اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

چیئرمین ایچ ای سی : علامت نگاری سے تصور نگاری تک!||نعیم مسعود

پھر اڑتی اڑاتی بل کھاتے ایک خبر زبان زد خاص و عام تھی کہ، بالترتیب: ڈاکٹر مجاہد، ڈاکٹر محمد علی شاہ اور ڈاکٹر اقرار۔ کسی نے کہا ”رضیہ پھنس گئی غنڈوں میں“

نعیم مسعود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بیس جون 2022 کو چئرمین پنجاب ایچ ای سی آفس میں احباب کے درمیان فہم عامہ والی ہلکی پھلکی بحث کی سرگوشی تھی اور فہم و فطن پر مبنی بازگشت بھی، کہ چئرمین ایچ ای سی کے لئے سابق وی سی پنجاب یونیورسٹی (پروفیسر آف فزکس ) میدان مار لیں گے، یہ دوستوں کی ”علامت نگاری“ تھی۔ اس موقع پر فقیر بھی بھی تصور نگاری کا بم پھوڑے بغیر نہ رہ سکا، اور، ہماری تصور نگاری ہم سے دو ہاتھ آگے نکل کر بول گئی کہ ”نہیں ڈاکٹر مختار احمد سابق چیئرمین ایچ ای سی!“ فہم داری کائے تقاضے کے عین مطابق ہمارا تمسخر تو اڑنا تھا، سو اڑا۔

پھر، 23 جون کو ہمارا جگاڑ آپے سے یوں باہر آیا جیسے جن بوتل سے باہر آتا ہے، اور ہم ڈاکٹر مختار احمد، ڈاکٹر مجاہد کامران، ڈاکٹر محمد علی شاہ (پروفیسر آف بائیو ٹیکنالوجی) وی سی قائد اعظم یونیورسٹی اور ڈاکٹر اقرار احمد خان وی سی ایگریکلچرل یونیورسٹی فیصل آباد بالترتیب ”فیلر“ داغ دیا۔ فیلر رائیگاں نہیں گیا، لوگوں کے کتھارسس، ساڑھ اور حسرتوں کو گویا کیٹالسٹ /انزائم مل گیا۔

پھر اڑتی اڑاتی بل کھاتے ایک خبر زبان زد خاص و عام تھی کہ، بالترتیب: ڈاکٹر مجاہد، ڈاکٹر محمد علی شاہ اور ڈاکٹر اقرار۔ کسی نے کہا ”رضیہ پھنس گئی غنڈوں میں“

مگر ہماری سوچ نے انگڑائی لی اور فوری جواب دیا، نہیں :

”غنڈے پھنس گئے رضیہ میں“ قہقہہ تو لگا مگر روسی ٹریکٹر کے اسٹارٹ والا یا بیڈفورڈ ٹرک کی بلغمی کھانسی والا۔ مگر سوچ کی انگڑائی نے کہا ”تو آ جا“ مگر کوئی نہ آیا۔ بزم ناز نے کہا ڈاکٹر اقرار اور ڈاکٹر مجاہد کو ایجنسیاں نہیں چھوڑیں گی۔ مگر اس کے جواب سابق پی وی سی و وی سی گیریژن یونیورسٹی لاہور ڈاکٹر جمیل انور نے بڑا خوبصورت جواب مجھے لائیو ٹاک شو میں ایک ٹی وی پروگرام میں دیا جس کا مفہوم تھا۔ ”یہاں اوپر تا نیچے کون نیب زدہ یا مطلوب نہیں؟“

بات آگے چلی گئی، آخر الذکر لسٹ پر ہمارے ایک پیارے دوست نے جواب دیا ”مشکل ہے، حرف اٹھائے جائیں گے، سرچ کمیٹی میں ممبران کی عدم دلچسپی اور غیر حاضری پر انگلیاں اٹھیں گی، سارا پراسس چیلنج ہو گا۔ مزے کی بات یہ کہ، یہ سب کہنے والے صاحب اب کی“ فائنل ”لسٹ میں تین لوگوں میں شامل ہیں۔ نہیں، نہیں! یہ ڈاکٹر مختار نہیں، کوئی اور ہیں!

المختصر، اب کی فائنل لسٹ کے متعلق کچھ کرم فرما کہتے ہیں، کسی کا کالم بھی آیا ہے جسے سابق چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر جاوید لغاری نے امریکہ سے چرایا اور ادھر ادھر اڑایا ہے کہ، وفاقی وزیر برائے ہائر ایجوکیشن رانا تنویر حسین نے کہا تھا کہ ”یہی فائنل لسٹ وزیراعظم و کابینہ کے پاس جائے گی، ورنہ سب ساکت رہ جائے گا۔ اس حتمی نما فہرست میں ڈاکٹر مختار احمد، ڈاکٹر خورشید خان دیار غیر کے باسی ہیں، آج کل بریڈفورڈ یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں، ان کا ماضی نمل کے ساتھ بھی جڑا رہا ہے، دلچسپ بات یہ کہ، یہ نوشہرہ یونیورسٹی میں جب ماضی میں وی سی لگے، تو کچھ پلے نہ ہڑا، اور دو تین ماہ بعد مستعفی ہو کر باہر چلے گئے۔ پروفیسر آف فارماکالوجی، سابق سربراہ کونسل برائے سائنس و ٹیکنالوجی پاکستان اور سابق وی سی ہری پور یونیورسٹی ڈاکٹر انوار گیلانی شامل ہیں، یہ کبھی بہاول الدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں لیکچرار بھی رہے تاہم کافی عرصہ آغا خان یونیورسٹی سے درس و تدریس سے منسلک بھی رہے۔

بہرحال طارق بنوری کے ناکام ترین دور کے خاتمہ کے بعد 235 یونیورسٹیاں اپنے گرینڈفادر کی منتظر ہیں، جن میں سے 141 پبلک سیکٹر/سرکاری اور 94 پرائیویٹ یونیورسٹیاں شامل ہیں۔ ایچ ای سی کو کم و بیش 100 بلین روپے سالانہ ڈویلپمنٹ اور نان ڈیویلپمنٹ بجٹ کی مد میں حکومت پاکستان سے ملتے ہیں۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر طارق بنوری نون لیگ حکومت کی پیداوار اور دریافت تھے جو شاہد خاقان عباسی کی وزارت عظمیٰ کے دوران ایچ ای سی پر براجمان ہوئے، اور پھر! کہا یہ جاتا ہے کہ، ڈاکٹر طارق بنوری کو 25 ویں نمبر کے نیچے سے اٹھا کر پہلے پر لایا گیا تھا۔

اب ٹاک آف ٹاؤن یہ پھر سے تماشا گر ہے کہ، دال میں کالا کالا ہے، 150 لوگوں نے چئرمین ایچ ای سی کے لئے اپلائی کیا تھا، 72 کے انٹرویوز ہوئے۔ انٹرویوز میں ٹاپرز میں ڈاکٹر مجاہد کامران، ڈاکٹر محمد علی شاہ، ڈاکٹر جمیل احمد وی سی ہزارہ یونیورسٹی، ڈاکٹر طارق محمود نارووال یونیورسٹی، ڈاکٹر زکریا ذاکر وی سی یونیورسٹی آف پونچھ، ڈاکٹر فضل احمد خالد ریکٹر غلام اسحاق خان انسٹیٹیوٹ، سابق وی سی یو ای ٹی، سابق چیئرمین پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن، ڈاکٹر شنواری (پروفیسر ایمریٹس قائد اعظم یونیورسٹی) ، ڈاکٹر جہان بخت وی سی جامعہ زرعیہ پشاور اور ڈاکٹر خان بہادر مروت سابق وی سی جامعہ زرعیہ پشاور بھی شامل ہیں۔ اس دوڑ میں آزاد جموں و کشمیر سے سابق وی سی یو او اے جے کے ڈاکٹر حبیب الرحمٰن بھی شامل تھے جو ایک ذرائع کے مطابق کم و بیش 12 ویں نمبر پر رہے!

اس طرح کے امور میں سوال تو اٹھا ہی کرتے ہیں، مقابلہ بھی سخت ہوتا ہے، حتیٰ کہ سرچ کمیٹی پر سوال اٹھا کرتے ہیں، کسی کے تجربہ سے کیڑے نکالے جاتے ہیں اور کسی کے کردار پر بحث و تمحیص چلتی ہے، اسٹیک ہولڈرز پر کیچڑ اچھالنا یا اچھلنا معمول ہوا کرتا ہے تاہم کوئی انٹرویوز میں کوانٹیفائی ہو جاتا ہے، کوئی تجربہ سے متاثر کرتا ہے اور کوئی اسٹیک ہولڈرز کے لئے تجرباتی کشش رکھتا ہے تاہم اصل اور کنگ اسٹیک ہولڈر وزیراعظم ہوتا ہے یا اس کی کابینہ سو ان کا ایک اپنا زاویہ نظر ہوا کرتا ہے۔ سچ، یہ بھی ہے یہاں کوئی جیت ہار نہیں ہوا کرتی کم و بیش یہ ٹاپ ففٹی قوم کے ماتھے کا جھومر اور انمول اثاثہ ہیں جن کو شاید نمیریکلی پرکھنا آساں بھی نہیں مگر کوشش اپنی جگہ ایک فرض ہے۔ کبھی چیرمین ایچ ای سی وفاقی وزیر کے برابر ہوا کرتا تھا براہ راست وزیراعظم سے تعلق وزارت اور بیوروکریسی کی درمیان کوئی رکاوٹ نہیں پھر اسے وزیر مملکت کے برابر لایا گیا، جو بھی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ احساس ذمہ داری اور چیلنجز کو مدنظر رکھا جائے، انٹر پرنیورشپ، کمیونٹی ٹچ، کنسورشیم ڈویلپمنٹ، انڈسٹریل لنک، لینگوئجز اور سوشل سائنسز کے میدانوں، ضابطوں اور امور میں ربط کا بول بالا بہت ضروری ہے اگر یونیورسٹیوں کو اس ڈگر پر نہ لایا گیا تو تمام تر ریاضتوں اور محنتوں کے باوجود ایچ ای سی ایک افسانے کے سوا کچھ نہیں۔ حاکم وقت کا فرض ہے گلوں میں رنگ بھرنے، اقتصادیات کو عملی اور مفید ریسرچ میں لانے اور انٹرنیشنل سٹینڈرڈ چیلنجز کے فہم کو لمحہ بھر کے لئے فراموش نہ کیا جائے! رینکنگ کو ڈرامہ، شماریاتی گورکھ دھندا یا پلیجرزم پر مبنی ڈیٹا سے نکال کر، یونیورسٹیوں کو ان کے اصلی کیڈر، حقیقی ریسرچ اور عمر کے اعتبار سے رینکنگ سسٹم کو قابل قبول بنایا جائے، تھرڈ پارٹی جائزہ بھی ضروری ہے گر ایچ ای سی ماں ہے، تو اپنے بچوں کی رینکنگ کیسے کر پائے گی؟

جاتے جاتے ایک فریاد یہ بھی کہ، ایچ ای سی کے پیچھے ایک مافیا ہمیشہ ہاتھ دھو کر پڑا رہتا ہے، اس میں قلم کار، پلیجرسٹ، اپرچیونسٹ، ڈرٹی سیاست اور افسر شاہی و سکھا شاہی والے بھی شامل ہیں، گر ایچ ای سی ان کلاکاروں سے بچ جائے تو کارکردگی یقیناً قابل رشک ہو سکتی ہے، علامت نگاری و تصور نگاری تو چلتی رہتی ہے بس صاحبان علم و ہنر کا تعلیم دوست اور وطن دوست ہونے کے علاوہ معاون ہونا ضروری ہے، معاون جرم نہیں ممد و معاون! پھر چئرمین کوئی بھی ہو تاہم لیڈرشپ کی فراست والا!

بشکریہ:روزنامہ جنگ

یہ بھی پڑھیے:

محبت: جی بی کے بعد آزاد کشمیر؟۔۔۔ نعیم مسعود

اپنی اصلاحات کا موڑ کب آئے گا؟۔۔۔ نعیم مسعود

عالمی و قومی منظرنامہ اورصدر آزادکشمیر!۔۔۔ نعیم مسعود

زرداری رونمائی، مولانا اِن ایکشن، خان اِن ٹربل؟ ۔۔۔ نعیم مسعود

نعیم مسعود کے دیگر کالمز پڑھیے

%d bloggers like this: