مارچ 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تکنیکی ڈیفالٹ گیم کا موجد کون؟||عامر حسینی

عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. روزنامہ بیٹھک ملتان کے ایڈیٹوریل پیج کے ایڈیٹر ہیں،۔۔مختلف اشاعتی اداروں کے لئے مختلف موضوعات پر لکھتے رہے ہیں۔

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

17جولائی کی شام سے لیکر 18 جولائی کی رات تک عمران خان کیمپ میں ‘جشنِ فتح’ منایا جاتا رہا-
عمران خان نے جشن فتح ہی نہیں منایا بلکہ انھوں نے انکشاف کیا ہے کہ وفاق اور پنجاب میں افسران کی ایک لسٹ مرتب ہوچکی ہے جن کو نشان عبرت بنادیا جائے گا –
انھوں ‘نیوٹرل’ کو بھی چتاؤنی دی کہ ‘دیکھ لیا نیوٹرل ہونے کا انجام’
ایک بار پھر وہی راگ الاپا ‘ جو اُس کے ساتھ نہیں وہ سارے سیاست دان چور، لیٹرے ہیں، چھوڑوں گا نہیں’
‘الیکشن کمیشن سے کہا کہ مستعفی ہوجائے… بد دیانت کہا، بے ایمان کہا…’
عمران خان کا خیال تھا کہ اُس کے مدمقابل مسلم لیگ نے 17 جولائی کی شام انتخابی نتائج مان کر ہار تسلیم کرلی اور اب وہ وفاق میں اسمبلی توڑ دے گی اور پنجاب اُن کے حوالے کردے گی – یہ مکمل فتح کا سودا سر میں سمائے بیٹھا تھا –
18 جولائی کو آصف علی زرداری جو پنجاب میں پی پی پی کو مضبوط بنانے کے لیے لاہور تشریف لا چکے تھے نے پی پی پی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کی جہاں پر پی پی پی کے اراکین سی ای سی نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا کہ پی پی پی اتحادی جماعتوں کے ساتھ کھڑی رہے گی – وہ وفاق میں اتحادی حکومت کے خاتمے اور جلد الیکشن کی مخالفت کرتی ہے – پنجاب میں حمزہ شہباز شریف کو مستعفی نہ ہونے کے حق میں ہے –
سی ای سی نے پنجاب میں پیدا شدہ نئی صورت حال بارے پارٹی کی حکمت عملی اور تجاویز مسلم لیگ نواز سمیت اتحادی جماعتوں کو پہنچانے کی زمہ داری بھی آصف علی زرداری کو سونپی گئی –
آصف علی زرداری نے 19 تاریخ کو شہباز شریف سے ٹیلی فونک بات چیت کی، ماڈل ٹاؤن جاکر حمزہ شہباز شریف سے گفت و شنید-
اسی دوران مجھے پی پی پی کی انتہائی تجربہ کار سیاسی شخصیت، رکن سی ای سی جو آصف علی زرداری کے ساتھ ساتھ رہیں نے فون پر خبر دی،
‘آصف زرداری کہتے ہیں کہ 22 جولائی کو پی ٹی آئی کے بیس اراکین صوبائی اسمبلی غائب ہوجائیں گے’
میری طرح کچھ لوگوں تک بھی یہ معلومات پاس کی گئیں
میں نے اس معلومات کو کاؤنٹر چیک کیا تو چند اور اہم لوگ بھی یہی معلومات پاس کررہے تھے –
ہم نے جب اس حوالے سے سوشل میڈیا پر کام شروع کیا اور بطور سیاسی تجزیہ نگار بھی اسے آگے بڑھایا تو یہ بات وائرل ہوگئی –
پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ق اور اس کے دیگر اتحادیوں نے اس بات کا جواب ‘لعن طعن، گالی گلوچ اور بدتہذیبی’ کے ساتھ دیا-
پی ٹی آئی نے اپنی ساری پروپیگنڈا مشین آصف علی زرداری کے خلاف بے سروپا اور جھوٹے ہارس ٹریڈنگ کے الزامات لگانے میں صرف کردی –
پی ٹی آئی کا ہر چھوٹا، بڑا حامی ‘ملاں فضحیت’ بن کر اٹھ کھڑا ہوا-
کیونکہ گالی، دُشنام، تہمت کا مرکز آصف زرداری. تھا تو بظاہر عمران نواز اور عمران مخالف تقسیم میں بٹا نام نہاد مین سٹریم میڈیا بھی آصف زرداری پر ہونے والے سب و شتم کو آگے بڑھاتا رہا –
پی پی پی نے ایک تزویراتی حکمت عملی کے تحت کھیل کا آغاز کیا: ایک طرف تو 20 اراکین پی ٹی آئی کے غائب ہونے کا شوشا چھوڑا جس سے پی ٹی آئی اسی خطرے کو لیکر بیٹھ گئی –
دوسری طرف آصف زرداری نے اصل ہدف کی طرف قدم بڑھایا – اور وہ ہدف تھا چوہدری شجاعت کے زریعے مسلم لیگ ق کی حمزہ شہباز شریف کے نام حمایت لینا –
یقینی بات ہے کہ 19 تا 22 تاریخ تک چودھری پرویز اللہی اور عمران خان کے سر پر تو بس یہ دھن سوار تھی کہ کسی طرح اُن کا کوئی رکن مسلم لیگ نواز کے ہاتھ نہ لگ جائے –
ان دونوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ زرداری 63-اے کے ایک بار پھر استعمال کی راہ ہموار کرنے میں لگے ہوئے ہیں جس سے سارے حساب بے باق ہوجائیں گے –
آصف علی زرداری نے چوہدری شجاعت حسین سے ملاقات کی اور چوہدری شجاعت حسین کو انھوں نے یاد دہانی کرائی ہوگی کہ عمران خان کے خلاف پنجاب اور وفاق میں مسلم لیگ ق کی حمایت کی یقین دہانی کے بعد ہی تو پیش قدمی کی گئی تھی اور پی پی پی نے جو وعدہ چوہدری شجاعت سے کیا وہ پورا کرکے دکھایا یہ اور بات کہ چوہدری پرویز اللہی اپنے بیٹے مونس اللہی کی مہم جوئی کی نظر ہوگئے – تین مرتبہ آصف زرداری چوہدری شجاعت سے ملے اور 21 جولائی کی رات کو چوہدری شجاعت حسین نے اپنا ایک خط سربمہر کرکے ڈپٹی اسپیکر کو روانہ کیا جس میں انھوں نے لکھا تھا کہ اُن کی پارٹی کے 10 ارکان صوبائی اسمبلی حمزہ شہباز شریف کو چیف منسٹر کا ووٹ دیں گے –
پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ق، ان کے حمایتی آصف علی زرداری پر 50، 50 کروڑ، پھر ایک ایک ارب روپے کی پنجاب اسمبلی کے ممبران کی بولی لگانے کے بیانات داغ رہے تھے – وہ سپریم کورٹ حلفیہ بیان لیکر پہنچے تھے زرا شرمندہ نہیں ہیں جھوٹ اور بہتان کے تومار باندھنے پر –
وہ موجودہ صورت حال جس میں ایک سیاسی جماعت کے سربراہ نے اپنی جماعت کے 10 اراکین صوبائی اسمبلی کو چیف منسٹر کے انتخاب میں ووٹ حمزہ شہباز کو ڈالنے کا کہا کو ‘لوٹا کریسی، جمہوریت کا قتل’ اور نجانے کیا کچھ کہہ رہے ہیں؟
یہ تکنیکی ڈیفالٹ جس پر ایک شور بدتمیزی بپا ہے، وہ ڈیفالٹ ہے جسے عمران خان اور چودھری پرویز اللہی اینڈ کمپنی نے شروع کیا تھا جب متحدہ اپوزیشن نے پنجاب اور وفاق میں تبدیلی لانے کا اعلان کیا-
عمران خان اور اس کے حواریوں کا خیال تھا کہ وہ سیاسی داؤ پیچ میں ہر کمینگی کو روا رکھیں، تکنیکی اور آئینی موشگافیوں سے معاملات کو لٹکاتے رہیں تاآنکہ کہ وفاق اور پنجاب دونوں میں اُن کی حکومت رہ جائے –
انہوں نے ایوان صدر، اسپیکر کے عہدے کا استعمال کیا-63-اے کی تشریح سپریم کورٹ کو کرنے کو کہا-
چودھری پرویز اللہی نے بطور اسپیکر عدم اعتماد کو پنجاب اسمبلی میں پیش ہونے اور اسپر گنتی کو ناکام بنایا اور عدالتی راستا آخر راستا رکھا اور اس دوران 20 اراکین کو ڈی سیٹ ہی نہیں کرایا بلکہ اُن کے ووٹ بھی خارج کرائے – اور اُس وقت ووٹنگ پر تیار نہ ہوئے جب تک انھیں لگا کہ ہاں اب ان کے ووٹ کوئی لیجا نہیں سکتا –
چودھری پرویز اللہی اور عمران خان اپنی تکنیکی و آئینی موشگافیوں کے ہاتھوں پنجاب سے محروم ہوئے ہیں- اور انھوں نے ایک بار بھی آئین، قانون، اخلاقیات کسی کا بھی لحاظ نہیں کیا-
جب آئین، قانون، جمہوری روایات کو تکنیکی اور آئینی موشگافیوں کے زریعے دیوار سے لگادیا جاتا ہے تب ایسے میں دیوار سے لگے رہنے کی حالت سے نکلنے کے لیے ممکنہ جوابی تکنیک استعمال کی جاتی ہے اور وہ بھی آئین و قانون کے اندر رہتے ہوئے –
عمران خان اور اس کا پیروکار ٹولہ کہتا ہے کہ وہ خود کسی اصول کا پابند نہیں ہے لیکن اس کے مخالف مثالی آئین پسند، مثالی قانون پسند، مثالی اخلاقیات پسند ہوں – اور وہ چپ چاپ ان کی مار سہتے رہیں –
عمران خانی ٹولہ کل تک آصف زرداری پر ہارس ٹریڈنگ کے ایسے الزام لگارہا تھا جیسے یہ خرید و فروخت ان کے سامنے ہورہی ہے لیکن پتا چلا ایک بھی رکن عمران کا ادھر ادھر نہیں ہوا – آج ان میں سے کسی نے اپنی زیادتی کی معافی مانگی؟
آصف زرداری نے سیاسی مذاکرات کیے اور ایک پارٹی (مسلم لیگ ق) کے سربراہ سے پنجاب میں چیف منسٹر کے انتخاب میں حمزہ شہباز شریف کی حمایت مانگی جو انہوں نے دے دی – یہ ہارس ٹریڈنگ کس رو سے ہے؟ یہ جمہوریت پسندی کے خلاف کیسے ہے؟
پی ٹی آئی میں سیاسی بلوغت کا اس قدر فقدان ہے کہ یہ ایک جماعت کے سیاسی قائد کی دوسری جماعت کے قائد سے ملاقات پر اعتراض جڑ دیتے ہیں –

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

%d bloggers like this: