خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ جنرل باجوہ نے عمران خان کو گھر بھیجنے کے لیے ڈنڈا گھمایا یا ڈنڈا ایک سائیڈ پر رکھ کر ٹانگیں میز پر پھیلائیں، انگڑائی لی اور کہا میں ذرا تھک گیا ہوں اب تم لوگ آپس میں ہی نمٹ لو۔
محمد حنیف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بزرگوں نے سمجھایا تھا کہ بڑے لوگوں کو کبھی مشورہ نہ دینا، بغیر مانگے تو بالکل نہ دینا اور اگر کبھی مانگیں بھی تو مومنوں کی طرح تکا لگانا کہ وہ خود کیا چاہتے ہیں پھر ان کے دل کی خواہش کو گول مول کر کے اسے مشورے کی شکل دینا۔ انھیں ایسا لگے کہ بس ان کے دل کی بات آپ نے کر دی ہے۔
باجوہ برادری سے میری بچپن کی دوستیاں ہیں، ان کے ساتھ رہ کر بھی یہی سیکھا ہے کہ باجوہ چھوٹا ہو یا بڑا اسے مشورہ نہیں دینا چاہیے کیونکہ جو آپ مشورہ دیں گے وہ اس کا بالکل الٹ کرے گا۔
بزرگوں کی تعلیم اور اپنے ذاتی تجربے کے باوجود کوئی تین سال پہلے جنرل باجوہ کو مشورہ دے ڈالا۔
ان کی ایکسٹینشن ابھی اسلام آباد کی پارٹیوں میں افواہ سی تھی، بیچ منجھدار کے گھوڑے نہیں بدلا کرتے والے فلسفے ابھی بازار میں نہیں آئے تھے۔ میں نے فوج کی عقیدت اور جنرل باجوہ کی محبت میں مغلوب ہو کر ان ہی صفحات میں مشورہ دے ڈالا کہ جنرل باجوہ ایکسٹینشن نہ لیں، اپنا سپہ سالار والا ڈنڈا اپنے جانشین کے حوالے کریں، پھر اس اطمینان کے ساتھ گالف کھیلیں کہ یہ ڈنڈا ان کے بغیر بھی پوری آب و تاب کے ساتھ چلتا رہے گا۔
جنرل باجوہ نے اپنا ڈنڈا ابھی گھمایا بھی نہیں تھا کہ پارلیمنٹ میں ساری پارٹیوں نے یکجا ہو کر، ان کی ایکسٹینشن کی منظوری دے دی۔ ابھی تک بحث اتنی باقی ہے کہ یہ منظوری تیرہ منٹ میں دی گئی یا سترہ منٹ میں۔
جو سپہ سالار اپنے آپ کو خود ایکسٹینشن دیتے ہیں وہ امر ہو جاتے ہیں (ایوب، ضیا، مشرف نے کسی سے ایکسٹینشن مانگی؟) جو سیاسی حکمرانوں سے ایکسٹینشن لیتے ہیں (چاہے وہ ڈنڈے کے زور پر ہی لیں) ان کے ساتھ بےعزتی پروگرام شروع ہوا چاہتا ہے، والا ماحول بن جاتا ہے۔
باجوہ صاحب کی ایکسٹینشن کا زمانہ ففتھ جنریشن وار فیئر کے عروج کا زمانہ تھا۔ فوج کے بالغوں نے نوجوانوں کی ایک فوج اصلی فوج کے باہر بھرتی کرائی تھی جو ہر مخالف رائے رکھنے والے کو غدار، لفافے، پالتو جانور سے تشبیہ دے کر بات شروع کرتی تھی اور ماں بہن کی گالی پر ختم کرتے تھے۔
یہ بھی پڑھیے
”کوئی خواب میکوں اُدھارا نہ ݙیویں“ (وسیب یاترا :12)||سعید خاور
”بدن دی بھوئیں تے مُونجھ دا متام“ (وسیب یاترا :11)||سعید خاور
””سندھو سکرات وِچ اے“ (وسیب یاترا :10)||سعید خاور