مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں آپ کو فون کرکے کہتا ہوں کہ ابھی آسمان کی طرف منہ اٹھاکر دیکھا تو چاند دو ٹکڑے نظر آیا۔ آپ بھی دیکھ کر بتائیں، یہ کیا ہورہا ہے۔
آپ کیا کریں گے؟
میرا خیال ہے کہ باہر نکل کر چاند کو دیکھنا چاہیے۔
پھر یا تو کہیں گے کہ آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔ چاند دو ٹکڑے نہیں ہوا۔
یا مانیں گے کہ ہاں، دو ٹکڑے لگ رہا ہے لیکن یہ نظر کا دھوکا ہے۔
یا بتائیں گے کہ کوئی ناقابل فہم واقعہ ہوا ہے، چلو ماہرین فلکیات سے پوچھتے ہیں۔
یا آگاہ کریں گے کہ یہ کوئی خاص بات نہیں۔ چاند ٹکڑے ہوتا رہتا ہے۔
اس کے بجائے اگر آپ جواب دیں، چاند دو ٹکڑے ہو ہی نہیں سکتا۔ اگر ایسا ہوا بھی ہے تو کوئی کیمرا ٹرک ہے۔ آسمان کی طرف دیکھنا غیر سائنسی ہے۔ ڈونٹ لُک اپ فلم میں یہی بتایا گیا ہے۔ میں آسمان کی طرف نہیں دیکھوں گا۔
آپ بتائیں کہ کون سا رویہ درست ہوگا۔
میں کہتا ہوں کہ شمسی نہیں، قمری کیلنڈر کی ایک خاص تاریخ کو، ایک خاص وقت، ایک خاص سیٹنگ میں ایک عجیب واقعہ ہوتا ہے۔
اس واقعے کے تمام گواہ مذہبی عقیدہ رکھتے ہیں۔ صرف میں اس عقیدے کو نہیں مانتا۔
مجھے ایک دوسرا شخص چاہیے جو ویسا عقیدہ نہ رکھتا ہو۔ وہ بھی مشاہدہ کرے۔ پھر مجھے بتائے کہ اسے وہ تجربہ ہوا یا نہیں۔
اس کا جواب مجھے ملتا ہے کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا اس لیے ہم دیکھیں گے ہی نہیں۔
اگر ہوتا ہے تو نظر کا دھوکا یا شعبدہ بازی ہے۔
ورنہ کوئی کیمیکل ری ایکشن ہے۔
ورنہ آپ تو ہیں ہی اس عقیدے والے۔
میں یہ تاویلیں سن کر حیران پریشان رہ جاتا ہوں۔
مجھے شک ہوتا ہے کہ بغیر دیکھے ماننے والے اور بغیر دیکھے نہ ماننے والے ایک درجے کے صاحبان ایمان ہیں۔
وہ خود کو ملحد یا فری تھنکر یا عقلیت پسند کہہ کر دوسروں کو نہیں، اپنے آپ کو دھوکا دیتے ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر