مئی 6, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سب سے اہم مسئلہ پانی||ظہور دھریجہ

ریاست کے انگریز پولیٹیکل نمائندے کرنل منچن نے ریاست کیلئے آبادکاری کے منصوبے بنائے ،ستلج پر ہیڈورکس سلیمانکی ، اسلام اور پنجند بنائے گئے ، ان ہیڈورکس کی تعمیر کیلئے نواب آف بہاولپور نے ریاست کے اہم ضلع بہاولنگر کو رہن رکھ کر بینک کے معرفت انگریز سرکار سے قرض حاصل کیا

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کراچی کیلئے فراہمی آب کا منصوبہ بھی ضروری ہے مگر قومی سطح پر پانی کے مسائل کے حل کیلئے توجہ کی ضرورت ہے کہ پانی کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ پینے کے پانی کے علاوہ زراعت کے لئے بھی پانی کی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے، پانی کی قلت کے باعث ملکی زرعی پیداوار میں بڑی کمی خدشہ ہے، سرائیکی وسیب اور سندھ کو پانی کی کمی کی شکایت ہمیشہ رہی ہے ، اب وفاقی وزیر آبی وسائل سید خورشید شاہ کا تعلق سندھ سے ہے ، کہا جاتا ہے کہ سندھ نے پانی کا زیادہ حصہ حاصل کر لیا ہے ، وسیب سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے رہنما نوابزادہ نصر اللہ خان کے صاحبزادے نوابزادہ افتخار خان نے کہا ہے کہ سید خورشید شاہ نے وسیب کے پانی پر ڈاکہ ڈالا ہے اور وسیب کے پانی کا حصہ سندھ کو دے دیا ہے ، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ارسا میں خورشید شاہ نے اپنے آدمی بٹھا دئیے ہیں جو کہ وسیب کو پانی نہیں دے رہے، وسیب میں نہروں کی بندش کے باعث کاشتکار سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں، قبل ازیں چولستان سے خشک سالی سے انسان اور جانور بلک بلک کر مر گئے، حکومت کو پانی کے مسئلے کا حل نکالنا ہوگا۔ یہ حقیقت ہے کہ سرائیکی وسیب بنیادی طور پر زرعی ریجن ہے اور مجموعی زرعی پیداوار کا 70 فیصد یہ علاقہ پیدا کرتا ہے اسکے باوجود ارسا میں وسیب کی نمائندگی نہیں ۔ ارسا ایکٹ جب منظور ہوا تو اس میں ہر صوبے سے ایک ایک ممبر کو نمائندگی دی گئی ،حالانکہ آبادی کے ساتھ ساتھ دریاؤں کی جغرافیائی صورت حال کے پیش نظر پنجاب کو یہ مطالبہ کرنا چاہیے تھا کہ اگر دو نہیں تو کم از کم ارسا میں ایک نمائندہ وسیب سے لیا جانا ضروری ہے بات سرائیکی وسیب کے حق کی تھی لیکن سب خاموش رہے۔ ، پرویز مشرف نے ایک اور غیر قانونی کام کیا ،اس نے ارسا ایکٹ میں ترمیم کر کے اسلام آباد کو نمائندگی دے کر ایک سیٹ کا اضافہ کر دیا مگر اس میں یہ لکھ دیا کہ اسلام آباد کا نمائندہ ہمیشہ کیلئے سندھ سے ہو گا ، یہ فیصلہ اصولی قدروں کو پامال کرنے کے ساتھ ساتھ انصاف اور قانون سے بھی ماورا فیصلہ ہے ، ایسے واٹر بلنڈر کاجس سے کروڑوں انسان متاثر ہو رہے ہوں از خودنو ٹس لیا جانا چاہیے۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا میں اب جنگیں پانی کے مسئلے پر ہوں گی ، حالات و واقعات یہی بتاتے ہیں کہ ہمارے ہاں پانی کے مسئلے پر اتحادی حکومت کے باوجود صوبے ایک دوسرے سے نالاں ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جب پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ ایک دوسرے سے قریب ہوتے ہیں تو قربانی کا بکرا سرائیکی وسیب کو ہی بنایا جاتا ہے۔ 1991ء میں نواز شریف نے سندھ سے پانی کے معاہدے میں وسیب کے پانی کا حصہ سندھ کو دے کر نعرہ بلند کیا کہ بڑے بھائی نے قربانی دی ہے ، اس معاہدے کا سرائیکی وسیب کو سخت نقصان ہوا۔ سرائیکی خطہ سات دریائوں کی سر زمین ہے اور پانی کے بڑے بڑے بیراج وسیب میں موجود ہیں ، اس کے باوجود یہ خطہ پیاسا ہے ۔پانی کا مرکز میانوالی ہے اور ملتان ڈویژن ہیڈ تریموں سے سیراب ہوتا ہے ،مجوزہ صوبہ جنوبی پنجا ب سے یہ علاقے باہر ہیں ، اس لئے وسیب کے لوگ ایسا کوئی صوبہ قبول نہیں کریںگے جس سے وہ اپنے پانی کے وسائل سے محروم ہو جائیں۔ سابق ریاست بہاول پور میں نہری نظام سے قبل آبادی کم اور رقبے زیادہ تھے ، ریاست کے انگریز پولیٹیکل نمائندے کرنل منچن نے ریاست کیلئے آبادکاری کے منصوبے بنائے ،ستلج پر ہیڈورکس سلیمانکی ، اسلام اور پنجند بنائے گئے ، ان ہیڈورکس کی تعمیر کیلئے نواب آف بہاولپور نے ریاست کے اہم ضلع بہاولنگر کو رہن رکھ کر بینک کے معرفت انگریز سرکار سے قرض حاصل کیا ۔ ہاکڑہ خشک ہوا ،اس کی کمی کسی حد تک ستلج نے پوری کی اب ستلج بند ہوا ہے تو اس کی کمی کون پوری کرے گا؟ہزاروں مسائل اور ہزاروں دکھ ہیں ، کس کس کا ذکر کیا جائے۔ نواب آف بہاولپور نے بہاولپور اور اس کے ملحقہ علاقے فیروز پور کو سیراب کرنے کیلئے ستلج ویلی پروجیکٹ بنایا اور20کروڑ روپے برٹش انڈیا گورنمنٹ کو مہیا کئے، ستلج ویلی پروجیکٹ سے بہت سے نہریں نکالی گئیں مگر سندھ طاس معاہدے سے یہ پروجیکٹ بہت متاثر ہوا ہے ۔ غالباً 1985-86ء میں ضلع بہاولنگر کے پانی کے حصے پر اُس وقت کے وزیراعلیٰ میاں منظور وٹو نے شب خون مارا اور بہاولنگر کے حصے کا پانی اوکاڑہ کو دے دیا جو آج تک واپس نہیں ہوا اور روہی کے لوگ پیاسے رہے۔ عالمی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان سمیت دنیا میں ایسے تقریباً 400 علاقے ہیں جہاں کے رہنے والے شدید آبی مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی آبادی، گوشت خوری میں اضافہ اور بڑھتی ہوئی اقتصادی سرگرمیوں نے دنیا کے پانی کے ذخائر پر دبائو بڑھا دیا ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پانی کی کمی لاکھوں لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کر دے گی اور اس کی وجہ سے کشیدگی اور سیاسی عدم استحکام پیدا ہو گا۔ چلی سے لے کر میکسیکو تک، افریقہ سے لے کر جنوبی یورپ کے سیاحتی مقامات تک آبی مسائل میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ آبی مسائل سے درپیش علاقوں یعنی’’واٹر سٹریسڈ‘‘علاقوں کا تعین اس معیار پر کیا جاتا ہے کہ وہاں موجود پانی کے وسائل کے مقابلے میں وہاں زیرِ زمین ذخائر اور دیگر سطحی ذخائر سے کتنا پانی استعمال کیا جا رہا ہے۔آخر میں یہ عرض کروں گا کہ حکمرانوں کو پانی کی کمی کے مسئلے کا ادراک کرنا چاہئے ، اس مسئلے پر ایک کمیشن بنانا چاہئے، پانی کی کمی کا مسئلہ قومی مسئلہ ہونے کے ساتھ ساتھ عالمی مسئلہ بھی ہے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: