اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

حُسین بانٹ رہے ہیں نجات لے جاؤ||عامر حسینی

عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. روزنامہ بیٹھک ملتان کے ایڈیٹوریل پیج کے ایڈیٹر ہیں،۔۔مختلف اشاعتی اداروں کے لئے مختلف موضوعات پر لکھتے رہے ہیں۔

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے بچپن کی یادوں میں محرم الحرام جیسے ہی شروع ہوتا تو ہماری گلی کے سب ہی گھروں میں ٹیپ ریکارڈر پر مولانا شفیع اوکاڑوی کی عشرہ محرم الحرام کی دس تقاریر چلنا شروع ہوجایا کرتی تھیں – ساتھ مختلف نعت خوان حضرات کے شہدائے کربلاء کے لیے کہی گئی منقبت بھی ٹیپ ریکارڈر پر چلتی تھیں – ہماری گلی میں ایک بھی گھر اثنا عشری نہیں تھا لیکن چند گلیاں چھوڑ کر سید بدر عباس عابدی کا گھر تھا – سامنے 7 بلاک کی گلی میں شیخ وجاہت حسین کا گھر تھا- ایسے ہی دو بلاک کی بھیڑی گلی میں ایک سادات گھرانہ تھا جو لائسنس ہولڈر تھا – یکم محرم سے ہی گھروں میں نیاز پکنا شروع ہوتی اور آس پاس محلے داروں میں تقسیم ہونے لگتی تھی – 9 اور 10 محرم کو چاول، کھیر، حلیم، کچھڑا، میٹھے روٹ کی نیاز، میٹھے پانی کا شربت، دودھ اور روح افزا سے ملاکر بنایا گیا شربت اور ایسے ہی دال روٹی کی نیاز تقسیم کی جاتی – کئی ایک بچوں کو حسین (علیہ السلام) کا فقیر بنایا جاتا –
ہم گھر کے سب مرد اور بچے دس محرم الحرام کو مرکزی جامع مسجد جایا کرتے تھے جہاں پہلے مولانا عبدالقادر مرحوم نماز ظہر کے بعد منبر پر بیٹھ جایا کرتے اور دس محرم الحرام کو وہ واقعہ کربلاء تفصیل سے بیان کیا کرتے تھے – پھر بعد میں وہاں مفتی اشفاق احمد قادری خطیب بن کر آئے اور انھوں نے بھی یہ معمول یونہی جاری رکھا- آغاز تلاوت قرآن سے ہوتا پھر نعت پڑھی جاتی اور پھر منقبت امام حسین علیہ السلام پڑھی جاتی اور واقعہ کربلاء کا بیان ہوتا – اُن دنوں میں یہ بھی ہوتا کہ ایک بڑے جلسے کا بعد نماز عشاء اہتمام ہوتا جس میں ملک کے کسی نامور سٌنی عالم دین کو بلایا جاتا جو اس واقعے کے حوالے سے بیان کرتے – مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے جامع مسجد میں علامہ احمد سعید کاظمی، مولانا شریف رضوی، مولانا محمد شفیع اوکاڑوی، مولانا الشاہ احمد نورانی صدیقی، مولانا محمد عمر اچھروی، مولانا محمد اشرف سیالوی، شاہ فرید الحق، مولانا عبدالرشید رضوی آف جھنگ، مولانا شبیر حافظ آبادی اور 80ء کی دہائی میں ڈاکٹر طاہر القادری، پیر نصیر الدین نصیر گولڑوی وغیرہ کو دس محرم کی مناسبت سے منعقدہ جلسوں میں سُنا-
اُن دنوں زیادہ تر سُنی تقریبات میں زور یزید اور اس کے ساتھیوں کا دفاع کرنے والوں کے رد پر ہوتا تھا – اھل بیت اور پنجتن، آل محمد کے مخصوص اور محدود اطلاق کا انکار کرنے والوں کے رد میں ہوا کرتا تھا-
میں نے حضرت داتا گنج بخش کے مزار سے ملحق مسجد میں علامہ احمد سعید کاظمی کی محرم الحرام میں ضیاء آمریت کے دور میں ایک تقریر سُنی تھی – ہزاروں لوگوں کا مجمع تھا اور اُس مجمع میں انھوں نے حدیث قسطنطنیہ پر بہت جامع گفتگو کی تھی انہوں نہ صرف نقلی دلائل دیے بلکہ درجنوں عقلی دلائل دیتے ہوئے یزید کو اُس حدیث کی رو سے جنتی ثابت کرنے والوں کا رد کیا تھا- وہ ایک یادگار اجتماع تھا اور وہاں پر موجود ہر شخص علامہ احمد سعید کاظمی کے گُن گارہا تھا-
محرم میں ان دنوں دسویں شب کو امام بارگاہوں میں تعزیے، شبہیں، علم زیارات کے لیے رکھ دیے جاتے تھے اور شیعہ اور سُنی عوام کی اکثریت اُن کی زیارت کرنے جایا کرتی تھی – اگرچہ مساجد میں سُنی علماء اس سے منع کیا کرتے تھے – وہ مجالس میں جانے سے بھی منع کرتے – دیوبندی اور اھل الحدیث تو سرے سے نیاز کو ہی حرام کہتے اور اھل حدیث تو اسے نذر لغیر اللہ کہہ کر شرک قرار دیتے – لیکن خود بریلوی علماء بھی شیعہ کی نیاز، نذر کھانے سے منع کرتے تھے لیکن عوام الناس کی اکثریت اپنے اپنے مسالک کے علماء اور مفتیوں کی ممانعت کو خاطر میں نہ لاتی – گلیوں، محلوں اور بازاروں میں سماجی تعلق برتری لیجایا کرتا تھا- ایک دوسرے کی نیاز کھائی جاتی، سبیل سے پانی، شربت، دودھ پیا جاتا – اور نویں محرم کی رات کو سُنی گھرانوں کی عورتیں علم عباس کے نیچے چراغ جلاتیں، پیسے رکھتیں اور منت مانگا کرتیں – میں کئی ایک ہم عمر دوستوں کے ساتھ جبکہ ہمارا اسکول کا زمانہ تھا مرکزی امام بارگاہ جایا کرتے اور مجالس سُنا کرتے – ہم عموماً مصائب کے بیان تک امام بارگاہ میں رہتے اور مجلس کے آخر میں جب ماتمی صفیں بننے لگتیں تو امام بارگاہ سے نکل آیا کرتے تھے – جب ہم کالج کے زمانے تک پہنچے تب تو ہم دوست کبھی لاہور تو کبھی ملتان تو کبھی راولپنڈی تو کبھی حیدرآباد تو کبھی کراچی میں عشرہ محرم کی معروف امام بارگاہوں میں مجالس سُنا کرتے تھے –
نوے کی دہائی ایک ایسی دہائی تھی جب ایک تو دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کی بہت بڑی لہر شروع ہوئی-اور سیکورٹی انتظامات کے نام پر محرم کے جلوس اور مجالس کو مکمل طور پر کارڈن آف کیا جانے لگا اور ہر آنے والا عاشورا پر ماضی سے زیادہ قلعہ بندی اور حصار بندی کی گئی – اور سُنی و شیعہ عوام میں دوریاں بھی بڑھنے لگیں – سماجی تعلقات پر علماء کے فتوے زیادہ توجہ پانے لگے – اگرچہ اس دوران کچھ سُنی اور شیعہ علماء نے صلح کُلیت کے تحت فاصلے کم کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ایام ابھی تک لوٹ کر نہیں آئے جن کا نظارہ ہم نے اپنے بچپن، لڑکپن اور نوجوانی میں کیا تھا-
اب سوشل میڈیا پر تو بہت رواداری دکھائی جاتی ہے لیکن زمینی حقائق بہت مختلف ہیں – اب عشرہ محرم پر باہمی میل جول اور ایک دوسرے کے ہاں شرکت کا رجحان بہت کم رہ گیا ہے-

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

%d bloggers like this: