اپریل 17, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ساری کے نام ۔۔۔||عامر حسینی

میں اب پہلے جیسا ہوسکتا نہیں - اپنے ضمیر کی چیخ اور دبا سکتا نہیں - صاف جو دکھتا ہے اس سے نظریں پھیر سکتا نہیں - ایک حقیقت سے دوچار ہوگیا ہوں - مجھے کوئی محرم راز نہیں مل رہا جس سے مل کر میں وہ سب کہہ سکوں جو کہنا چاہتا ہوں - ایک پھانس ہے جو سینے میں اٹک سی گئی ہے۔ کیسے اسے نکالوں؟

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پیاری ساری،
مجھے تم سے ایک راز شئیر کرنا ہے جو نہ کرسکا تو میرا سینہ پھٹ جائے گا-اور کسی اور سے شئیر کیا تو جینے کے حق سے محروم ہونے کا خدشہ ہے۔ اس خط میں بھی سب سب صاف لکھ نہیں سکتا کیونکہ میرے خط آج کل سرکار کھول کر پڑتی ہے اور سرکار کا ہرکارہ جو انہيں پڑھتا ہے ہوسکتا ہے اسے تاریخ کا سیدھے سبھاؤ بیان پسند نہ آئے اور وہ مجھے مصلوب کرنے کی قسم کھالے۔تو میں بس ان اشاروں و کنایوں میں بات لکھوں گا جسے تم آسانی سے سمجھ ججاؤ گی-
ہوا کچھ یوں کہ تاریخ کی کتابوں میں اولین معاشرت ڈھونڈتے ڈھونڈتے میں ،میں ایک ایسے شہر پہنچا کہ وہاں یوں تو زندگی اپنے معمول پر تھی ، لوگ سب اپنے کاموں میں مصروف دکھائی دیتے تھے- لیکن فضا نجانے مجھے کیوں مسموم سی لگتی تھی – کچھ تو گڑبڑ ہے، کچھ تو غلط ہوا ہے اس شہر میں – اس شہر کے لوگوں ایک دوسرے سے آنکھیں کیوں چراتے تھے؟ اتہاس کے پنّوں پر لکھے شبد ہیں ایسے ہیں جن پر نظر پڑتے ہی آنکھیں جلنے لگتی ہیں اور سینے میں دل کی دھڑکن اتنی تیز ہوجاتی ہے جیسے وہ سینہ پھاڑ کر اب باہر آیا کہ تب ۔۔۔۔۔ شبد کہتے ہیں کہ اس شہر میں رہنے والی ایک ہستی کے گریہ نے سب کا چین تہہ و بالا کر رکھا ہے- شبدوں سے ایک منظر تخلیق ہوتا ہے ،وہ ہستی ظاہر ہوتی اس منظر میں
ہجر کی آگ میں جلنے والی کے ہوکے سننے سے خود کو کیسے روکوں؟ وہ گھر پہ گریہ کرتی ہے، اپنے مرکز و محور کی قبر پر جاکر دکھڑے سناتی ہے ، لوگوں کی رات نیند کیسے خراب ہوجاتی ہے؟ اس کا گریہ کیا لوگوں کو کسی "جرم” کی یاد دلاتا ہے؟ کیا کیا ہے لوگوں نے جو اس کے رونے سے یاد آتا ہے؟ کیوں وہ شہر کے قبرستان میں خیمہ لگا کر راتوں کو اشک بہاتی ہے؟ اس سے کیا چھن گیا ہے؟ وہ سب سے کلام کرنا ترک کرگئی تو اس سے سارے شہر میں بے چینی پھیلی کیسی ہے؟ وہ تو کسی کو نہ کچھ کہتی ہے؟ کسی سے مدد کی طالب ہے- وہ کیا کسی سے کچھ طلب کرتی ہے؟ نہیں تو بس روتی چلی جاتی ہے، بچھڑنے والے کے ہجر میں دن ہو کہ رات ہو روتی رہتی ہے- اسے شدت سے ہے انتظار کہ وہ کب اس جہان کو چھوڑے گی اور جانے والے سے ملحق ہوجائے گی- یہ بھی بھلا کوئی ایسی بات ہے جس پر اس شہر کے لوگوں کی پیشانی پر عرق ندامت صاف دیکھے جائیں – مجھے کچھ سمجھ نہیں آتا – شہر کے لوگوں سے پوچھتا ہوں تو کوئی بتانے والا نہیں ملتا- بڑی سمجھ بوچھ والے بھی کچھ بتا نہیں پاتے ، بس جب ان سے پوچھتا ہوں تو لگتا ہے گھبراجاتے ہیں ، جیسے کچھ ہے جسے وہ بھول جانا چاہتے ہیں لیکن بھلا نہیں پاتے اور اندر ہی اندر احساس جرم میں گھلتے جاتے ہیں- میں تاریخ کے شبدوں کے سہارے اس شہر کے محلوں میں گھس جاتا ہوں اور محلوں کی گلیوں میں ہر آنے جانے والے سے پوچھنے لگتا ہوں مگر میرا سوال مکمل بھی نہیں ہوپاتا لوگ دامن چھڑا کر بھاگ لیتے ہیں – میرا تجسس بڑھتا جاتا ہے اور پھر مجھے ایک شخص ملتا ہے جو اس ہستی کے گھر آتا جاتا دکھائی دیتا ہے- میں اس کا تعاقب کرتا ہوں – وہ میرے تعاقب کرنے پر چونکتا بھی نہیں- اور نہ مجھے ایسا کرنے سے منع کرتا ہے۔ یونہی کچھ ہفتے گزرجاتے ہیں اور پھر ایک دن وہ شخص رکتا ہے ، بنا کچھ کہے میرا ہاتھ پکڑتا ہے اور مجھے اس شہر کے ایک مقام سے دوسرے مقام پر لیجاتا رہتا ہے۔ ہر مقام پر الگ اۂک منظر دکھائی دیتا ہے، اتہاس کے پنّے جیسے تھیڑ بن گئے ہوں، مربوط کھیل سامنے رچایا جاتا دکھائی دیتا ہے- اس گریہ کرنے والی ہستی کا کردار بھی واضح ہونے لگتا ہے۔ اس کا گریہ اب میرے لیے بھی "مبہم” نہیں رہا تھا۔ سارے مقام مجھے دکھانے کے بعد اس شخص نے مجھے یہ کہہ کر رخصت کیا ‘یہاں لوگوں کے ضمیر بدل گئے ہیں اور چند ہیں جنھوں نے ضمیر بدلنے سے انکار کیا تو "گریہ ” ان کا مقدر بن گیا ہے’
اور میں بھی اب پہلے جیسا نہیں رہا تھا- اور اتنا کچھ جاننے کے بعد کوئی نہ جاننے سے پہلے والا کیسے ہوسکتا تھا-
میں اب پہلے جیسا ہوسکتا نہیں – اپنے ضمیر کی چیخ اور دبا سکتا نہیں – صاف جو دکھتا ہے اس سے نظریں پھیر سکتا نہیں – ایک حقیقت سے دوچار ہوگیا ہوں – مجھے کوئی محرم راز نہیں مل رہا جس سے مل کر میں وہ سب کہہ سکوں جو کہنا چاہتا ہوں – ایک پھانس ہے جو سینے میں اٹک سی گئی ہے۔ کیسے اسے نکالوں؟ یہ اتہاس کے پنّے وہی ہیں جنھیں تم مجھے پڑھنے کو دے کر گئی تھیں اور میں ان کا ظاہر پڑھا کرتا تھا مگر پھر یوں ہوا کہ اک دن اس ظاہر کا باطن عیاں ہوگیا جس نے میری دانش کی تیسری آنکھ کھول دی- اس آنکھ کے کھل جانے نے مجھے اس شہر پہنچادیا جس کی سیر کا احوال تمہیں لکھ بھیجا ہے۔ نجانے مجھے کیوں لگتا ہے کہ تمہاری دانش کی تیسری آنکھ نے ان اتہاس کے پنّوں کے ظاہر کے پیچھے جھانک کر کب کا وہ سب کچھ دیکھ لیا تھا جو مجھے اب دکھائی دیا ہے۔ کیا میں ٹھیک نہیں کہہ رہا؟ مجھے جلد اپنے جواب سے سرفراز کرنا-
فقط تمہارا
ع-ح

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

%d bloggers like this: