مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرانس کے ایک سفارتکار، جو ادیب بھی تھے، سترھویں صدی کے آخری برسوں میں استنبول میں تعینات تھے۔ یونانی، عربی، فارسی اور ترک زبان جانتے تھے۔ قرآن کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ کرچکے تھے جو ان کے انتقال کے بعد سامنے آیا اور شاید ابھی تک نہیں چھپا۔
انتوئن گیلینڈ یا انطوئن گلاں ان کا نام تھا۔ سفارتی ذمے داریوں سے زیادہ دلچسپی مشرقی زبانوں کی کتابوں سے تھی۔ انھوں نے مخطوطوں کا ایک بڑا ذخیرہ مسلمان ملکوں سے فرانس منتقل کیا جو وہاں کے کتب خانوں میں موجود ہے۔
ایک دن انطوئن گلاں کو عربی حکایات کی کتاب ملی جو انھیں بہت دلچسپ معلوم ہوئی۔ عام طور پر عربی میں ویسی کہانیاں نہیں ہوتیں۔ دلچسپی کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ ان کہانیوں کا ہیرو گلاں کی طرح دنیا گھومنے کا شوقین تھا اور اس شوق میں بار بار مشکلات کا شکار ہوجاتا تھا۔ یہ سندباد کی کہانیاں تھیں۔ گلاں نے انھیں ترجمہ کرکے پیرس سے چھپوا دیا اور وہاں بہت پسند کی گئیں۔
کچھ عرصے بعد ان پر انکشاف ہوا کہ سندباد کی کہانیاں دراصل داستان الف لیلہ و لیلہ کا مختصر سا حصہ ہیں۔ انھیں مکمل کتاب کی جستجو ہوئی لیکن وہ کسی کتب خانے میں نہ ملی۔ آخر حلب کے کسی شخص کے پاس اس کی چار جلدیں دستیاب ہوئیں جو انھوں نے حاصل کیں۔ انھیں پڑھتے گئے اور ترجمہ کرتے گئے۔
اس وقت تک دنیا الف لیلہ سے ویسے واقف نہ تھی، جیسے آج ہے۔ گلاں کے ترجمے کا پہلا حصہ 1704 میں چھپا اور یہ کام 12 جلدوں میں مکمل ہوا۔ 12واں حصہ ان کے انتقال کے 2 سال بعد 1717 میں شائع ہوا۔ اس سے پہلے وہ اپنے کام کی مقبولیت دیکھ چکے تھے۔
گلاں کا ترجمہ نہ صرف مکمل نہیں تھا بلکہ انھوں نے اصل متن سے انحراف بھی کیا اور اپنی داستاں گوئی کی صلاحیت سے بارہ مسالے بھی ڈالے۔ اس کے باوجود ان کے کام کی اہمیت کم نہیں کی جاسکتی۔ یہ بات یاد رہے کہ اس وقت تک الف لیلہ عربی میں باقاعدہ پرنٹ نہیں ہوئی تھی۔ عربی کا پہلا نسخہ مصر میں 1775 میں چھپا لیکن آج اس کی کوئی نقل موجود نہیں۔ دوسری اشاعت کلکتہ میں فورٹ ولیم کالج نے 1814 میں کی اور آج وہی سب سے قدیم چھپی ہوئی عربی الف لیلہ ہے۔
گلاں کے فرانسیسی ترجمے کے فورا بعد دوسری یورپی زبانوں میں ترجمے شروع ہوگئے تھے۔ غالبا پہلا ترجمہ پولش زبان میں ہوا۔ انگریزی میں رچرڈ برٹن سے پہلے ترجمے ہوچکے تھے لیکن برٹن نے مکمل الف لیلہ کا ترجمہ کیا جو ابھی کچھ عرصے پہلے تک واحد مکمل ترجمہ تھا۔ انھوں نے پہلے دس جلدوں میں ترجمہ کیا اور پھر مزید سات جلدیں چھاپیں۔ انھوں نے بھی اصل کہانیوں میں خوب اضافے کیے اور انھیں زبان و بیان سے رنگین بنانے میں کسر نہیں چھوڑی۔
اردو میں پہلا مکمل ترجمہ منشی عبدالکریم نے 1847 میں کیا تھا اور میں اس کے بارے میں کچھ عرصہ پہلے بتاچکا ہوں۔ بعد میں رتن ناتھ سرشار، مفتی محمد اسماعیل اور ابوالحسن منصور نے بھی ترجمے کیے۔ اس وقت پاکستان میں جو الف لیلہ کتابوں کی دکان پر دستیاب ہے، وہ رتن ناتھ سرشار کا ترجمہ ہے جسے سنگ میل نے ایک جلد میں اور آکسفرڈ نے چار جلدوں میں شائع کیا ہے۔ سنگ میل کے مجموعے کو انتظار حسین نے ایڈٹ کیا جبکہ آکسفرڈ کے مجموعے پر شمس الرحمان فاروقی اور اجمل کمال کے نام درج ہیں۔ اگر مجھے ٹھیک یاد ہے تو آکسفرڈ کی پہلی جلد نایاب ہوچکی ہے۔
میں گوگل ڈرائیو کے ایک فولڈر کا لنک شئیر کررہا ہوں۔ اس میں وہ اصل عربی مخطوطہ موجود ہے جس سے گلاں نے استفادہ کیا۔ گلاں کی کتاب کا دوسرا ایڈیشن 1806 میں چھپا جس کی 9 جلدیں تھیں۔ اگرچہ یہ فرانسسیسی زبان میں ہے اور میں اور میرے بیشتر دوست اسے نہیں پڑھ سکتے لیکن تبرک سمجھ کر زیارت کرلیں۔ رچرڈ برٹن کے انگریزی ترجمے کی 17 جلدیں بھی ڈال دی ہیں۔ منشی عبدالکریم کے اردو ترجمے کے ساتھ ایک عام نسخہ بھی شامل کیا ہے جو پہلے پرانی کتابوں کے ٹھیلوں پر مل جاتا تھا۔ اس کی زبان آسان ہے اور اسے عام آدمی کے لیے لکھا گیا تھا۔
ان کے علاوہ 1865 میں شائع ہونے والی ڈیلزیل کی الف لیلہ بھی آپ دیکھ سکتے ہیں جس کے لیے خاص طور عمدہ تصاویر بنوائی گئیں۔ اس کا نام ہی السٹریٹڈ اریبین نائٹس انٹرٹینمنٹ ہے۔
اگر آپ الف لیلہ کے بارے میں مزید پڑھنا چاہیں تو محمد کاظم کی کتاب عربی ادب میں مطالعے دیکھیں۔ اس کا پہلا مضمون الف لیلہ کے بارے میں ہے جو اس سے پہلے شاید فنون میں چھپا تھا۔ اسے پڑھ کر آپ جان سکیں گے کہ الف لیلہ کی کہانیوں کی اصل عربی نہیں بلکہ ہندوستانی اور فارسی کہانیاں ہیں اور بعد میں مصر نے بھی ان میں حصہ ڈالا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر