مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں دو بار کربلا جاچکا ہوں۔ پہلی بار 2009 میں چہلم دمشق میں کرکے اگلے دن۔ دوسری بار 2015 میں عاشور پر۔
دوسرے سفر کے وقت سوشل میڈیا پر ایکٹو ہوچکا تھا۔ روزانہ دن میں کئی بار فیس بک پر ڈائری لکھتا۔ بہت سے لوگ پڑھتے۔ کئی ویب سائٹس ان مختصر تحریروں کو ساتھ ساتھ چھاپتی رہیں۔
بعد میں دوستوں نے مشورہ دیا کہ اس سفرنامے کو کتابی صورت میں چھاپنا چاہیے۔ مواد کم تھا۔ میں نے مختلف برسوں میں ایام محرم کے دوران لکھے گئے مضامین بھی جمع کیے اور کتاب چھپوا دی۔
تین سال پہلے یہ کتاب عین محرم کے موقع پر شائع ہوئی اور علامہ ضمیر اختر نقوی نے انچولی میں امام بارگاہ کے منبر سے اجرا کیا۔ میں امریکا میں تھا۔ کتاب کے بارے میں سوشل میڈیا پر دوستوں کو آگاہ کیا۔ دو ماہ میں کئی سو کاپیاں فروخت ہوگئیں۔
دوسرے ایڈیشن کے پیسے نہیں تھے۔ ملتان سے شاکر بھائی نے کہا کہ میں انھیں چھاپنے دوں۔ میں نے شکریہ ادا کرکے کہا، ضرور۔ لیکن پھر بک کارنر جہلم کے گگن بھائی کی فرمائش آگئی کہ وہ چھاپنا چاہتے ہیں۔ میں نے شاکر بھائی کو بتایا۔ انھوں نے ناراض ہونے کے بجائے خوشی کا اظہار کیا۔
میں نے دوسرے ایڈیشن کے لیے کچھ اضافے کیے تھے۔ کئی تحریریں بڑھائی تھیں۔ تیسرا محرم آگیا، کتاب نہیں چھپ سکی۔ بک کارنر کے پاس کام بہت ہے۔ ایک سے ایک بڑھیا کتاب چھاپ رہے ہیں۔ میری کتاب کہیں کھو گئی اور اس کا نمبر نہیں آسکا۔
مجھے کوئی شکایت نہیں۔ میں ماضی میں اپنی کتابیں خود چھاپتا رہا ہوں، آصف فرخی کے ادارے شہرزاد کا صرف نام ہوتا تھا۔ قیمت بہت کم رکھتا تھا تاکہ کتاب نکل جائے۔ مقصد پیسے کمانا نہیں، ریڈرشپ کمانا اور دوست بنانا تھا۔
میری چار کتابیں ریختہ ویب سائٹ پر موجود ہیں۔ میں انھیں بھی جلد یہاں شئیر کروں گا۔ آج محرم کی مناسبت سے کربلا کا سفرنامہ پیش کررہا ہوں۔ میرا پس منظر، میرا عقیدہ، مذہب سے متعلق میرے خیالات سب اس میں شامل ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر