اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

عمران خان کس جرنیلی ٹولے کا پوسٹر بوائے ہے؟||عامر حسینی

عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. روزنامہ بیٹھک ملتان کے ایڈیٹوریل پیج کے ایڈیٹر ہیں،۔۔مختلف اشاعتی اداروں کے لئے مختلف موضوعات پر لکھتے رہے ہیں۔

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آصف علی زرداری کے بارے میں کلیشے بنائے جارہے ہیں بنائے جانے کا عمل اُن کی شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ شادی کے وقت سے شروع ہوا اور اب تک یہ جاری و ساری ہے –
جب یہ شادی ہوئی تو اُس وقت آصف علی زرداری کے خلاف کوئی کرپشن، بدعنوانی یا اُن کے خاندانی امیر ہونے نہ ہونے کی کوئی بحث نہیں تھی –
اُس وقت تو بلکہ آصف علی زرداری کو ایک بگڑا رئیس زادہ، نواب زادہ، جدی پشتی امیر، زرداری قبیلے کے ایک ماڈرن قوم پرست سیاست دان کا فرزند، پولو اور گھڑ سواری کا شوقین بناکر پیش کیا گیا- اور اُسی زمانے میں یہ سینہ گزٹ پھیلائی گئی کہ بے نظیر بھٹو کی آصف زرداری سے شادی بلیک میلنگ کے زریعے ممکن ہوئی ہے –
یہ ایک سیدھے سادھی ارینج میرج تھی جو سندھ کے دو ممتاز قبیلوں سے تعلق رکھنے والے خاندانوں کے بزرگوں کی مشاورت سے طے پائی تھی جس میں بی بی شہید اور آصف زرداری دونوں کی باہمی رضامندی بھی شامل تھی – جس کا زکر بی بی صاحبہ نے تفصیل سے کیا ہے اور اب کئی اور باوثوق زرایع سے بھی ہمارے پاس معلومات ہیں –
لیکن اینٹی بھٹو اور اینٹی پی پی پی زہن رکھنے والوں کے نزدیک سچ یہ ہے کہ بے نظیر بھٹو کی زرداری صاھب سے شادی مجبوری، بلیک میلنگ کا نتیجہ تھی –
‘آصف زرداری کا خاندان نہ تو جدی پشتی امیر تھا، نہ وہ اپنے قبیلے میں سردار کی حثیت رکھتا تھا، نہ ہی اُن کا خاندان پاکستان کی فلم انڈسٹری میں فلم ڈسٹریبیوشن کے کاروبار پر چھایا ہوا تھا، نہ ہی وہ کراچی شہر میں اہم مقامات پر سینماؤں کا مالک تھا اور نہ ہی کنسٹرکشن انڈسٹری سے وابستہ تھا – بلکہ آصف زرداری تو گرہ کَٹ، سینما کے ٹکٹ بلیک میں بیچنے والا ایک سڑک چھاپ لونڈا تھا’
اس جھوٹ کی تخلیق اسلامی جمہوری اتحاد کے الیکشن سیل میں اُس وقت کے الیکشن سیل کے انچارج حسین احمد حقانی نے کی جنھیں آئی ایس آئی نے افغانستان سے بلواکر آئی جے آئی کی انتخابی سیل میں پبلسٹی و پراپیگنڈا کا انچارج مقرر کیا تھا –
حسین حقانی آئی ایس آئی کے پے رول پر افغانستان میں السٹریٹد ویکلی اور فار ایسٹرن ایشیا ویکلی میں نام نہاد افغان مجایدین کے لیے نیوز اسٹوریاں بھیجا کرتے تھے-
یہی حسین حقانی نواز شریف کے پولیٹکل سیکرٹری تھے جنھوں نے آصف علی زرداری اور بے نظیر بھٹو کو
Corrupt ruling couple
سمیت بہت سارے کلیشے گھڑے جو نہ صرف پاکستان کے مین سٹریم اردو و انگلش پریس میں ہیڈلائنز کی صورت شایع ہوتے بلکہ بین الاقوامی پریس میں بھی ان کو چھپوانے کا اہتمام کیا جاتا –
کلیشوں پر مبنی جو پراپیگنڈا تکنیک حسین حقانی نے پاکستان کے پریس میڈیا میں زرداری-بے نظیر کے خلاف مقبول بنائی اصل میں اُس کی ایجاد اور اُسے باقاعدہ ایک فن میں بدلنے کا کردار ایوب خان کی آمریت میں سیاست دانوں کو بدنام کرنے کے لیے ریاستی مشینری نے ایوب خان کے آنکھ، کان کی حثیت رکھنے والے الطاف گوہر تھے –
وفاقی پارلیمانی جمہوریت، سیاست، سیاسی جماعتیں، سیاست دان اس کلیشے بھرے پروپیگنڈا تکنیک کا بنیادی نشانہ تھے – اور دلچسپ بات یہ ہے کہ جب زوالفقار علی بھٹو ایوب خان کی جماعت کنونشن لیگ کے جنرل سیکرٹری بنے تو انھوں نے بھی اس تکنیک سے استفادہ کیا- زوالفقار علی بھٹو کی ایوب کے نزدیک بڑھتی ہوئی قربت اور اُس کی عوامی سطح پر مقبولیت ایسے عناصر تھے جس نے الطاف گوہر کو شدید بے چین کیا اور اُس نے اس قربت پر معترض ایوب کابینہ، بیوروکریسی اور فوجی بیوروکریسی میں طاقتور لوگوں کا ایک گروپ تشکیل دے دیا- یہ 65ء کی جنگ کے سال تھے جب ایوب حکومت میں بھٹو مخالف لابی کو دوبارہ ایوب خان کے قریب ہونے کا موقعہ ملا- ایوب خان نے پوری کوشش کی بھٹو کو رام کرنے کی لیکن بھٹو اپنے ریڈیکل پاکستانی نیشنلزم، تھرڈ ورلڈازم پاپولسٹ رجحان کے زیر اثر ایوب خان کے صدارتی نظام، ترقی کے ماڈل وغیرہ سے بے زار ہوچکا تھا- اُس نے بھرپور بغاوت کا زہن بنایا اور فروری 1966ء میں ایوب شاہی کو اعلانیہ خیرباد کہہ دیا-
بھٹو معاہدہ تاشقند کی مخالفت اور ایوب شاہی کو براہ راست للکارنے کے سبب مغربی پاکستان میں عوام کی نظر میں ہیرو بن گیا تھا – اُس کی بڑھتی ہوئی مقبولیت ایوب خان کے لیے سب سے بڑا چیلنج تھی – اور یہ چیلنچ ایوب خان کے وزیر اطلاعات الطاف گوہر نے قبول کیا-
الطاف گوہر نے بھٹو کی پاکستانی شہریت مشکوک ہونے کا پروپیگنڈا پھیلایا اور اس کا ایک ہندؤ نام بھی گھڑلیا گیا جو ‘گھاسی رام’ تھا- اسی بنیاد پر ایک مقدمہ بھی درج کیا گیا-
بھٹو کی زاتی زندگی پر حملے شروع ہوئے – اُس کی ماں کو لیکر اسے طوائف زادہ قرار دیا گیا-
بیگم نصرت بھٹو کو الطاف گوہر نے بخش دیا اُن کی خاندانی نجابت و شرافت کا اعتراف کیا مگر بھٹو کو ایک عیاش، دل پھینک، جگہ جگہ منہ مارنے والا بناکر پیش کیا، بیگم نصرت بھٹو کو انتہائی دُکھی اور انھیں طلاق لینے تک پر آمادہ دکھایا گیا-
(بعد میں اینٹی بھٹو بریگیڈ نے بھٹو کے اس مفروضہ کردار عیاش عورت باز کردار میں آصف زرداری کو ڈھالا اور بیگم نصرت بھٹو کی مظلومیت بے نظیر بھٹو کے اندر بھرنا چاہی لیکن یہ ڈرامہ جب نہ چلا تو بے نظیر-زرداری کو ظالم بیگم نصرت بھٹو، میر مرتضی اور اس کی اولاد کو مظلوم بناکر پیش کیا جانے لگا)
بھٹو کو سیاست کے میدان میں بلا کا سازشی، دھوکے باز، مداری، گرگٹ اور کسی کے ساتھ وفا نہ کرنے والا، محسن کُش بناکر پیش کیا گیا –
الطاف گوہر کی سربراہی میں کام کرنے والے پروپیگنڈا سیل نے ایوب خان کو سادہ لوح، نیک نیت، ایماندار بناکر پیش کیا اور بھٹو کو انتہائی چاپلوس، مکار، خوشامدی، بھٹو کو ایوب خان کو اپنا باپ بنانے والا بناکر پیش کیا – فوج اور بیوروکریسی میں تقسیم پیدا کرنے والا، 65ء کی پاک-بھارت جنگ کا زمہ دار _
اور یہی الطاف گوہر تھا جس نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا واحد بڑا مرکزی کردار بھٹو کو بناکر پیش کیا –
میں نے جب بھٹو کی زندگی پر تحقیقات شروع کیں تو مجھ پر انکشاف ہوا کہ بھٹو کے خلاف ابتدائی نفرت انگیز کلیشوں کے موجد ایوب خان کی کابینہ، بیوروکریسی میں انتہائی سینئر بیوروکریٹ اور فوج کے سینئر جرنیلوں کے پیدا کردہ تھے – پہلے یہ ایک کم عمر، جونئیر ہونے باوجود ایوب خان کے انتہائی قریب ہونے پر جیلس تھے-ان میں فوجی جرنیلوں میں جنرل موسیٰ خان وغیرہ، بیوروکریٹس میں سب سے زیادہ الطاف گوہر اس سے بہت زیادہ جیلس ہوا – یہ الطاف گوہر جس کو ایوب خان کا
Sevengali & Goebles
کہا جاتا تھا – سیونگلی ایک فکشن کردار ہے جو بعد میں ایک مکمل تعریف میں ڈھل گیا تھا :
a person who manipulates or exerts excessive control over another
تو الطاف گوہر وہ آدمی ہے جس نے 65ء میں ایوب خان سے بھٹو کے جنگ بند کرنے پر ہوئے اختلافات سے فائدہ اٹھایا – اور جب زوالفقار علی بھٹو نے معاہدہ تاشقند پر اعتراض کیا تو الطاف گوہر کی قیادت میں ایوب کی کابینہ میں شامل جرنیل، بیوروکریٹس، صعنتکار، جاگیردار اکٹھے ہوئے اور انھوں نے بھٹو کی کردار کُشی کی ایک زوردار مہم چلائی –
الطاف گوہر، جی ڈبیلیو چودھری، جنرل موسیٰ خان ، جنرل عبداللہ خان نیازی سمیت ایوب کے دور کے کئی کردار ہیں جنھوں نے 65ء اور 61ء کی جنگ بارے ایسی کہانیاں تخلیق کیں جس کا مرکزی کردار بطور ولن زوالفقار علی بھٹو کو بنادیا گیا – گویا 65ء کی جنگ کی آپریشنل ناکامی اور 71ء میں مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن ان سب کا زمہ دار زوالفقار علی بھٹو ٹھہرا –
1972ء میں ویکلی آؤٹ لک میں چھپے بنگلہ دیش بارے مضامین کا ایک مجموعہ آکسفورڈ نے شایع کیا ہے – اس مجموعے میں ہمیں جی ڈبیلو چوہدری، الطاف گوہر 6اور کئی اور بظاہر لبرل نظر آنے والوں کے مضامین ملتے ہیں جو 65ء اور 71ء تک ہونے والے واقعات کی ساری زمہ داری بھٹو پر ڈال دیتے ہیں – ان لوگوں کی بھٹو سے دشمنی، عدوات، پیشہ ور رقابت اور بھٹو کے خلاف سازشیں ڈھکی چھپی نہیں ہیں اور انہوں جو کلیشے بنائے وہ ان سے پہلے کسی نے نہ تو بتائے نہ لکھے تھے –
This was Altaf Gohar, the Sevengali and Goebles of Ayub Khan and others like him who had innovated stories having cliches like, ‘ Plan of military intervention based Operation GAbalatar was presented to Ayub, by Bhutto and he was head of the operational command’, ‘ It was Bhutto who had forced Yayha to postpone the proposed session of NA in Dhaka, and it was also Bhutto, who had forced Yaha to start military operation in EB, so he was sole responsible of breaking up Pakistan’…. Altaf Gohar repeated such cliches in his dozens of articles, in many specches, in many interviews. In Ziaulhaq period Urdu Press not only, but English press spread the cliches and cheap conspiracy theories to defame Bhuttos made by people like Altaf Ghoar on very large scale.
آج پروپیگنڈے کی یہی تکنیک پاکستان تحریک انصاف کا پروپیگنڈا سیل اپنائے ہوئے ہے – بلکہ یہ زیادہ بازاری اور سطحی انداز میں پیش کررہا ہے –
آصف زرداری کے بارے میں پنجاب کے ضمنی الیکشن کے بعد ایک بار پھر یہ کلیشہ زور و شور سے پیش کیا جارہا ہے کہ وہ ‘ہارس ٹریڈنگ’ کو ادارہ جاتی شکل دے رہا ہے – وہ جمہوریت کا بیٹرا غرق کررہا ہے – جبکہ جو یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں وہ سینٹ کے الیکشن میں بھی یہی پروپیگنڈا کررہے تھے لیکن سینٹ کے چیرمین کے الیکشن میں پتا چلا کہ وہ جو آصف زرداری پر ہارس ٹریڈنگ کا الزام لگارہے تھے خود سب سے بڑے ہارس ٹریڈر تھے – اب بھی جب آصف زرداری پر پنجاب کے سی ایم کے الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ کا الزام ثابت نہ ہوا تو اب یہ کہا جارہا ہے کہ وہ چال بازی سے جمہوریت ڈی ریل کررہا ہے – یہ کون لوگ کہہ رہے ہیں وہ جنھوں نے 2014ء میں اسلام آباد میں چڑھائی کی، جنھوں نے عدلیہ اور سلیکٹرز کی مدد سے نواز شریف کو نااہل کیا، اور 2018ء میں دھاندلی سے حکومت بنائی، جنھوں نے نیب، پولیس، آنٹی کرپشن اور ججون کے زریعے دباؤ ڈال کر سیاسی وفاداریاں تبدیل کرائیں – اور ابھی 2022ء میں ہی ایک بار پھر اسلام آباد میں پارلیمنٹ میں باقاعدہ منتخب حکومت کو گرانے کے لیے دھاوا بولا –
ایک ایسی پارٹی جو ضمنی انتخاب جیت کر بھی الیکشن کمیشن، چیف سیکرٹری، آئی جی پنجاب کو دھمکیاں دیتی ہے اور قبر تک اُن کا پیچھا کرنے کی بھڑکیں مارتی ہے – جو حاضر چیف آف آرمی اسٹاف کے جلاف عدار چیف کا ٹوئٹ چلاتی ہے جو اسے اس لیے گالیاں دیتی ہے کہ وہ سیاست میں اُس کے ساتھ کیوں نہیں کھڑا – ہر وہ جج جو اس کے ساتھ نہ کھڑا ہو گندا اور جو اس سے بلیک میل ہو کر اُسے ریلیف دے وہ عظیم ہے –
یہ سیاسی میدان میں تو مقابلہ کر نہیں سکتا بس دھمکیاں دے کر، بلیک میل کرکے جیت چاہتا ہے – یہ ہار جانے کی صورت میں پاکستان کو سری لنکا بنانے کی دھمکیاں دیتا ہے- یہ پاکستان میں کھلے عام خانہ جنگی چاہتا ہے – اور اس کا حامی ٹولہ کہتا ہے وہ سڑکیں بند کردے گا-عدلیہ کے سامنے جمع ہوگا، جی ایچ کیو کا گھیراؤ کرے گا بھول جاتا ہے کہ اگر پاکستان کے پرامن اور شرافت کی زندگی گزارنے والے جمہوریت پسند سڑکوں پر نکل آئے تو نیازی کا شاید کچھ نہ بگڑے لیکن پاکستان کی سڑکوں پر بہت سارے بے گناہ مارے جائیں گے – عمران خان ڈی ایچ اے، بحریہ ٹاؤن جیسی پاپوش کالونیون میں بسنے والی برگر کلاس کے انارکسٹ رویوں کے بل بوتے پر پاکستان پر قبضہ کرنے کس خواب دیکھ رہا ہے جس کے پیچھے جہادی جرنیلوں کا ایک ٹولہ ہے جو ایک بار پھر کرائے کے جہادیوں اور منشیات و اسلحے کے وسیع تر نیٹ ورک کو بحال اور توسیع دینے کی تگ و دود کررہا ہے، دوسری طرف یہ جرنیلی ٹولہ باجوہ کی قیادت میں جرنیلی گروپ سے سی پیک کی قیادت بھی چھین لینا چاہتا ہے تاکہ قبضہ مکمل ہوجائے – اس جرنیلی ٹولے کا پوسٹر بوائے عمران خان ہے _

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

%d bloggers like this: