مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قدرتی آفات کو روکا نہیں جاسکتا۔ امریکا میں خوفناک طوفان آتے رہتے ہیں۔ اربوں ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔ اس کا کوئی زیادہ ذکر نہیں کرتا۔ قیمتی جانیں چلی جاتی ہیں۔ سب ان کا افسوس کرتے ہیں۔
پھر کینیڈی جیسا نوجوان صدر ہو یا بائیڈن جیسا بزرگ، تباہی کے مقام پر پہنچتا ہے۔ یہ پیغام ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت آپ کی مدد کو آگئی ہے۔ ریاستی حکومت تو ہوتی ہی ہے۔ دن رات کام کرکے انفرااسٹرکچر بحال کردیا جاتا ہے۔ اور عوام؟ انھیں ہر وہ مدد اور سہولت فراہم کی جاتی ہے، جس سے وہ تباہی سے پہلے کی زندگی کی طرف لوٹ جائیں۔
ظاہر ہے کہ یہ امریکا ہے۔ امیر ملک ہے۔ پاکستان جیسے غریب ملک سے موازنہ نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن بات رویے کی ہے۔ اصل بات مقتدر افراد اور اداروں اور حکومتوں کے رویے کی ہے۔
آفات وطن عزیز میں بہت سے لوگوں کے لیے روزی روٹی لاتی ہیں۔ حکومتیں خوش ہوتی ہیں کہ عالمی امداد ملے گی۔ خود سے کوئی نہیں دے گا تو ہمیں کشکول پھیلانے کا جواز تو ملا۔ این جی اوز، اگر کوئی ہیں تو ان کے ڈالرز کا آسرا ہوجاتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے امدادی کیمپ لگ جاتے ہیں۔ میں مخلص افراد پر شک نہیں کررہا لیکن دھندے باز بھی غریبوں کی مدد کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ پیسے جمع ہوتے ہیں۔ پھر کون آڈٹ کرتا ہے کہ کتنا آیا، کہاں گیا۔
حکومت دردمند انسانوں کی ہو تو این جی اوز اور عام شہریوں کو چندہ کرنے اور کام کرنے یا دکھانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ بدترین ممالک کی حکومتوں کے پاس بھی اس قدر وسائل ہوتے ہیں کہ اگر چاہیں تو اپنی عوام کی مکمل مدد اور بحالی یقینی بناسکتی ہیں۔
پاکستان برا ملک نہیں ہے، عوام بدنصیب ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر