مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج ایک پرانی ڈائری دیکھتے ہوئے عجیب بات یاد آئی۔ میں 2001ء میں روزنامہ ایکسپریس کراچی میں کام کرتا تھا۔ ایڈیٹر نیر علوی حیات تھے اور طاہر نجمی نیوز ایڈیٹر تھے۔ وہ خبروں کے بڑے پارکھ ہیں۔ عام خبروں کے اچھے اینگل ڈھونڈ لیتے ہیں۔ طویل سرخی کو کم الفاظ میں بدلنے کا ہنر رکھتے ہیں۔
نجمی صاحب انٹرنیٹ پر کوئی سنسنی خیز خبر یا ارمان جگانے والی تصویر دیکھتے تو پاٹ دار آواز میں پورے نیوزروم کو بتاتے۔ پھر سب لوگ اس پر تبصرے کرتے۔
ایک شام کسی غیر ملکی خبر رساں ادارے کی ایک خبر پر وہ پرجوش ہوگئے۔ کچھ اس طرح کے الفاظ کہے کہ بس کلمہ پڑھ لیجیے، بھونچال آنے والا ہے۔ سائنس دانوں نے خبردار کردیا ہے۔ ہندوستان پاکستان کے لاکھوں کروڑوں افراد تباہ کن زلزلے کا شکار ہونے والے ہیں۔
میں نے شک کا اظہار کیا کہ زلزلے کی پیش گوئی ممکن نہیں ہوتی۔ کسی نے فیک نیوز بھیجی ہوگی۔ اس پر نجمی صاحب نے وہ خبر پرنٹ کرکے مجھے ہی ترجمہ کرنے کو دے دی۔ وہ رائٹرز یا اے پی نے جاری کی تھی لیکن دراصل امریکی جریدے سائنس کی رپورٹ تھی۔
وہ تحریر 24 اگست کے شمارے میں چھپی تھی اور اسی دن خبر رساں اداروں نے لفٹ کرلی تھی۔ ایکسپریس کی آرکائیو میں 25 اگست 2001 کو وہ خبر مل سکتی ہے۔
میں خبر بناکر بھول گیا۔ نجمی صاحب بھی بھول گئے ہوں گے۔ پڑھنے والوں کو بھی یاد نہیں رہا ہوگا۔
چار سال بعد سچ مچ بھونچال آیا اور لاکھوں کروڑوں تو نہیں لیکن اسی نوے ہزار افراد مارے گئے تھے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر