نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اردو کی اولین آپ بیتی، جو اردو میں نہیں ہے||مبشرعلی زیدی

اب جو بات میں بیان کررہا ہوں، اس سے اردو کے نقادوں اور محققین خوش نہیں ہوں گے۔ یعنی جسے "اردو" کی اولین آپ بیتی سمجھا جاتا رہا، وہ اردو کی نہیں، بنگالی زبان کی تحریر ہے۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کالاپانی کے نام سے مشہور جعفر تھانیسری کی کتاب تاریخ عجیب کو سو سال تک اردو کی اولین آپ بیتی سمجھا جاتا رہا۔ اس کا پہلا حصہ 1879 اور دوسرا 1884 میں شائع ہوا تھا۔ بعد میں عبدالغفور نساخ کا نام بھی سامنے آیا لیکن ان کی لکھی ہوئی خودنوشت سو سال بعد چھپ سکی۔ اسے مرتب کرکے 1986 میں شائع کرنے والے ڈاکٹر عبدالسبحان کا کہنا تھا کہ یہ غالبا 1886 میں لکھی گئی۔
اس کے بعد اچانک چند ادیبوں اور نقادوں پر انکشاف ہوا کہ اردو کی پہلی آپ بیتی پتمبر سنگھ نے لکھی تھی۔ یہ بات کئی بار دوہرائی گئی لیکن مزے کی بات ہے کہ پڑھنا تو دور کی بات، کسی اردو والے نے دیکھی بھی نہ تھی۔
ممتاز محقق اور نقاد مشفق خواجہ صاحب کے خطوط کے کئی مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ انھوں نے ایک خط میں یہ لکھا:
آپ بیتی پتمبر سنگھ مطبوعہ 1830، اس کا ذکر گارساں دتاسی نے تاریخ ادبیات ہندی ہندوستانی میں کیا ہے۔ شاید آپ کے علم میں ہو، مجھے آپ بیتیوں سے بے حد دلچسپی ہے۔ میرے پاس ایک ہزار سے زیادہ آپ بیتیاں ہیں۔ اردو کی تو شاید ہی کوئی آپ بیتی ہو جومیرے پاس نہ ہو۔ مذکورہ آپ بیتی خیال ہے کہ اردو کی پہلی آپ بیتی ہے اور یہ میری نظر سے نہیں گزری۔
شہربانو بیگم کی خودنوشت بیتی کہانی اردو میں کسی خاتون کی پہلی آپ بیتی تھی۔ اسے معین الدین عقیل منظر عام پر لائے۔ اس کتاب کے دیباچے میں انھوں نے تحریر کیا:
اردو میں خودنوشت سوانح عمری اس موضوع پر تفصیلی و خصوصی مطالعہ کرنے والے مصنفین اور محققین کے مطابق 1886 سے قبل نہیں لکھی گئی۔ اس ضمن میں زیادہ سے زیادہ عبدالغفور نساخ اور جعفر تھانیسری کی تصنیف کردہ اردو کی اولین خودنوشت سوانح عمریاں بتائی جاتی ہیں جو 1886 میں لکھی گئیں۔ جبکہ پتمبر سنگھ اور سید رجب علی کی خودنوشت تاحال اس موضوع پر کام کرنے والے محققین اور مورخین ادب کے پیش نظر نہ آسکیں۔ اس اعتبار سے پتمبر سنگھ کی تحریر کردہ خودنوشت کو اردو کی اولین خودنوشت کہا جانا چاہیے۔
کیا بیت گئی قطرے پہ گہر ہونے تک ڈاکٹر غنی الاکرام سبزواری کی آپ بیتی ہے۔ اس کے پیش لفظ میں ڈاکٹر رئیس اجمد صمدانی نے لکھا:
پتمبر سنگھ اور منشی رجب علی خان کی خودنوشت کے علاوہ شہربانو بیگم کی خودنوشت بعنوان بیتی کہانی مئی 1885 میں لکھی گئی۔ یہ اردو کی اولین خودنوشت سوانح عمریوں میں سے ایک ہے۔
ممتاز ادیب محمد حامد سراج نے نامود ادیبوں کی آپ بیتیاں کے عنوان سے مجموعہ مرتب کیا۔ اس کے تعارف میں انھوں نے یہ بیان کیا:
میموئرز آف پتمبر سنگھ کو اردو کی اولین خود نوشت کہا جاسکتا ہے لیکن بسیار کوشش کے باوجود اس کا کوئی نسخہ راقم کو جنوبی ایشیا کے کتب خانوں کے معلومہ ذخائر میں اور انگلستان فرانس کے کتب خانوں میں دستیاب نہ ہوا۔ گارسین دتاسی کے مطابق پتمبر سنگھ کی یادداشتوں پر مشتمل یہ تصنیف کلکتہ سے 1820 ء میں مشنری پریس نے شائع کی تھی اور غالبا بیس صفحات پر مشتمل تھی۔
معلوم ہوا کہ پتمبر سنگھ کا نام سب نے گارساں دتاسی کی کتاب میں پڑھا۔ گارساں دتاسی کون تھے؟
جوزف ہالیوڈور گارساں دا تاسی فرانسیسی ماہر ادبیات تھے۔ وہ 1794 میں فرانس کے شہر مارسے میں پیدا ہوئے اور مشرقی زبانوں میں دلچسپی رکھتے تھے۔ انھوں نے ابتدا میں عربی کتابوں کو ترجمہ کیا۔ بعد میں انھیں ہندوستانی زبان سے دلچسپی ہوئی جو اس زمانے میں اردو کو کہا جاتا تھا۔ ان کے خطبات اور مقالات کی کتابیں اب پاکستان ہندوستان کی جامعات میں اردو ادب کے کورسز میں شامل ہوتی ہیں۔
گارساں دتاسی کی کتاب ہسٹوئیر ڈی لا لٹریچر ہندوئی ایٹ ہندوستانی دو جلدوں میں پیرس سے شائع ہوئی جس میں انھوں نے ہندوستان میں شائع ہوئی کتابوں کا تعارف پیش کیا۔ اس وقت تک ہندوستان میں بھی ایسی کتاب شائع نہیں ہوئی تھی۔ اس میں پتمبر سنگھ کے بارے میں یہ الفاظ درج ہیں:
ہندو جس نے مسیحی مذہب اختیار کیا، ہندوستانی زبان میں یادداشتیں لکھیں جو میموئر آف پتمبر سنگھ کے عنوان سے 1820 میں کلکتہ سے شائع ہوئیں۔
گارساں دتاسی کے خطاب اور مقالات تو ایک عرصے سے چھپ رہے تھے لیکن ان کی تاریخ ادبیات اردو معین الدین عقیل ہی کی کوشش سے چند سال پہلے شائع ہوئی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس میں پتمبر سنگھ کے بارے میں ایک جملے سے اردو کے محققین اور نقادوں کو دلچسپی ہوئی۔ لیکن یہ کتاب کسی کے ہاتھ نہیں آئی حالانکہ یہ کم از کم چار بار شائع ہوئی تھی اور ہر بار ہزاروں کی تعداد میں چھپی۔ پاکستان اور ہندوستان کا کوئی محقق کیوں پتمبر سنگھ کا سراغ نہیں لگاسکا، مجھے تعجب ہے۔ ہندوستان، اور خاص طور پر کلکتہ کے کسی اردو ادیب یا نقاد کو پتمبر سنگھ کی آپ بیتی ضرور ڈھونڈنی چاہیے تھی۔
میں ان دنوں امریکا کی ایک یونیورسٹی میں پڑھ رہا ہوں اور دنیا بھر کے ریسرچ آرٹیکلز تک رسائی ہے۔ مجھے برٹش لائبریری جرنل کے 1977 میں موسم بہار کے شمارے میں ایک مضمون میں پتمبر سنگھ کا ذکر ملا۔ گراہم ڈبلیو شا نے اپنے تحقیقی مضمون دا کٹک مشن پریس اینڈ ارلی اوریا پرنٹنگ میں یہ جملے لکھے تھے:
میموئر آف پتمبر سنگھ [اصل نام: پتمبرا سمہار کارترا] بنگالی ہندو جنھوں نے مسیحی مذہب اختیار کیا اور 1805 میں ساٹھ سال کی عمر میں سیرام پور میں انتقال کرگئے۔ ان کی تحریر کو ولیم وارڈ نے شائع کیا۔ اس کا کچھ حصہ نثر اور کچھ نظم پر مشتمل ہے۔ اس کا تیسرا ایڈیشن کٹک میں پانچ ہزار کی تعداد میں چھپا۔ اس سے پہلے دو ایڈیشن سیرام پور یا کلکتہ میں چھپے ہوں گے۔
اس ریسرچ آرٹیکل سے معلوم ہوا کہ پتمبر سنگھ کی تحریر جب چھپی تو ان کا انتقال ہوچکا تھا۔ وہ سیرام پور کے رہنے والے تھے جو کلکتہ کا نواحی قصبہ ہے۔ ان کی کتاب چھاپنے والے ولیم وارڈ انگریز مبلغ تھے جنھوں نے متعدد مقامی افراد کو مسیحی بنایا تھا اور ان کی تحریریں چھاپی تھیں۔ گراہم شا نے پتمبر سنگھ کی تحریر کا تیسرا ایڈیشن دیکھا بلکہ اس کا عکس بھی اپنے مضمون کے ساتھ شائع کیا جو 1837 کی اشاعت ہے۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ پہلا ایڈیشن 1820 میں کلکتہ میں چھپا تھا کیونکہ اسے چھاپنے والے ولیم وارڈ 1823 میں انتقال کرگئے تھے۔ ظاہر ہے کہ آئںدہ کے ایڈیشن دوسروں نے چھاپے ہوں گے۔
اب جو بات میں بیان کررہا ہوں، اس سے اردو کے نقادوں اور محققین خوش نہیں ہوں گے۔ یعنی جسے "اردو” کی اولین آپ بیتی سمجھا جاتا رہا، وہ اردو کی نہیں، بنگالی زبان کی تحریر ہے۔
گارساں دتاسی نے پتمبر سنگھ کی بنگالی یادداشتوں کو اردو میں کیوں شمار کیا، یہ کہنا دشوار ہے۔ میرا خیال ہے کہ انھوں نے بھی بارہ صفحات کی یہ پمفلٹ نما کتاب نہیں دیکھی ہوگی کیونکہ وہ اردو جانتے تھے۔ اگر اسے دیکھتے تو زبان پہچان جاتے۔
پتمبرا سمہار کارترا کے پہلے ایڈیشن کا ایک نسخہ پیرس کی ایک لائبریری میں موجود ہے۔ اس کی نقل تو نہیں مل سکی لیکن میں نے 1843 میں شائع ہوئے چوتھے ایڈیشن کا عکس حاصل کرلیا ہے جس کی پی ڈی ایف فائل آپ بھی چاہیں تو ڈاون لوڈ کرسکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

About The Author