مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں کئی سال سے پاکستان میں جانوروں کی قربانی کے خلاف لکھ رہا ہوں اور ہر بار بعض لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے۔
میرے نام میں زیدی آتا ہے اس لیے بہت سے اہلسنت دوست، اور دشمن بھی محرم میں اخراجات پر سوال اٹھاتے ہیں۔
ملحد ہونے کا الزام تو سر پر ہے ہی۔ اس کا بوجھ بھی خواہ مخواہ اٹھانا پڑتا ہے۔
محرم کا معاملہ یہ ہے کہ میں کافی عرصہ قبل جلوسوں کا سلسلہ روک دینے کی گزارش کرچکا ہوں۔ ہر شہر میں دسیوں بیسیوں جلوس نکالنے کی کیا ضرورت ہے؟ زیادہ سے زیادہ ہر صوبائی صدر مقام میں ایک جلوس نکال لیں۔
کہیں پڑھا تھا کہ امام حسین کی شہادت سے پہلے احتجاجی جلوس نہیں ہوتے تھے۔ یہ روایت غم حسین منانے والوں نے شروع کی۔ اس دور میں میڈیا نہیں تھا۔ جلوس ہی میڈیم تھا، یعنی انجان لوگوں کو یہ بتانے کا ذریعہ کہ امام حسین اور ان کے خانوادے پر ظلم کیا گیا ہے۔
اب کتابیں چھپتی ہیں، اخبار ریڈیو ٹی وی چینل ہیں، انٹرنیٹ ہے۔ اس دور میں اپنی بات پہنچانے کے بہت سے موثر وسائل موجود ہیں۔ جلوس بطور میڈیم اوبسلیٹ ہوچکا ہے۔
اسی طرح کی بات پیارے بھائی طاہر چوہدری ایڈووکیٹ نے خود لکھی ہے یا کسی کا نکتہ شئیر کیا ہے کہ آج کے دور میں بچوں کو قرآن حفظ کروانے کی ضرورت نہیں۔ حفظ کی ضرورت تب تھی جب نشر و اشاعت کے وسائل کم تھے۔ اب قرآن، اور ہر زبان میں اس کے تراجم چھپ رہے ہیں اور انٹرنیٹ پر باآسانی ہر ایک کی دسترس میں ہیں۔ آڈیو ویڈیو قرات بھی یوٹیوب پر دستیاب ہے۔
مجلسیں اور وعظ جاری رکھیں۔ عید، شب برات اور محرم کی ثقافت ہماری تہذیب ہے۔ اسے کون روکنے کو کہہ رہا ہے۔ مطلب تہوار منانا الگ بات ہے، بے وجہ کے کام نہ کریں۔
محرم، عید میلاد اور مذہبی تنظیموں کے دوسرے جلوسوں سے ٹریفک کا مسئلہ بھی بنتا ہے اور سیکورٹی مسائل بھی ہوتے ہیں۔ ان میں اربوں روپے پھونک دیے جاتے ہیں۔ کیا قوم کے پاس اتنا فالتو پیسہ ہے؟
ایک صاحب نے اعتراض کیا ہے کہ قربانی کا جانور خریدنے پر ٹیکس کی بات کی ہے تو محرم میں گھوڑا نکالنے پر بھی ٹیکس لگوائیں۔ گھوڑا نکالنے پر نہیں، خریدنے پر ٹیکس کی بات کی جاسکتی ہے۔ لیکن ایک طرف لاکھوں جانور ہیں اور دوسری جانب پورے ملک میں ہر سال محرم کے لیے چند گھوڑے خریدے جاتے ہوں گے۔ لگادیں اس پر بھی سو فیصد ٹیکس۔
میں نے عاشورہ محرم پر پوری کربلا میں صرف ایک ذوالجناح دیکھا تھا۔ ایران کے جلوسوں میں کہیں نہیں دیکھا۔ یہاں امریکا میں بھی عام طور پر نہیں ہوتا۔ ذاتی زندگی ہی میں نہیں، مذہبی معاملات میں بھی نمودونمائش ہندوستانیوں پاکستانیوں پر ختم ہے۔
حکومت کو قربانی کے جانوروں پر سو فیصد ٹیکس لگادینا چاہیے۔ کم از کم سو فیصد۔ معیشت ڈوب رہی ہے۔ جس نے نمودونمائش کرنی ہے، وہ اس کا تاوان ادا کرے۔
جس گھر میں ایک سے زیادہ جانور نظر آئیں، اس سے اضافی ٹیکس لیا جانا چاہیے۔
جانور کم فروخت ہوں گے۔ حکومت کو چاہیے کہ جانور اور گوشت برآمد کرنے میں مدد دے اور بین الاقوامی منڈی میں گاہک تلاش کرے۔ آسٹریلیا، برازیل اور بھارت اس سے بہت مال بناتے ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر