مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بول نیوز کا لائسنس لبیک ٹی وی کے نام پر ہے۔ محترم کامران خان جب جیو کے ملازم تھے اور پروگرام کرتے تھے، تب یہ لائسنس انھوں نے حاصل کرلیا تھا۔
میر شکیل الرحمان کو علم تھا لیکن ان میں ٹیمپرامنٹ انتہا کا ہے۔ انھوں نے کبھی جتایا بھی نہیں ہوگا۔
مجھ جیسے عام کارکن تک کو اس وقت بھی علم تھا کہ کامران صاحب دن میں ایگزیکٹ کے دفتر جاتے تھے اور شام کو جیو کے دفتر آکر اپنا شو کرتے تھے۔
جیو کے ملازمین کو ایگزیکٹ سے ای میلز آنا شروع ہوئیں تو نیوزروم میں چہ مگوئیاں ہوئیں کہ یہ ای میل ایڈرس ایگزیکٹ کو کیسے ملے۔ بعض گروپ ای میل ایڈرس باہر والوں کو معلوم نہیں تھے۔
ظاہر ہے کہ کامران صاحب اور جیو میں ان کے ساتھی بیٹھے تھے۔ ای میل ایڈرس یہاں سے کاپی کرکے وہاں سے خود ہی ای میل کرتے ہوں گے۔
جب ایگزیکٹ کا پول کھل گیا تو کامران صاحب پتلی گلی سے نکل لیے اور شعیب شیخ پھنس گیا۔
میں ایگزیکٹ سے کئی کالز آنے کے باوجود ایک بار بھی اس دفتر نہیں گیا۔ بلکہ دوسروں کو بھی روکتا رہا۔ بول جانے والے میرا مذاق اڑاتے تھے اور تنقید کرتے تھے۔
کامران صاحب جب تک جیو میں تھے، ان کا بڑا رتبہ تھا۔ میر شکیل الرحمان، جنگ اور جیو کی چھتری میں بہت سے لوگ بڑے لوگ تھے۔ اس چھتری سے نکل کر قد چھوٹا ہوجاتا ہے۔ کامران صاحب کے ٹوئیٹس، ان کے ولاگز، ان کی گفتگو سب سے عیاں ہوگیا کہ ان کی قامت کتنی ہے، شعور کس قدر بلند ہے اور وہ کس کے اشاروں پر موقف اپناتے اور بدلتے ہیں۔
بول کا نہ صحافت سے تعلق ہے اور نہ اس کی بندش اظہار کی آزادی پر حملہ ہے۔ یہ سچ کی آواز دبانے کے لیے بجایا جانے والا ڈھول تھا۔ بدقسمتی سے اب سچ بولنے والے ادارے کم ہیں اور ڈھول زیادہ۔ صحافی کم ہیں اور ڈھولچی زیادہ۔
لطیفہ مشہور ہے کہ کسی شاعر نے منیر نیازی سے پوچھا، شعرائے کرام میں میرا کیا مقام ہے؟
منیر نیازی نے کہا، شعرائے کرام میں تمھارا وہی مقام ہے جو ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام میں مرزا غلام احمد قادیانی کا ہے۔
سیاست میں پاگل خان اور میڈیا میں بول کا بھی وہی مقام ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر