مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عرب بدووں کے برعکس مصر ہمیشہ سے تہذیب کا مرکز رہا ہے۔ اس نے بڑے عالم پیدا کیے ہیں۔ لیکن اسلام آنے کے بعد وہاں بھی شدت پسندی رہی ہے۔ سید قطب اور اخوان المسلمون کا تعلق مصر ہی سے ہے۔
مصر میں 1920 کے عشرے میں دو عالموں کی کتابوں پر ہنگامہ ہوا۔ ایک علی عبدالرازق تھے جو خود مذہبی عالم اور قاضی تھے۔ انھوں نے اپنی کتاب الاسلام و اصول الحکم میں لکھا کہ مسلمانوں کی خلافت محض ایک سیاسی نظام تھا، وہ مذہبی ادارہ نہیں تھی۔ اس پر علمائے مذہب بھڑک گئے اور ان پر کفر کا فتوی لگادیا۔
یہ معاملہ ابھی گرم تھا کہ طہ حسین کی کتاب فی الشعر الجاہلی چھپ گئی۔ اس نے جلتی ہوئی آگ پر تیل ڈال دیا۔
طہ حسین نے مذہب، تاریخ اور ادب کا گہرا مطالعہ کیا تھا اور مغربی تنقید سے واقف تھے۔ جامعہ الازہر سے ڈاکٹریٹ کے بعد فرانس میں بھی اعلی تعلیم حاصل کی۔ ان کی کئی کتابوں کا اردو میں ترجمہ ہوچکا ہے جن میں فتنہ الکبری زیادہ مشہور ہے۔
فی الشعر الجاہلی میں طہ حسین نے لکھا کہ جس شاعری کو اسلام سے پہلے کے دور کا کہا جاتا ہے، وہ بعد میں کہی گئی۔ اسے کچھ مقاصد کے تحت جاہلی شاعری قرار دیا گیا ہے۔ انھوں نے موقف اختیار کیا کہ عرب قبائل کے اور مختلف علاقوں کے الگ الگ لہجے تھے۔ لیکن جب ہم اس دور کی مبینہ شاعری پڑھتے ہیں تو وہ ویسی نہیں لگتی۔ طہ حسین درست کہہ رہے تھے کیونکہ مغربی لسانیات اور تنقید کے مطالعے کے بعد وہ ڈکشن کی اہمیت سے واقف تھے۔
ان کی جس بات پر سب سے زیادہ غم و غصے کا اظہار کیا گیا، وہ یہ تھی کہ توریت اور قرآن میں ذکر ہونے سے ابراہیم اور اسماعیل کا وجود تاریخی طور پر ثابت نہیں ہوتا۔
طہ حسین کے خلاف مہم چلی اور ان کی کتاب پر پابندی لگ گئی۔ انھیں ملازمت سے برخواست کرنے کا مطالبہ کیا گیا لیکن یونیورسٹی نے انھیں برقرار رکھا۔ اس پر معاملہ عدالت میں گیا۔ بہرحال انھوں نے کتاب کو ایڈٹ کرکے فی الادب الجاہلی کے نام سے دوبارہ شائع کیا اور کافی مشکل سے بات رفع دفع ہوئی۔
علامہ طالب جوہری نے ایک بار مجھے بتایا تھا کہ انھوں نے فی الشعر الجاہلی کا مطالعہ کیا تھا۔ جب میں نے پوچھا کہ کیا اس کی کاپی آپ کے پاس ہے تو انھوں نے بات ٹال دی تھی۔ ان کے کتب خانے میں ستر ہزار کتابیں تھیں۔ مجھے یقین تھا کہ یہ کتاب ان کے پاس ہوگی لیکن میں ان سے ایک نظر دیکھنے پر اصرار نہیں کرسکا۔
شکر خورے کو شکر ملتی ہے۔ مجھے بھی کتاب مل گئی۔ مجھے مل گئی کا مطلب ہے کہ آپ کو مل گئی۔ عربی میں ہے اور بہت سے لوگ نہیں پڑھ سکیں گے لیکن کیا فرق پڑتا ہے۔ کروڑوں لوگ عبرانی نہیں جانتے لیکن توریت ان کے گھر میں ہوتی ہے۔
بہت عمدہ زیدی صاحب !
سلامتی کی دعا ۔