اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

غیر معمولی توجہ، غیر متوقع نتائج اور یقینی لاحاصلی پر مبنی ضمنی الیکشن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔||رؤف لُنڈ

اس حقیقت کے باوجود کہ پیپلزپارٹی کا اپر پنجاب سے تقریباً صفایا ہو چکا ھے۔ مگر سرائیکی وسیب کے اضلاع مظفرگڑھ، لیہ، لودھراں، جہاں پارٹی کی کافی حمایت موجود ھے وہاں بھی یہی حال رہا۔

رؤف لُنڈ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پنجاب کے حالیہ ضمنی انتخابات نے چونکہ وفاقی و صوبائی حکومتوں کے خلاف عدم اعتماد، عدم اعتماد کے نتیجہ میں کسی کی خوشی، کسی کے غم و غصے، اسٹیبلیشمنٹ (خصوصاً عدالتی و عسکری قوتوں) کی مداخلت، آئینی اہلی و نا اہلی کی موشگافیوں ، سماجی بے چینی اور نتائج سے پنجاب حکومت کے رہنے نہ رہنے کی بحثوں کے دردِ زہ (پیدائش کے وقت کے درد/پیڑ) سے جنم لینے اور شاید پہلی دفعہ اس قدر زیادہ بیک وقت (بیس ) نشستوں پر ضمنی الیکشن کے انعقاد نے غیر معمولی توجہ حاصل کرلی ۔۔۔۔

انتخابات کے اعلان سے نتائج تک تقریباً ہر کسی نے اپنی سیاسی وابستگی ، دلچسپی ، پہلے سے موجود روایت یا ظاہری حالات کیمطابق تجزئیے کئے۔ اس سیاست میں اس طرح سوچنے اور تجزیہ کرنے والوں کا استحقاق بھی بنتا ھے ۔ بحیثیت مجموعی ضمنی انتخابات کے نتائج اپوزیشن کی بڑی پارٹی پی ٹی آئی کے تجزیوں اور خواہش کے مطابق آئے ہیں ۔ ان انتخابات کی (اس نظام کے اندر رہتے ہوئے) واحد خوبی اور خوبصورتی لوٹا ازم (جن کی وجہ سے یہ سارا میلہ لگایا گیا) کی شکست ھے ۔ پی ٹی آئی نے جس طرح مفادات کے پجاری وفاداریاں بدلنے والوں کو ذلیل و خوار کیا ھے وہ اس سے کئی گُنا زیادہ ذلت و خواری کے حقدار ہیں ۔

ان انتخابات کا ایک اھم پہلو جو انتخابات سے پہلے Talk of the day ( زبان زدِ عام بات ) تھی وہ ھے نیوٹرلزم ۔ (یعنی آج کی بات کی روشنی میں اسٹیبلشمنٹ اور الیکشن کمیشن کا کردار ) جو کبھی بھی نیوٹرل نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ کوئی جانور بھی ۔ جلد یا بدیر یہ حقیقت آشکار ہونا شروع ہو جائیگی ۔ سرِ دست دو نشانیاں ! ایک انتخابی مہم کے عین عروج، الیکشن کے دو تین پہلے یا خود الیکشن والے دن مسلم لیگ ن کے ایم پی ایز کا آناً فاناً کسی الزام اور جواز کے بغیر مستعفی ہونا ۔ دوسرا پیپلزپارٹی کا مسلم لیگ ن کے اتحادی ہونے کے باوجود منظرِ عام سے غائب ہونا ۔

اس حقیقت کے باوجود کہ پیپلزپارٹی کا اپر پنجاب سے تقریباً صفایا ہو چکا ھے۔ مگر سرائیکی وسیب کے اضلاع مظفرگڑھ، لیہ، لودھراں، جہاں پارٹی کی کافی حمایت موجود ھے وہاں بھی یہی حال رہا۔( ملتان اور ڈیرہ غازیخان میں البتہ پیپلزپارٹی فیصلے کا ملا جلا رحجان رہا، ملتان میں پی پی گیلانی نے مسلم لیگ ن اور ڈی جی خان میں پی پی کھوسہ نے پی ٹی آئی کو سپورٹ کیا )۔

آخر میں انتخابات کی لا حاصلی کی بات ! جیت کی خوشی کے جشن اور ہار کی مایوسی کے بادل چھٹتے ھی پتہ چلے گا کہ اس طبقاتی نظامِ زر کے اندر عام انتخابات ہوں یا ضمنی انتخابات ان میں جیت کسی کی بھی ہو ہار صرف عوام کی ھی ہوتی ھے ۔ کیونکہ اس نظام کے انتخابات سے ریاست، ریاست کے گماشتہ اداروں (سول و ملٹری بیوروکریسی، پارلیمان، عدلیہ، الیکشن کمیشن وغیرہ) ، بالادست حکمران طبقہ کی حیثیت ، خباثت، لوٹ مار کی ریتیں، رسمیں، سامراجی گماشتگی، غربت، بھوک، مہنگائی، لا علاجی، بے روزگاری، بدامنی، استحصال اور ذلتوں میں کوئی کمی نہیں آتی بلکہ اضافہ ھی ہوتا ھے ۔

ہاں ان سب خباثتوں میں کمی بھی ہوتی ھے بلکہ یہ سب سرمایہ دارانہ خباثتیں ختم بھی ہوتی ہیں ۔ مگرتب جب بقول لینن ” محنت کش طبقہ اپنے ہاتھوں سے نہیں بلکہ قدموں سے ووٹ ڈالتا ھے (انقلاب کرتا ھے)۔ لازم ھے کہ ھم بھی دیکھیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 مبارک باد اور سرخ سلام۔۔۔رؤف لُنڈ

اک ذرا صبر کہ جبر کے دن تھوڑے ہیں۔۔۔رؤف لُنڈ

 کامریڈ نتھومل کی جدائی ، وداع کا سفر اور سرخ سویرے کا عزم۔۔۔رؤف لُنڈ

زندگی کا سفر سر بلندی سے طے کر جانے والے کامریڈ کھبڑ خان سیلرو کو سُرخ سلام۔۔۔رؤف لُنڈ

رؤف لُنڈ کی مزید تحریریں

%d bloggers like this: