مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی بھی ملک کے مسائل کا سبب عوام کی سیاست سے لاتعلقی ہوتی ہے۔
پاکستان میں مسائل کی وجہ عوام کی سیاست میں ضرورت سے زیادہ دلچسپی ہے۔
یہ دلچسپی اتنی بڑھ چکی ہے کہ سیاست انٹرٹینمنٹ بن گئی ہے۔ الیکٹرونک نیوز میڈیا اس کے سوا کچھ اور دکھاکر ریٹنگ نہیں لے پاتا۔ سوشل میڈیا پر سیاست سے بڑا کوئی موضوع نہیں ہوتا۔
نتیجہ؟ سیاست دان کام کرنے کے بجائے میڈیا کے سامنے رہتے ہیں۔ ججوں کو میڈیا سے دور رہنا چاہیے۔ ہمارے جج ٹاک شوز دیکھتے ہیں اور عدالت میں ان کا ذکر کرتے ہیں۔ سیاست کی سب سے بڑی کھلاڑی فوج ہے۔ اس کا آرمی چیف احمق لوگوں کے وی لاگ دیکھتا ہے اور صحافیوں کو بتاتا ہے۔
اس خچر خانے سے کسی بہتری کی کوئی امید رکھنے والے کو دماغ کا علاج کروانا چاہیے۔
شاید مشرف نے کہا تھا کہ سیاسی عدم استحکام کی وجہ میڈیا ہے۔ اس کے دور میں ایسا نہیں تھا۔ لیکن اب ہے۔ سیاست سے توجہ کم کرنے کے ضرورت ہے۔
میڈیا منہ دوسری طرف کرے تو سیاست دان سنجیدہ ہوکر معیشت بہتر کرنے کی کوشش کریں۔ پاکستان کا خزانہ خالی ہے۔ بلوم برگ معاشی معاملات پر نگاہ رکھنے والا اہم ترین میڈیا گروپ ہے۔ اس کے مطابق پاکستان کو اگلے 12 ماہ میں 41 ارب ڈاکر قرض واپس کرنا ہے۔ پاکستان کا کل بجٹ ساڑھے 9 ہزار ارب روپے ہے۔ امریکی ڈالر کو 225 روپے رکھ کر حساب لگائیں تو 42 ارب ڈالر بنتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ بجٹ کا تخمینہ ہے۔ یہ رقم ہمارے پاس ہے نہیں۔ ٹیکس جمع ہوں گے، برآمدات ہوں گی، سمندر پار سے ترسیلات آئیں گی اور نئے قرضے ملیں گے تو بجٹ پورا ہوگا۔
نئے قرضے کی امیدیں سن لیں۔ آئی ایم ایف شرطیں بڑھائے جارہا ہے اور ٹرخائے جارہا ہے۔ پاکستان دیوالیہ ہوا تو کوئی قرضہ نہیں ملے گا۔ فی الوقت آئی ایم ایف نے سعودی عرب سے پوچھا ہے کہ تم پاکستان کو قرضہ دو گے؟ تم چار ارب دو گے تو ہم بھی ڈیڑھ ارب دے دیں گے۔
سعودی عرب نے پیغام دیا ہے کہ عمران خان کی واپسی کا امکان ہوا تو ہم پاکستان کی مدد نہیں کریں گے۔
کیا سمجھے؟ نئے قرضے سیاسی استحکام سے مشروط ہیں۔ پاگل خان اچھلتا رہا اور میڈیا اس کا ناچ دکھاتا رہا تو سیاسی استحکام ممکن نہیں۔
یوں سمجھیں کہ آپ کی کشتی میں سوراخ ہوگیا ہے اور جنھیں پانی نکالنا ہے، وہ دھینگا مشتی میں مصروف ہیں۔
محرم شروع ہونے والا ہے۔ آئیں ماتم کی پریکٹس کرلیں۔
پنجاب اتنا بڑا صوبہ ہے کہ اس کے بغیر وفاق میں حکومت نہیں چلائی جاسکتی۔
بینظیر کو 1988 میں احساس ہوگیا تھا جب پنجاب میں نواز شریف کی حکومت تھی۔ جب وہ دوسری بار اقتدار میں آئیں تو چٹھہ لیگ کو کم نشستوں کے باوجود وزارت اعلی دے دی تاکہ اس طرف سے سکون رہے۔
حمزہ شہباز کی وزارت اعلی اقربا پروری کی بدترین مثال ہے۔ لیکن میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ فوج کی مداخلت کی وجہ سے ایسی اقربا پروری اور موروثیت سیاسی رہنماؤں کی مجبوری بن گئی ہے۔ ایسا نہ کریں تو فاروق لغاری جیسا پارٹی کارکن اپنی لیڈر کی حکومت توڑ دیتا ہے۔
جب پنجاب کو دو یا زیادہ صوبوں میں تقسیم کرنے کی بات کی جاتی ہے تو بہت سے لوگ ناراض ہوجاتے ہیں۔ جذباتی ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔
پنجاب تین حصوں میں تقسیم ہونے سے زمین افریقا نہیں چلی جائے گی۔ اراضی اور مقامی لوگ وہیں رہیں گے۔ صرف انتظامیہ الگ ہوگی اور سیاسی مجبوریاں گھٹ جائیں گی۔
جرمن قوم تین چار حصوں میں تقسیم ہے۔ پہلے مشرقی اور مغربی حصے الگ ہی تھے۔ آسٹریا بھی وہی قوم ہے۔ چھ ملکوں کی قومی زبان جرمن ہے۔ انھیں الگ ملکوں سے فرق نہیں پڑتا۔ آپ کو بھی الگ ضلع سے فرق نہیں پڑتا۔ الگ صوبے سے کیا مسئلہ ہوجائے گا؟
پنجاب تو پہلے بھی ہندوستان پاکستان میں تقسیم ہوچکا ہے۔ وہ تقسیم زیادہ بری تھی۔ لاکھوں افراد قتل ہوئے۔ اس سے زیادہ برا کچھ نہیں ہوگا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر