اپریل 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دیوار چین دیکھنے کا شوق ۔۔۔||گلزار احمد

گلزار احمد سرائیکی وسیب کے تاریخی شہر ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے ریٹائرڈ براڈ کاسٹر ہیں، وہ ایک عرصے سے مقامی اخبارات اور سوشل میڈیا پر تاریخ ، تہذیب و تمدن اور طرز معاشرت پر لکھتے چلے آرہے ہیں ، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محترم خواتین و حضرات میں نے کردار سازی کے حوالے سےآج جو پوسٹ کی کچھ دوست مزید تفصیل پوچھتے ہیں ۔ اب ایک پرانا کالم پیش کر رہا ہوں اس میں کچھ تفصیل ہے ۔دلچسپ بات یہ ہے اس کالم میں روہی چولستان کا ذکر ہے جو آجکل پیاس سے بے حال جل بل رہا ہے جس کا گزشتہ روز ذکر کیا تھا۔پوسٹ یہ ہے ۔
اگر آپ چین جائیں تو دیوار چین دیکھنے کا شوق آپ کے دل میں مچلنے لگتا ھے ۔۔ سانپ کی طرح بل کھاتی دنیا کی اس طویل ترین دیوار کے متعلق کئی افسانے ہم نے سن رکھے تھے۔ جب میں بیجنگ پہنچا تو پہلے تو چین کے گریٹ ہال جانا تھا ۔ جہاں پر حکمرانوں کی ملاقاتیں ہوتی ہیں۔ معاہدے ہوتے ہیں ۔وفود کی میٹنگز اور پریس کانفرنسیں۔ پھر چین کی گریٹ وال دیکھنے کا خیال آیا ۔کمال ھے چین ایک گریٹ ملک بن چکا ھے اور اس کی عمارتیں۔ہال۔ڈیمز۔سڑکیں۔پراڈکٹ اور دیواریں بھی گریٹ ہیں۔ اگلی صبح بیجنگ کے مِنزو ہوٹل سے واک کے لئیے باھر نکلا تو چین کی گلیوں میں ایک شادی کا سماں تھا۔ چینی شھری ورزش بھی ڈھول ڈھمکے اور ڈانس کی شکل میں کر رھے تھے۔ بچوں ۔ نوجوان لڑکوں لڑکیوں کی ٹولیاں الگ بوڑھے الگ گروپ میں ۔ مگر قطار در قطار ڈسپلن میں۔ ڈھول کی تھاپ پر ڈانس نما ورزش چین میں ہی ہو سکتی ھے۔ پتہ نہیں چولستان کے رہنے والے خواجہ غلام فرید نے اپنا یہ نغمہ ۔۔۔ حوراں پریاں ٹولے ٹولے ۔۔۔ صحرا میں بیٹھ کے کیسے تخلیق کیا؟ جبکہ ان کے چین جانے کی کوئی رپورٹ تاریخ میں نہیں ملتی۔ یہاں بیجنگ کی گلیاں اور ڈانس تو حقیقت میں اس سرائیکی گیت کی تصویر پیش کر رھے تھے ۔۔۔پیلو پکیاں نی۔۔۔ آ چُنڑو رل یار ۔۔۔۔اگر اس گیت کے میوزک کی کمپوزنگ سے آپ واقف ہیں تو اس سے ڈانس کے جو سٹیپ نکلتے ہیں وہی سٹیپ بیجنگ کی گلیوں میں لڑکے اور لڑکیاں بے خودی کے عالم میں اپنے میوزک کی لے پر اٹھا رھے تھے ۔ مجھے اپنی واک بھول گئی اور مبھوت ہو کر یہ منظر دیکھنے لگا ۔ ناچتے گاتے چینی شھری پارکوں میں داخل ہو گئیے اور میں ایسے کھڑا تھا جیسے کاروان گزر گیا غبار دیکھتے رھے۔ میرے سامنے چولستان میں اُگے پیلو درخت کے پھلوں کے رنگ گھومنےلگے ۔سرخ۔سفید۔نیلے۔پیلے۔اودے۔سبز ۔نارنگی۔
چین کی ثقافت اس وقت دنیا کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ھے چین کی ترقی سے تو سپر پاورز پریشان ہیں اور اس کو روکنے کی سازشیں جاری رہتی ہیں ۔ دلچسپ بات یہ ھے کہ چین نے ترقی کے منازل انہی 72 سالوں میں طے کی جو ہم نے ضائع کر دئیے۔ ہم قرضوں کے جال میں پھنس گئے اور چین کا امریکہ بھی مقروض ھے۔ میں ایک دن بیجنگ سے خوبصورت موٹر وے کے ذریعے دیوار چین دیکھنے گیا تو سیاحوں کا کافی رش تھا۔ اس دیوار کے دیکھنے کے مختلف پواںٹ ہیں جہاں سے آپ دیوار پر سیڑھیوں کے ذریعے یا کیبل کار کے ذریعے نظارہ کر سکتے ہیں۔۔ ڈھائی ھزار سال پرانی یہ دیوار چین مختلف حکمرانوں کے دور میں تعمیر ہوئی۔لاکھوں افراد نے اس کی تعمیر میں حصہ لیا اور بہت سے افراد اس تعمیر میں جان بھی گنوا بیٹھے۔ ساڑھے چھ ھزار کلومیٹر لمبی دیوار چین خانہ بدوش جنگجوٶں اور منگولوں کے حملوں سے بچنے کے لئے تعمیر کی گئی تھی۔میں جس پوانٹ پر کھڑا تھا وہاں چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں تھیں اور دیوار کافی بلندی پر تھی۔۔یہاں تیز ہوا چل رہی تھی جس کا زور میرے بالوں کی سیند خراب کرنے پر تھا ۔ یونیسکو اس دیوار کو 1987ء میں عالمی ورثہ قرار دے چکی ھے۔ جب میں دیوار چین کے ایک کونے پر کھڑا تھا تو مجھے مارگلہ کی پہاڑیاں یاد آنے لگیں۔ مجھے شاھی قلعہ لاھور۔قلعہ بالا حصار پشاور۔قلعہ دیراوڑ چولستان اور بہت سے قلعے یاد آنے لگے اور پھر سوچ کی دریا کے تربیلا ڈیم کے دروازے کھل گئیے۔۔ وہ لوگ جن لوگوں نے یہ قلعے بناۓ وہ کہاں چلے گئے؟ کیا ان قلعوں نے ان لوگوں کو بچایا؟ اب تو ان قلعوں میں ہُو کا عالم ھے!! پھر میرے دل و دماغ پر ایک عجیب سوال کھڑا ہو گیا۔ کیا اتنی بڑی اور لمبی دیوار نے چین کے بادشاھوں کو حملوں سے محفوظ کیا؟ میرے ذھن میں تاریخ کے باب کھلنے لگے اور صفحے پر صفحہ الٹنےلگا اور جواب آیا۔۔۔۔بالکل نہیں؟؟؟
دیوار چین کی تعمیر کے سو سال کے اندر ان بادشاہوں پر تین بڑے حملے ہوۓ اور شکست بھی ۔۔۔۔ کیسے؟؟؟ تو جناب حملہ آوروں کو نہ دیوار چین توڑنا پڑی اور نہ اس کی بلندی پھلانگنا پڑی؟؟؟ حملہ آوروں نے گیٹ کے محافظوں کو رشوت دی۔۔۔انہیں خرید لیا ۔۔۔اور حملہ آور آرام سے دروازوں سے داخل ہوۓ ۔۔۔قتل وغارت بھی کی ۔۔۔قبضے بھی کئے۔۔۔
اس سے کیا سبق ملا۔۔۔
Building the character of nation
is most important and stronger than building great wall of China…
میں دیوار چین سے نیچے اترا اور اپنے بالوں کو کنگھی کی ۔۔۔ آنکھوں کی نمی کو رومال سے صاف کیا اور واپس بیجنگ اپنے ہوٹل لوٹ آیا۔
آج ہم دیکھتے ہیں پاکستان ایک کراس روڈ پر کھڑا ھے۔ ہمارے ملک کے غداروں کو خریدا گیا۔ ملک کو ڈبو دیا گیا۔ ملک میں بم دھماکے۔ ٹارگٹ کلنگ۔ بد امنی بغیر سھولت کاروں کے ممکن نہیں ۔۔ میڈیا کو خریدا جاتا ھے۔۔ اگر ہر پاکستانی اپنے پورے حب الوطنی کے جذبے سے کام لے تو دشمن ہمارے ملک کی جانب میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔۔قومیں ہمیشہ جذبوں اور اتحاد سے بنتی ہیں ۔۔۔دیوار چین تو اینٹوں۔پتھروں ۔گارے سے بنائی گئی ایک دیوار ھے جو بادشاھوں کی عقل پر حیراں کھڑی ھے۔۔۔۔ علامہ اقبال کہ گئے؎؎
جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ھے نمود ۔۔
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا۔۔۔خودی کی موت سے مشرق کی سر زمینوں میں۔۔۔۔ہوا نہ کوئ خدائ کا رازداں پیدا۔۔۔وہی زمانے کی گردش پہ غالب آتا ھے۔۔۔جو ہر نفس سے کرے عمرِ جاوداں پیدا۔۔

قدیم چینیوں نے جب عظیم دیوار چین بنائ تو ان کا خیال تھا کہ اب کوئ حملہ آور اس کو پھلانگ کر ان پر حملہ نہیں کر سکتا اور وہ سکون کی زندگی گزاریں گے۔

لیکن سو سال کے اندر تین بڑے حملے ہوۓ اور تینوں بار دشمن کو دیوار پھلانگنے کی ضرورت نہیں پڑی بلکہ وہ گیٹ کے چوکیداروں کو رشوت دے کر اندر آۓ۔
چینیوں کو اب پتہ چلا کہ وال کی تعمیر سے پہلے قوم کے کردار کی تعمیر ضروری تھی۔
آج پاکستان کے اندر جو حملے ہوتے ہیں اور سیکورٹی فورسز کے جوان اور سِولین شھید ہو جاتے ہیں اس میں قوم کےافراد کے کردار کا بھی کوئ تعلق ضرور ہوگا ۔ حملہ آور آخر پاکستان کےاندر کن لوگوں کے پاس چُھپتے ہیں؟
ضرورت اس امر کی ھے کہ آج ہم اپنے لوگوں پر محنت کریں اور انہیں کرپشن ۔رشوت۔بدعنوانی۔قوم سے غداری کے بھیانک نتائج سے آگاہ کریں تاکہ وہ دشمنوں کے خلاف سیسہ پلائ دیوار ثابت ہوں۔
تصاویر ۔میرے دیوار چین کے دورے کی ہیں۔

%d bloggers like this: