مارچ 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ایک ملتان یاترا کی کہانی||حیدر جاوید سید

سید محمد قسور گردیزی ملتان سے اٹھے اور جگ جہان میں مشہور ہوئے اس خطے سے ان سمیت بہت سارے ثابت قدم سیاسی رہنما اور کارکنوں نے اپنا آپ منوایا۔ سیدی مگر ان سب کے سالار اعلیٰ تھے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

برادر عزیز مبشر علی فاروق ایڈووکیٹ کا شکریہ کہ امڑی کے شہر میں مقیم مسافر بیٹے کو جنم شہر کی سڑکوں پر لئے پھرے اس زحمت میں جو انہوں نے اپنے ملتانی بھائی کے لئے اٹھائی زبیر فاروق بھی ہمراہ تھے۔
ملتان کینٹ جو اب کینٹ کم اور جنرل بس سٹینڈ کا منظر زیادہ بہتر انداز میں پیش کرتا ہے گئے۔ پھر بہاولپور روڈ سے ہوتے ہوئے واپسی کے لئے پلٹے۔
بہاولپور روڈ کبھی اس خطے بلکہ متحدہ پاکستان کے سربلند ترقی پسند سیاستدان سید محمد قسور گردیزی مرحوم کی اقامت گاہ کے حوالے سے شہرت رکھتا تھا۔ ہمارے لئے تو اب بھی ویسا ہی ہے
لیکن ترقی کا عمل سڑک کے دونوں اطراف کی قدیم اقامت گاہوں کو نگل گیا ان کی جگہ جدید عمارتیں ہیں۔ کچھ شوروم وغیرہ اور چند دیگر کاروباری ادارے، ایک آدھ ہسپتال بھی۔
سید محمد قسور گردیزی ملتان سے اٹھے اور جگ جہان میں مشہور ہوئے اس خطے سے ان سمیت بہت سارے ثابت قدم سیاسی رہنما اور کارکنوں نے اپنا آپ منوایا۔ سیدی مگر ان سب کے سالار اعلیٰ تھے۔
نیپ (نیشنل عوامی پارٹی) کے سیکرٹری جنرل رہے۔ ایوبی آمریت سے ٹکرائے۔ پھر جنرل یحییٰ کی آمریت سے بھی۔ حیدر آباد سازش کیس میں ملزم بنائے گئے۔
ان کے بھانجے اور داماد مرحوم و مغفور سید حیدر عباس گردیزی ہمارے فکری رہنما اور استاد تھے کیا شاندار انسان تھے۔ وسیع المطالعہ، مکالمے کے رسیا، دلیل سے بات کرنے کا ہنر کمال تھا۔
سیدی قسور گردیزی کی لائبری اپنے وقت میں سیاسی کارکنوں میں بہت مشہور تھی۔ پڑھنے کے شوقین سیاسی کارکنوں نے بڑا فیض پایا اس لائبریری سے۔
حیدر آباد سازش کیس ختم ہوا جیل کے اندر پیدا ہونے والے اختلافات کی وجہ سے نیپ کے قائدین دو حصوں میں تقسیم ہوئے۔ خان عبدالولی خان کی قیادت میں ایک حصہ نیپ پر پابندی کے بعد سردار شیر باز خان مزاری کی سربراہی میں بننے والی نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی میں چلا گیا۔
ایک حصہ نے میر غوث بخش بزنجو کی قیادت میں پاکستان نیشنل پارٹی قائم کرلی۔
بہاولپور روڈ سے واپسی پر پھر ابدالی روڈ کی طرف آئے۔ یہ سڑک افغان حملہ آور احمد شاہ ابدالی سے منسوب ہے۔ اس سڑک پر متعدد بینکوں کے علاقائی دفاتر ہیں ان میں سے ایک بینک کی ورکرز یونین کے دفتر میں کامریڈ دلاور عباس صدیقی سدابہار مسکراہٹ کے ساتھ جلوہ افروز ہوتے ہیں۔
نظریہ پاکستان کے پہلے مجاور میڈیا ہائوس کا دفتر اور امراض قلب کا معروف ہسپتال اسی سڑک پر ہے۔ ایک میخانہ بھی ہے جو لائسنس رکھنے والوں کو ’’سامان‘‘ فراہم کرتا ہے۔
ملتان پریس کلب بھی عشروں سے اسی سڑک پر ہے۔ پریس کلب کے پاس سے گزرے تو مرحوم ولی محمد واجد سمیت انگنت دوست یاد آئے مرحومین کی حق تعالیٰ مغفرت فرمائے۔
دو دن ادھر ان سطور میں عرض کیا تھا کہ پچھلے عشرے کے چند برس ایک آدھ دن کے وقفے کے ساتھ پریس کلب کے صحن میں روزانہ ڈیرے ڈالے جاتے تھے۔
ان برسوں میں اہل قلم بھی یہاں آتے اور رونق لگاتے تھے اب ان کے لئے برادر عزیز شاکر حسین شاکر، رضی الدین رضی اور چند دیگر دوستوں کی کوششوں سے ملتان آرٹس کونسل سے چند قدم آگے ملتان ٹی ہائوس کی عمارت آباد ہے۔
نواں شہر چوک کے ایک کونے پر گلستان فرح پہلوی ہے اور دوسرے کونے پر معروف ہوٹل کبھی یہ ہوٹل شاعروں، ادیبوں کا ٹھکانہ ہوا کرتا تھا پھر انتظامیہ نے چائے بند کردی۔ اب فقط طعام ملتا ہے
اپنے ذائقوں کی بدولت یہ ہوٹل آج بھی معروف ہے۔ آگے چلے تو آقائے سید امداد شیرازیؒ کے مدرسہ سے قبل نگاہوں نے ابدالی موٹرز اور پمپ والی جگہ تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن اب اس جگہ نئی تعمیرات ہوچکیں۔ آقائے شیرازیؒ کا مدرسہ کبھی اس خطے میں مکتب امامیہ کی معروف درسگاہ تھی۔
اس کے بالمقابل معروف درسگاہ پائلٹ سیکنڈری سکول ہے۔ آگے بڑھتے گئے چوک فوارہ کے الٹے ہاتھ پر قدیر آباد جانے والی سڑک پر اب سوہن حلوے کی درجنوں دکانیں ہیں اور چند دیگر۔
گھنٹہ گھر چوک کی صورت کب کی تبدیل ہوچکی۔ خان بک سٹال بھی ختم ہوا۔ کیفے شاہد اور دوسری عمارات تاریخ کا حصہ ہوئیں۔
چوک کی کشادگی نگل گئی ان عمارتوں کو۔ جب یہ ہوتی تھیں تو کیفے شاہد میں شام کی نشست سجانے والوں میں معروف ماہر تعلیم مہر گل محمد اپنے احباب کے ساتھ رونق فرماتے۔
مہر صاحب اپنی وضع کی آخری نشانی تھے۔
گھنٹہ گھر چوک سے قلعہ کہنہ قاسم باغ کی طرف چلے۔ یہ مقام بھی اموی دور کے ایک حملہ آور محمد بن قاسم سے منسوب کردیا گیا تھا۔ اس قلعہ پر کبھی کیفے عرفات ہوتا تھا۔ سپہر کے بعد سے مختلف الخیال طبقات سے تعلق رکھنے والوں کی محفلیں آباد ہونا شروع ہوجاتیں جو رات گئے تک جاری رہتیں۔ ملتان آمدورفت اور قیام کے دنوں میں دوستوں کے ہمراہ ہم نے بھی درجنوں بار یہاں پڑائو ڈالا اس کے قریب ہی عبائب گھر اور دمدمہ سے ملحقہ پلاٹ میں عموماً سیاسی جلسے منعقد ہوا کرتے تھے۔
قلعہ کہنہ قاسم باغ پر حضرت غوث بہاء الحق، (بہاء الدین زکریا ملتانیؒ) اور حضرت شاہ رکن عالمؒ کے مزارات ہیں۔ دو مزار اور بھی ہیں ایک قومی اتحاد کی تحریک سے معروف ہونے والے حضرت مولانا حامد علی خان مرحوم کا اور دوسرے مزار کا تعلق گیلانی خاندان سے ہے۔
صاحب مزار کے غالباً چچا جان چوک خونی برج پر واقعہ گھڑی والی مسجد میں خطیب ہوا کرتے تھے۔ ہمارے بچپن میں یہ گیلانی سید صاحب بڑے خطیب تھے حق تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔
لیجیئے کبوتر منڈی سے قبل ہم نے اپنے یارغار مرحوم سعدی خان کی مادر علمی علمدار حسین اسلامیہ کالج کی زیارت کی۔ سعدی خان اس کالج کی طلباء یونین کے صدر بھی رہے تھے۔ وقت زیادہ ہوگیا تھا ورنہ پروفیسر علی سخنور کی زیارت ضرور کرتے۔
پھر اس مقام تک پہنچ گئے اصل میں جہاں جانے کے ارادے سے اپنے ٹھکانے سے دوستوں کے ہمراہ چلے تھے،بلند گیٹ کے اندر گیٹ کی درزوں سے ویران صحن جس میں کچھ ملبہ پڑا بھی دیکھائی دیا یہی جگہ ہماری ملتان یاترا کی منزل تھی۔
یہ پرہلاد کا دانش کدہ تھا۔ اس کے پہلو میں جناب زکریا ملتانیؒ کی دائمی آرام گاہ ہے۔ سڑک کے دوسری طرف کھڑے مسافر کو جناب زکریا ملتانیؒ کی خانقاہ کا گنبد دیکھائی دیا تو بے اختیار شکوہ زباں پر آگیا۔
عرض کیا حضرت دیکھ لیجئے آپ کے پڑوسی کے ساتھ لوگوں نے کیا کیا۔ عین ان سموں مجھے عشرہ بھر قبل کا اپنا ہی ایک کالم یاد آگیا۔
جس میں حوالے کے ساتھ عرض کیا تھا کہ جناب زکریا ملتانیؒ کی خدمت میں خلفا نے عرض کیا خانقاہ کی جگہ اب مہمانوں کے لئے کم پڑتی ہے حکم ہو تو پرہلاد مندر کی عمارت گراکر احاطہ میں شامل کرلیا جائے۔ انہوں نے فرمایا تاریخ کی نشانیوں کا احترام کیا کرتے ہیں یہ عمارت تاریخ ہے۔
ہائے وہ تاریخ اب نہیں رہی۔ جب سر ہی کاٹ دیا جائے تو دھڑ (جسم) کس کام کا۔ پرہلاد مندر یا دانش کدہ پرہلاد جو جی میں آئے کہہ لیجئے۔ یہ عمارت بہرحال معلوم تاریخ کی قدیم ترین عمارت تھی اس خطے میں ۔
اس کی تباہی کی تفصیل پچھلے ایک کالم میں عرض کرچکا، دہرانے کی ضرورت نہیں۔ ایک طالب علم کے طور پر یہ بات بہرطور بہت پہلے سمجھ لی تھی کہ جو لوگ تاریخ کو مذہب اور عقیدے کی عینک سے دیکھیں اور تاریخی عمارات کو گراکر تسکین پائیں وہ بعد کی تاریخ کا حصہ بننے کی بجائے تاریخ کے کوڑے دان کا رزق بنتے ہیں۔
بٹوارے کے بعد دونوں ملکوں بھارت اور پاکستان میں تاریخ سے بلاتکار کا رواج عام ہوا ستم یہ ہے کہ دونوں طرف انتہا پسندوں کے عمل کے حق میں بات کرنے والے زیادہ ہیں اور تاریخ سے قلبی و فکری لگائو رکھنے والے کم۔
اپنے دوستوں کے ساتھ نصف گھنٹے سے زائد تباہ شدہ دانش کدہ پرہلاد کے باہر سڑک پر کھڑے تاریخ کے اوراق الٹے۔ اوراق الٹتے ہوئے آنکھیں نم ہوئیں سوچا کاش عمارت اپنی جگہ موجود ہوتی۔ یہ عمارت ملتان کا قدیم ترین تعارف تھا۔
پانچ سے سات ہزار سال کی تاریخ کا۔ دیومالائی داستانوں اور اس کی کوکھ سے تخلیق کی گئی تاریخ کا معاملہ الگ ہے۔ تباہ حال دانش کدہ پرہلاد کے باہر تاریخ سے تعزیت تمام ہوئی۔
دوستوں کا یہ قافلہ ہمارے لائق احترام دوست اور دوہمرائیوں کے استاد مکرم پروفیسر تنویر خان کی اقامت گاہ کی طرف عازم سفر ہوا۔ اس بار ہم نے ننھیالی محلہ کی زیارت بھی کی۔ کبھی یہ محلہ ” ڈبکراں دی وستی ” کہلاتا تھا پھر اسے مسلمان کرکے ہمایوں محلہ کا نام دے دیا گیا۔
پروفیسر تنویر خان کی اقامت گاہ پر اڑھائی تین گھنٹے تک خوب محفل جمی۔ تاریخ، تصوف، سیاست عصر کے ساتھ تاریخ میں ہوئی دراندازیوں پر خوب بات ہوئی۔ یہ تھی مختصر ملتان یاترا کی کہانی۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: