مئی 10, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ڈیرہ اسماعیل خان زوال کا شکار کیسے ہوا ؟ ۔۔۔||گلزار احمد

گلزار احمد سرائیکی وسیب کے تاریخی شہر ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے ریٹائرڈ براڈ کاسٹر ہیں، وہ ایک عرصے سے مقامی اخبارات اور سوشل میڈیا پر تاریخ ، تہذیب و تمدن اور طرز معاشرت پر لکھتے چلے آرہے ہیں ، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈیرہ اسماعیل خان زوال کا شکار کیسے ہوا ؟
ڈیرہ اسماعیل خان کے لوگ یہ بات سن کر حیران ہونگے کہ آج سے سو سال پہلے پاوندہ سراے جو پاوندہ گیٹ کے اندر قائم ہے اس کو انگریز کِنگ منڈی کہتے تھے کہ یہ برصغیر کی ایک اہم منڈی تھی جہاں کروڑوں روپےکا کاروبار ہوتا تھا۔اور اس کو منڈیوں کے بادشاہ کا درجہ دیا گیا۔ ایک طرف تو صوبہ سرحد میں۔۔ درہ گومل۔۔ افغانستان اور سنٹرل ایشیا کا واحد مرکزی تجارتی گیٹ وے تھا ۔دوسری طرف ڈیرہ کی اس منڈی میں جن غیر ممالک سے سامان آتا اور فروخت ہوتا تھا ۔ان میں۔امریکہ۔برطانیہ۔ سنگاپور۔افغانستان اور برما شامل تھے۔جن بڑے شھروں سے سامان تجارت آتا تھا ان میں کلکتہ۔بمبئی۔دہلی ۔کانپور۔ شاہ پور۔جے پور۔امرتسر ۔مدراس۔کرناٹک ۔کراچی شامل ہیں۔جب کوچی پاوندے افغانستان سے تجارتی سامان لے کر اس منڈی پہنچتے تو ہندو ان کو ۔۔تمھارا ایمان سلامت رہے ۔۔۔کہ کر استقبال کرتے۔۔اور پاوندے انکو کہتے۔۔تمھیں بخت لگے۔۔۔پاوندہ سراے میں بڑی تعداد میں کوٹھے اور رہایشی ماڑیاں بنائی گی تھیں جس کے اندر سامان رکھا جاتا اور رہایش بھی تھی۔اس کے علاوہ رش کے دنوں میں خیمے بھی لگتے۔جو سامان پیک ہوتا اسے باہر رکھ دیتے باقی سامان اندر کمروں میں رکھ دیا جاتا۔ ڈیرہ وال ان ماڑیوں اور کمروں کے کرایۓ سے بہت پیسہ کماتے تھے۔کابل۔خراسان۔قندھار سے جو سامان آتا اس میں قالین۔کمبل۔پٹو۔پوستین۔ چلغوزے۔بادام۔پستہ۔کابلی اور قندھاری انار۔خراسانی گھی۔ملٹھی اور ہینگ ہوتی تھی۔ یہ سارا سامان ٹیکس فری تھا اور تاجروں کی تحویل میں ان کی کوٹھیوں میں رکھا جاتا۔ اسی جگہ پر کروڑوں روپے کے کپڑے۔گڑ۔چینی بھی رکھی ہوتی تھی۔ اس منڈی سے صرف شھر لے جانے والے سامان پر محصول چونگی لاگو تھا جس سے کمیٹی کو لاکھوں کی آمدنی ہوتی۔ 1928ء میں بنگال میں ایسا کال پڑا کہ وہ پاوندوں کا لاکھوں کا قرضہ نہ دے سکے۔ اس کے نتیجے میں پاوندوں نے ڈیرہ کے سیٹھوں کا ساٹھ لاکھ روپیہ ادا نہ کیا اور افغانستان چلے گیے اس طرح ڈیرہ وال سیٹھوں کو کافی نقصان ہوا۔ یاد رہے یہ 25روپے فی سونے کے تولہ ملنے کا زمانہ تھا۔ آپ اس سے اندازہ لگائیں ڈیرہ کے تاجروں کے پاس کتنی دولت تھی ۔ اس زمانے میں تجارت سے ڈیرہ میں دولت کی اس قدر ریل پیل تھی کہ شھر میں پانچ بنک کام کر رہے تھے۔ سٹی پولیس سٹیشن کے پاس پنجاب نیشنل بنک لمیٹڈ تھا۔گوسیاں والا محلہ میں چوہدری میلائی رام بھاٹیہ کے گھر کی پہلی منزل پر بھرت بنک لمیٹڈ قایم تھا۔تیسرا چاولہ بنک ڈاکٹر بہاری لال سوٹا کی دکان کے ساتھ تھا۔توپانوالا بازار میں فرنٹیر بنک اور مسلم بازار میں کواپریٹیو بنک موجود تھے ۔ منڈیوں کی دلالی کا کام بھی ڈیرہ کے سیٹھ کر رہے تھے۔جب اتنی خوشحالی تھی تو شھر میں بہت سے سکول۔ہسپتال۔سڑکیں۔لائیبریریاں اور باغات بھی بناے گیے جس سے ہر کس و ناکس فاعدہ اٹھاتے رہے۔ علم ودانش اور تعلیم کی وجہ سے ڈیرہ کو اس وقت کے صوبہ سرحد کے انٹیلیکچولز کا بھی مرکز مانا جاتا تھا۔
آج ڈیرہ اسماعیل خان کے پاس میونسپل کمیٹی اور واسا ہے مگر صفائ کا حال پتلا ہے ۔آج ہمارے پاس یونیورسٹیاں ۔میڈیکل کالجز اور ہسپتال ہیں مگر تعلیم و صحت میں کمزوریاں ہیں ۔کیوں ؟ ؟ ؟
ہماری بیماریاں ہوس زر ۔کرپشن ۔رشوت ۔ملاوٹ۔اقربہ پروری۔نا انصافی۔فرقہ واریت ۔بد امنی ۔دھشت گردی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو!!!

%d bloggers like this: