کپڑوں میں گھومے، گڑیوں سے نہ کھیلے، کچھ بھی اور کر لے تو آپ کو زیادہ سے زیادہ کیا تشویش ہوتی ہے؟ یہی کہ لڑکی ہو کے لڑکوں جیسی حرکتیں کر رہی ہے؟ آپ کو اس میں کوئی اس طرح کی شرم محسوس ہوتی ہے کہ ’ہماری اولاد مکمل نہیں ہے؟‘
بیٹا ہو اگر آپ کا اور وہ سات آٹھ سال کی عمر میں نیل پالش لگائے، لمبے بال رکھنا چاہے، میک اپ میں دلچسپی لے، ماں جیسے کپڑے پہننے کی خواہش کرے، ڈانس میں عورتوں جیسے سٹیپس ہوں ۔۔۔ تب کیا کریں گے آپ؟
- اس کی پھینٹی لگتی ہے
- اسے ڈاکٹر کے پاس لے جایا جاتا ہے
- پیروں فقیروں کے وزٹ شروع ہوتے ہیں
- اسے بند کر دیا جاتا ہے
بڑا ہو کر بھی ’سیدھا‘ نہ ہو تو اسے مار مار کے بالکل مار دیتے ہیں یا عاق کر دیا جاتا ہے۔ کوئی درمیانہ راستہ کبھی سنا کسی نے نکالا ہو؟
کوئی راستہ نکلتا بھی ہے تو اولاد اور ماں باپ کی خاموش مفاہمت یا جبری اتفاق کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔
تو، یہ سوچیں بس، کہ مرد کون نہیں رہنا چاہے گا؟ معاشرے کی سب سے غالب کلاس، جس نے دنیا کا پورا سسٹم بنایا ہے، پورا خاندانی نظام جس کے گرد گھومتا ہے وہ آخر کیوں اپنی یہ ’پریولجڈ پوزیشن‘ چھوڑ کے عورت جیسا ہونا چاہتا ہے؟ کچھ تو ہے یا نہیں؟
ٹرانس جینڈر بل اس چیز کو تحفظ دیتا تھا کہ اگر وہ مرد خود کو مرد نہیں سمجھتا تو بات ختم۔ اگر کوئی عورت خود کو عورت نہیں سمجھتی تو ٹھیک ہے، جو انسان خود کو جیسا سمجھتا ہے، اسے وہ شناخت دے دی جائے گی۔ دنیا بھر میں یہی اصول ہے اور اسے ’سیلف آئیڈینٹیفکیشن‘ کا نام دیا جاتا ہے۔
مغرب میں بھی یہ بحث جاری ہے کہ ایسے ٹرانس افراد جن میں بظاہر کوئی جسمانی فرق نہیں ہوتا، وہ پیدا ہی اس طرح ہوتے ہیں یا دماغ میں کوئی تبدیلی انہیں جنس تبدیل کرنے پر مائل کرتی ہے۔
ابھی تک کی سادہ ترین تعریف کے مطابق ٹرانس لوگوں کے دماغ میں قدرت کی طرف سے دیے گئے جسم اور اپنی جنسی شناخت کے تصور پر اتفاق نہیں ہو پاتا، اس میں سے میڈیکل ثبوت نکال کے کرنا کیا ہے؟
2017 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں 10 ہزار چار سو لوگ ٹرانسجینڈر تھے۔
2018 میں ایکس کارڈ کی آپشن کے بعد سے اب تک یہ تعداد تیس ہزار تک پہنچی ہے۔ آپ کے خیال میں ایکس کارڈ بنوا کے ٹرانس جینڈرز کی موجیں لگ جاتی ہیں؟ یقین کیجے کہ انہیں صرف شناخت ملتی ہے قانونی، باقی سب چھٹی!
طے شدہ بات ہے کہ پاکستانی قانون میں جنسی شناخت کے بغیر اولاد کا وراثت میں حصہ نہیں ہوتا۔
’ایکس کارڈ کے بعد اب مسئلہ یہ ہو گیا ہے کہ خواجہ سرا اگر ایکس کارڈ بناتا ہے تو وہ فیملی ٹری سے نکل جائے گا۔ اس کے شجرے میں خاندان نمبر نہیں لکھا جائے گا۔ جب یہ ہو گا تو وہ وراثتی جائیداد کا حق دار نہیں ہو گا۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ گرو کا گھر اس کے چیلے کو مل جائے، وہ بھی تب کہ اگر وہ اپنی زندگی میں لکھ کر دے گیا ہے۔ اس وجہ سے خواجہ سرا ایکس کارڈ بنواتے ہی نہیں ہیں۔‘
ایکس کارڈ بنوائیں یا نہیں، پاکستان میں خود کو ٹرانسجینڈر ظاہر کرنے کے بعد ماں باپ کی وراثت میں کوئی حصہ اور پڑھائی یا نوکریوں کا چانس پہلے بھی زیرو تھا، اب بھی وہی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس نظام کو ٹھیک کرنے کی بات ہوئی ہے اور ہم ازاربندی تحقیق کرنے نکل کھڑے ہوئے ہیں۔
ہمیں خوف ہے کہ ہماری اولاد ایسی نکل آئی تو کیا ہو گا؟ ہمیں تشویش ہے کہ ان بچوں نے وراثت میں حصہ مانگ لیا تو کیا ہو گا؟ ہمیں خدشہ ہے کہ یہ لوگ آپس میں شادیاں کرنے لگیں گے، ہمیں ڈر ہے کہ یہ قانون پاس ہو گیا تو پاکستان میں ’ہم جنس پرستی‘ ہھیل جائے گی۔
کس شہر سے ہیں آپ؟ کیا آپ کے علاقے میں یہ سب کچھ نہیں ہوتا؟ بغیر بچوں کی رضامندی کے نہیں ہوتا؟ سب سے زیادہ کن جگہوں پر ہوتا ہے؟ کون لوگ اسے پسند کرتے ہیں؟ گریبان میں جھانکیے۔
جو لوگ پہلے یہ سب کچھ جبری طور پہ معصوم بچوں کے ساتھ کرتے تھے، وہ بے فکر رہیں، ان کا دھندا کوئی نہیں چھیڑ رہا، انہیں اب بھی ’ادارہ جاتی تحفظ‘ حاصل رہے گا۔
رہی بات شادی کی تو سرکاری طور پہ ڈکلیئرڈ ہم جنسوں کی شادی پاکستانی قانون میں دور دور تک موجود نہیں ہے اور نہ ہی کوئی چانس ہمارے قانون ساز اداروں میں ایسا پایا جاتا ہے، سمجھ لیں یہ اسرائیل کو دوست تسلیم کرنے جیسا ہے۔ کون سی حکومت کرے گی؟
ایکس کارڈ لینے کے بعد ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ ’بچے، عورت یا مرد کا ریپ ہو تو سزائیں موجود ہیں، ایکس کارڈ والوں کے ریپ کی صورت میں کوئی دفعات ہی موجود نہیں ہیں۔ ہاں کوئی وکیل انسانی بنیادوں پر خواجہ سراؤں کے لیے وہی ریپ کی دفعات نافذ کروا لے تو الگ بات ہے۔‘
پھر ’بزرگ خواجہ سرا عام طور پہ حج عمرہ کرنے کی خواہش رکھتے ہیں لیکن سفارتی پابندیوں کی وجہ سے ایکس کارڈ والے حج عمرے پہ نہیں جا سکتے۔ ڈکلیئرڈ ایکس شناخت والے افراد کے لیے یہ بھی ممکن نہیں ہے۔‘
تو بنیادی طور پہ ٹرانس جینڈر بل اس لیے پیش ہوا کہ ایکس کارڈ والوں کو اپنی قانونی شناخت، جائیداد میں حصہ، ووٹ کا حق، جیل میں الگ سیل، پارلیمنٹ میں نمائندگی، نوکری میں کوٹہ، پبلک پلیس پر الگ باتھ روم اور اس طرح کے دوسرے بنیادی انسانی حقوق مل سکیں جو ہم آپ کو پیدائشی طور پہ مل چکے ہوتے ہیں اور اسی لیے شاید ہمیں مسئلے کی نوعیت سمجھ بھی نہیں آتی۔
گھوم پر کے مسئلہ وہیں آتا ہے کہ معاشرے میں اتنی زیادہ نفرت کے باوجود اگر کوئی مرد اپنی مرضی سے ایکس کارڈ بنوا رہا ہے، جب کہ ابھی بل منظور ہوا بھی نہیں، تو یار سوچیں تو سہی کہ اس کے ساتھ آخر کیا پرابلم ہو گی؟ وہ کیوں اتنی ساری قربانیاں دے کے ایک چیز پہ اڑا ہوا ہے؟ اس کے سارے انسانی حقوق ایک ’شناخت‘ کے بعد ہوا میں اڑ جاتے ہیں لیکن وہ کہتا ہے کہ نہیں، میں جو کچھ ہوں بس اتنا مجھے مان لو۔
ٹرانس جینڈرز کا بنیادی مسئلہ ان کی شناخت ہے، مطلب یہ کہ جس ملک میں وہ پیدا ہوئے وہ انہیں ان کی حیثیت میں تسلیم کر لے۔
شاید ہم دونوں کا ایک ہی مسئلہ ہے۔۔۔
مرد نہ ہونے کا مسئلہ!
نوٹ: اس تحریر میں ٹرانس ایکٹوسٹ فیضی کے کمنٹس شامل ہیں جو واوین کے اندر موجود ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر