مئی 11, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ہٹلر اور کرکٹ کہانی۔۔۔||مبشرعلی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کہانی آپ نے بھی سنی ہوگی کہ ہٹلر نے کرکٹ کا ایک میچ دیکھا اور جب اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا تو اس نے تمام کرکٹرز کو موت کی سزا دے دی۔ افواہوں پر یقین کرنے والے کہیں گے، یہ سچ ہے۔ سمجھ دار لوگ کہیں گے، جھوٹ ہے۔ حقیقت تھوڑی سی مختلف ہے۔
ہٹلر کو کرکٹ سے واقعی کچھ دلچسپی تھی۔ یہ انکشاف برطانیہ کے رکن پارلیمان اولیور لاکر لیمپسن نے ایک کالم میں کیا تھا۔ ان کی یہ تحریر ڈیلی مرر میں 30 ستمبر 1930 کو شائع ہوئی تھی۔ میں اس کا عکس پوسٹ کررہا ہوں۔
یاد رہے کہ اس وقت تک ہٹلر کا عروج شروع نہیں ہوا تھا۔ نازی پارٹی کی پارلیمان میں صرف 12 نشستیں تھیں۔ ہٹلر بغاوت کے جرم میں جیل بھی بھگت چکا تھا۔ اولیور نازی پارٹی کے ہمدرد تھے۔ انھوں نے لکھا کہ ہٹلر کی ملاقات ایک کیمپ میں برطانوی جنگی قیدیوں سے ہوئی۔ اس نے کہا کہ وہ کرکٹ کے بارے میں جاننا چاہتا ہے۔ برطانوی فوجیوں نے اسے کھیل سے آگاہی دی اور قوانین بتائے۔ چند دن بعد ہٹلر وپس آیا اور بتایا کہ اس نے جرمن کرکٹرز کی ٹیم بنالی ہے اور ان کے ساتھ میچ کھیلنا چاہتا ہے۔
اولیور کا خیال ہے کہ ایک میچ ہوا بھی تھا۔ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ اس میچ میں ہٹلر پہلی گیند پر آوٹ ہوگیا تھا۔
اصل مزے کی بات اولیور نے یہ لکھی کہ ہٹلر کرکٹ کے چند قوانین تبدیل کرنا چاہتا تھا۔ اس نے ایک تجویز یہ دی کہ پیڈز باندھنے کی ضرورت نہیں۔ اس کے بغیر کھیل ہونا چاہیے۔ مزید یہ کہ گیند ہلکی ہے۔ اسے مزید بھاری کیا جانا چاہیے۔
دنیا کی بدقسمتی کہ اس کے بعد ہٹلر کا سیاسی عروج شروع ہوگیا اور کرکٹ کی خوش قسمتی کہ وہ بچ گئی۔ لیکن بہرحال ہٹلر اور کرکٹ کا ایک سامنا ہونا باقی تھی۔ وہی موقع، جس کے بعد افواہوں نے جنم لیا۔
نازی پارٹی کے رہنما وون شیمر 1937 میں جرمنی اور امریکا کے درمیان ڈیوس کپ کا سیمی فائنل دیکھنے انگلینڈ گئے۔ اس دورے میں انھوں نے لارڈز جاکر مڈل سیکس اور ووسٹرشائر کا میچ بھی دیکھا۔ ان کی ملاقات ووسٹرشائر کے میجر مورس جیول سے ہوئی۔ وون شیمر نے انھیں دعوت دی کہ اپنی کرکٹ ٹیم لے کر جرمنی آئیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جرمنی میں کرکٹ کھیلی جاتی تھی اور وہاں کرکٹ ٹیم موجود تھی۔
جنٹلمین آف ووسٹرشائر کاؤنٹی کی سرکاری ٹیم نہیں تھی۔ وہ میجر مورس نے خود تشکیل دی تھی اور اس میں صرف پانچ فرسٹ کلاس کرکٹر تھے۔ باقی شوقیہ کھلاڑی اور اسکولوں کے لڑکے تھے۔ یہ ٹیم اگست 1937 میں برلن پہنچی۔ ان کے دورے کی خبر مقامی اخبارات میں شائع ہوئی۔ میں ایک تراشہ یہاں پوسٹ کررہا ہوں۔
اتفاق سے ان دنوں برلن کی 700 سالہ تقریبات منائی جارہی تھیں۔ مہمان کھلاڑیوں نے ان تقریبات میں شرکت کی اور میزبانوں کو خوش کرنے کے لیے نازی سلوٹ بھی کیا۔
اس دورے کے بارے میں مکمل تفصیل وزڈن یا کرکٹ انفو پر موجود نہیں۔ بی بی سی کے مطابق تین میچ ہوئے اور جنٹلمین تینوں باآسانی جیت گئے۔ لیکن کرکٹ رائٹر جو ڈیز نے لکھا ہے کہ ایک پانچ روزہ میچ کھیلا گیا جو بے نتیجہ رہا۔
افواہ اس قصے سے پھیلی کہ پانچ روزہ میچ میونخ میں کھیلا گیا تھا اور اس کے چوتھے دن کا کھیل ہٹلر نے دیکھا تھا۔ بس۔ ہٹلر نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا اور ٹیم کو مروانے کی خبر قطعی جھوٹی ہے۔
جو بات سچ ہے وہ یہ کہ اس میچ میں جرمنی کے بہترین کرکٹر آرتھر شمٹ کو نہیں کھلایا۔ کیوں؟ اس لیے کہ وہ یہودی تھا۔ اس کے بجائے شمٹ کو میچ میں امپائرنگ کا موقع دیا گیا۔ میچ کے بعد یادگاری دستاویزات پر دستخط کیے گئے تو شمٹ کو شامل نہیں کیا گیا۔
اپریل 1943 میں آرتھر شمٹ کو آش وٹز بھیج دیا گیا جہاں اس کا وہی انجام ہوا جو گیس چیمبر میں لاکھوں دوسرے یہودیوں کا ہوا۔ جی ہاں، ہٹلر نے کم از کم ایک کرکٹر کو موت کی سزا دی تھی۔ اور وہ جرمنی کا بہترین کرکٹر تھا۔

یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

%d bloggers like this: