اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

راجن پور کی خبریں

راجن پور سے نامہ نگاروں اور نمائندگان کے مراسلوں پر مبنی خبریں،تبصرے اور تجزیے۔

جام پور ۔

راجن پور میں سیلاب کی صورتحال

تحریر

عبدالروف بالم۔

یوں تو کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلوں بارشوں کے دوران ندی نالوں میں طغیانی ضلع راجن پور میں ایک معمول بن چکا ہے

مگر 2010 کے تباہ کن سیلاب کے بعد حالیہ سیلاب 2022 نے وہ تباہی پھیلائی ہے جسکی مثال ماضی میں نہیں ملتی قیام پاکستان سے قبل پہاڑی برساتی نالوں میں

آنے والا وافر مقدار میں پانی پورے علاقہ پچادہ کیلئے خوشحالی و شادمانی کا باعث ہوتا تھا جہاں جہاں سے یہ پانی گذرتا تھا زمین سونا اگلتی تھی رود کوہیوں کے پانی کے

استعمال کا ایک مربوط نظام بناہواتھا جس کا پورا الگ سے انتظامی ڈھانچہ کلکٹر رودکوہی ،تحصیلدار، داروغہ اوربیلدار وغیرہ ہوتے تھے یہ پانی جہاں فصلات کی کاشت کا موجب بنتا تھا وہاں جانداروں کیلئے پینے کا پانی بھی یہی ہوتا تھا

چھوٹے بڑے تالابوں کی شکل میں لوگ اسے اسٹور کر لیتے تھے مگرجیسے ہی علاقائی تمن دار ،وڈیرے اسمبلیوں اور اقتدار میں آتے گئے اسی دن سے یہ پانی علاقہ کے لاکھوں عام مکینوں کیلئے فائدہ مند ثابت ہونے کی بجائے تباہی و بربادی کا موجب بنتا گیا کیوں کہ انہی بااثر اور طاقتور لوگوں نے

اپنی اراضی اور فارم ہاوسز کے اردگردبندبنوانے شروع کردئیےان کی دیکھا دیکھی دیگر لوگوں نے بھی اسکی گزر گاہوں جسے مقامی زبان میں "واہ ” یا واہل کہتے ہیں پر قبضے کرنا شروع کر دئیے ان کی چوڑائی کم ہوتی چلی گئی حکومتوں کی جانب سے ان ندی نالوں کی صفائی کیلئے ملنے والی گرانٹیں اور فنڈز بندر بانٹ کی نظر ہوتے چلے گئے سب سے زیادہ تباہی دینے والا "درہ کاہا سلطان ” جس پر

آبی چینل یا منی ڈیم بنانے کے منصوبے بنتے رہے فنڈز مختص ہوتے رہے مگر نجاے وہ فنڈز کہان جاتے رہے آج تک کسی کو خبر نہیں ۔ رود کوہیوں کو اپنے قدرتی راستوں سے گزرنے دیا جائے اور اسکے آگے کسی قسم کی رکاوٹ نہ ہو تو یہ سیدھا دریائے سندھ میں چلا جاتا ہے اور نقصان بھی نہیں ہوتا

مگر ہر دوراقتدار میں شامل "زور آوروں ” کی پیدا کردہ رکاوٹوں کے باعث اس مرتبہ ضلع راجن پور بالخصوص رقبہ ریونیو آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑی تحصیل جام پور کو تباہی و بربادی سے دوچار ہونا پڑا قدرتی آفت اپنی جگہ مگر اس تباہی کے ذمہ دار مقامی سیاسی وڈیرے اور کرپٹ بیوروکریسی ہے

اس سے بڑھ کر اس علاقے کی بد نصیبی اور کیا ہوگی کہ حکومت پنجاب ہو یا وفاقی حکومت ہو کون سا ایسا عہدہ باقی رہ گیا ہے جواس علاقے کو نہ ملا ہو ستم تو یہ ہے پانچ ایم پی ایز اور تین ایم این ایز کا ضلع جسے عمران خان کی حکومت میں

بھرپور نمائندگی ملی ہوئی تھی اور صوبائی وزیر وزیر آبپاشی اسی حلقے کا ایم پی اے تھا (جوکہ اب پرویز الہی حکومت میں وزیر خزانہ ہے ) نے عرصہ چار سال میں نہروں کو کیا چلوانا تھا اس رود کوہی کے پانی کو بھی

محفوظ بنانے میں کسی قسم کا کردار ادا نہ کرسکا دوسرا صوبائی وزیر بھی اس تحصیل جام پور کا ایم پی اے اور اب بھی دونوں طاقتور ترین وزیر راجن پور ضلعی ہیڈ کوارٹر ضرور ہے ہر طرف سے راجن پور کی تباہی کی بات ہورہی ہے

مگر آج تک کسی ادارے کسی حکمران یا میڈیا پرسن نے اس پر غور کرنا ہی مناسب نہ سمجھا کہ یہ درہ کاہا سلطان ہے کس تحصیل میں ؟ جی ہاں رقبہ آبادی ریونیو کے لحاظ سے سب سے بڑی تحصیل جام پور جہاں لغاری ‘ گورچانی’دریشک تمن دار سردار ہی مسلسل اقتدار میں چلے آرہے ہیں

تباہ و برباد ہوئی ہے جسکے کل 183 ریونیو مواضعات میں سے 100مواضعات کم و بیش 19 یونین کونسلز مکمل طور پر تباہ ہو گئے ہیں

متعدد ہنستی مسکراتی بستیاں اور خوبصورت گاوں صفحہ ہستی سی مٹ گئے ہیں جس کے 573000ایکڑ کل رقبہ میں سے 317000 ایکڑ رقبہ بری طرح متاثر ہوا اور 210000ایکڑ رقبہ پر کاشتہ کپاس سمیت دیگر فصلات تباہ ہوگئیں 15000سے زائد گھر( مکانات ) پانی میں گئے 80000لوگ بے گھر ہو گئے ۔

تاریخی اور قدیم قصبات بمبلی چٹول درگڑی مکمل طور پر ختم ہوگئے ہڑند ‘ ٹبی لنڈان ‘ لنڈی سیدان ، ٹبی سولگی ،میراں پور ،حاجی پور سمیت پورے علاقے میں زمینی راستے ختم ہو گئے کئی افراد جانور بچے لا پتہ ہو گئے کسی لاش ملی تو کوئی کسی جھاڑی میں پھنسا لاوارث ہو گیا ۔

ایک ماہ قبل آنے والے اس تباہ کن سیلاب کے ابتدائی 15دنوں میں کسی سردار وڈیرے وزیر مشیر ایم پی اے ایم این اے کو اپنے اپنے حلقہ انتخاب میں متاثرین کی خبر گری کی

توفیق نہ ہوئی البتہ سیلاب اور عاشورہ محرم الحرام کے دوران تحصیل جام پور کے چار اسسٹنٹ کمشنر پانچ ڈی ایس پیز دو چیف آفیسرز 62 میں 58 پٹواری ضرور تبدیل ہوتے رہے اور جب سیلاب عروج پر تھا فاضل پور پانی داخل ہورہا تھا عین اسی وقت صرف اڑھائی ماہ قبل تعینات ہونے والے ڈپٹی کمشنر راجن پور کو بھی تبدیل کردیا گیا ہے۔

جونہی سرکاری طور پر راشن خیمے اور دیگر سہولیات وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے آنا شروع ہوئیں تو آہستہ آہستہ برساتی مینڈکوں کی طرحطیہاں کے عوامی نمائندے بھی فوٹو سیشن اور انتظامیہ افسران سے میٹنگ کرنے ظاہر ہونے لگے مگر جہاں بھی گئے وہاں سیلان کے ستائے لوگوں کے شدید ردعمل کا سامنا بھی کرنا پڑا ۔

سرکاری طور پر تحصیل جام پور میں 15ریلیف کیمپ بنائے گئے جن میں 12 فنگشنل ہیں 3 کا ابھی زمینی راستہ نہیں ہے۔

اس سارے عمل میں چند ہفتے قبل تعینات ہونے والی جام پور کی تاریخ میں پہلی خاتون افسر محترمہ آبگینے خان کی ہمت و حوصلے اور دن رات سیلاب زدگان کی دیکھ بھال حفاظتی بند ہائے کی دیکھ بھال کرنے کے عمل پر داد تحسین دئیے بغیر بھی نہیں رہا سکتا

لیکن بد قسمتی سے پورے ضلع کی انتظامیہ کو "ہائی جیک ” کر لیا گیا ہے ۔ اب سیلاب متاثرین کو ملنے والا امدادی سامان ( خیمے راشن وغیرہ ) ریلیف کیمپوں سے ملنے کی بجائے "سیاستدانوں ” کی مرضی اور پسند نا پسند پر ان کےاپنے سپورٹرز کو کھلے عام دیا جارہا ہے

حالانکہ سیلاب نے یہ نہیں دیکھا تھا کہ کون کس مسلک یا سیاسی جماعت کا ووٹر اور سپورٹر ہے مگر یہاں یہ سلسلہ چل نکلا ہے جسکی روک تھام کسی کے بس میں نہیں

البتہ جماعت اسلامی کی خدمت فاونڈیشن سے لیکر ہر مقامی سماجی تنظیم مخیر حضرات اور نوجوانوں کی خدمت کا جذبہ قابل تحسین ہے جو شروع دن سے بلا امتیاز سیلاب زدہ لوگوں کی خدمت میںطکوئی کسر باقی نہیں چھوڑ رہے

سرکاری اداروں میں ریسکیو1122۔پولیس ۔ ریونیو سٹاف کی خدمات بھی کسی طرح فراموش نہیں کی جا سکتیں بے

شک الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا پر اس بدنصیب علاقے کو پذیرائی نہیں مل پائیں لیکن سوشل میڈیا کے ذریعے اب ڈونر اداروں کی توجہ آہستہ آہستہ اس جانب ضرور ہو رہی ہےایک بار پھر یہ ذہن نشین کرانا ضروری ہے کہ

راجن پور ضلع میں سب سے زیادہ تباہی تحصیل جام پور اور دوسرے نمبر پر تحصیل روجھان میں ہوئی ہے اور شاید حکومتی سطح پر اس وقت دونوں تحصیلیں لاوارث ہیں

%d bloggers like this: