مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیکھیں یار، ابھی میں زندہ ہوں، پھر بھی لوگ پتا نہیں کیا کیا کہتے رہتے ہیں۔ کوئی لفافہ صحافی کہتا ہے، کوئی غدار، کوئی کافر۔ متعصب سنی یہ کہہ کر دل خوش کرتے ہیں کہ میں شیعہ ملحد ہوں۔ شیعوں کو میری عقلیت پسندی والی باتیں پسند نہیں آتیں۔ ملحدین اس بات پر خفا ہوتے ہیں کہ میں محرم میں حسین حسین کیوں کرتا ہوں، اور اس لیے جعلی فری تھنکر ہوں۔ کوئی مکمل یقین ظاہر کرتا ہے کہ میں ملک سے فرار ہوا۔ کسی کا خیال ہے کہ میں نے امریکا میں اسائلم لیا ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ میں کسی کے اشارے پر الٹا سیدھا لکھتا ہوں۔ کچھ لوگوں کو ملحد یا شیعہ کہنے سے سکون نہیں ملتا تو قادیانی قرار دے دیتے ہیں۔ پاگل خان پر تنقید کرنے کی وجہ سے پٹواری کا خطاب بھی ملا ہے۔
یہ لوگ میرے مرنے کے بعد کیا کیا کہیں گے، مجھے اچھی طرح اندازہ ہے۔ میں اسی لیے زیادہ دیر تک جینا چاہتا ہوں۔ زندہ رہ کر سینے پر مونگ دلنے میں جو مزہ ہے، وہ خاموشی سے مرجانے میں کہاں۔
عشروں پہلے لکھنا شروع کیا تھا۔ صحافت کے پہلے دن بات سمجھ میں آگئی تھی کہ سچ بولنا اور لکھنا ہے تو غصہ اور ناراضی سہنا پڑے گی۔ میرے قریبی رشتے دار مجھ سے خوش نہیں۔ کئی قریبی دوستوں کو شکایات ہیں۔ جن اداروں میں کام کرچکا ہوں، ان کے بہت سے سابق ساتھی خفا ہیں۔
بے لاگ سچ کی ایک قیمت ہوتی ہے جو سننے والا بھی بھگتتا ہے اور کہنے والا بھی ادا کرتا ہے۔
سچ اور جھوٹ کے درمیان ایک برزخ بھی ہے جس کا نام یاروں نے مصلحت رکھا ہے۔ اکثر لوگ مصلحت اور جھوٹ کے خانوں میں اشٹاپو کھیلتے رہتے ہیں۔
میری تربیت شیعہ خاندان میں ہوئی ہے۔ یہاں ہوش سنبھالتے ہی پہلا نعرہ یاحسین سننے کو ملتا ہے۔ یاحسین کا دوسرا مطلب ہے، لعنت بر یزید۔ زندگی بھر کا سبق ملتا ہے کہ اچھے کو اچھا کہنا کافی نہیں، برے کو برا بھی کہنا ہے۔ بیشتر شیعہ مجلس اور جلوس میں یزیدیت مردہ باد کہہ کر مطمئن ہوجاتے ہیں۔ میں حسینیت زندہ باد کی طرح یزیدیت مردہ باد بھی ساتھ لے کر پھرتا ہوں۔
میں نہیں مانتا کہ کوئی شخص مر گیا تو صرف اس کی اچھائی بیان کرنی ہے اور اس کی غلطیوں، خامیوں اور برائیوں کو بیان نہیں کرنا۔ کیوں نہیں؟ کسی سے مرنے سے سچ نہیں مر جاتا۔ سچ بولنا چاہیے تاکہ برے آدمی کی پیروی کرنے والے برے کاموں سے باز آئیں۔
پہلے ڈکٹیٹر کو سزا مل جاتی تو دوسرا تیسرا مارشل لا نہ آتا۔ جھوٹا الزام لگانے والے پہلے آدمی کو سزا دی جاتی تو جھوٹے الزام لگانے والے پہلے سو بار سوچتے۔ مذہب اور حب الوطنی کا جھوٹا چورن بیچنے والے پہلے شخص کی گردن ناپ لی جاتی تو یہ سودا مزید بکنے سے رک جاتا۔
کمزور دل لوگ کہتے ہیں، مرنے والے کی برائی نہ کرو۔ اچھا! ابولہب بھی مرچکا ہے، قرآن کی سورت پڑھنا چھوڑ دیں۔ منافق عبداللہ ابن ابی کے مرنے پر رسول نے مغفرت کی دعا کی بلکہ اپنی چادر بھی جنازے پر ڈالی۔ خدا نے رسول کی دعا قبول نہیں کی۔ آیت آئی کہ آپ ستر بار بھی دعا کریں گے تو قبول نہیں ہوگی۔
اہلسنت عبداللہ ابن ابی کے لیے دعا کریں۔ نہیں تو غلام احمد قادیانی ہی کے لیے کرلیں۔ اہل تشیع یزید کے لیے دعا کریں۔ نہیں تو اعظم طارق ہی کے لیے کرلیں۔ جیالے ضیا الحق کے لیے دعا کریں۔ نہیں تو مولوی مشتاق ہی کے لیے کرلیں۔ اس کے بعد مجھے عامر لیاقت یا کسی بھی مرنے والے کے لیے دعا کرنے کو کہیں۔
اگر آپ سچ نہیں بول سکتے تو کم از کم سن ہی لیا کریں۔سن نہیں سکتے تو کان بند کرلیا کریں۔ اگر یہ بھی ممکن نہیں تو بے شک مجھے برا بھلا کہہ لیں۔ الفاظ کم پڑجائیں تو اس تحریر کے پہلے پیراگراف سے لے لیں۔
سوچ رہا ہوں کہ نیوز اینکروں کے خاکوں کی کتاب لکھوں۔
جیونیوز میں 14 سال تک 30 سے زیادہ اینکروں سے خبریں پڑھوائی تھیں۔ دوسرے چینلوں کے اینکروں سے بھی دوستیاں اور لڑائیاں رہیں۔
اردو کا ایک بہت بڑا اخبار تھا، حریت۔ اسے فخر ماتری نے شروع کیا اور عروج پر پہنچایا۔ میں نے سنا ہے کہ جنگ کو ستر پچھتر سال میں جن دو اخبارات نے سب سے زیادہ پریشان کیا، ان میں ایک انجام تھا اور دوسرا حریت۔
حریت کا آغاز کیسے ہوا، کون کون سے بڑے صحافی اور ادیب وہاں رہے، اخبار کیسے کامیاب ہوا، پھر کیسے زوال آیا، ہمیں کبھی معلوم نہ ہوتا، اگر رضا علی عابدی اپنی کتاب اخبار کی راتیں میں یہ سب نہ لکھتے۔ اتنے بڑے ادارے میں اگر وہ ایک نہ ہوتے تو سب اندھیرے میں گم ہوجاتا۔
میں اکثر سوچتا ہوں کہ جیونیوز کے آغاز اور دبئی اسٹیشن کے دنوں کی کہانی کوئی لکھے گا یا نہیں۔ بہتر ہوتا کہ انتظامیہ خود یہ کام کرتی اور اس بارے میں تصویری کتاب شائع کی جاتی۔ لیکن شاید کسی کو دلچسپی نہیں۔
میرا اب اس ادارے سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ سو لفظ تک چھاپنے کو روادار نہیں۔ کیا مجھے لکھنا چاہیے؟
اپنی یادداشتیں تو لکھ ہی سکتا ہوں۔ کافی کچھ دیکھا ہے۔ کافی کچھ بھگتا ہے۔
جیونیوز کی الف لیلہ کے عنوان سے حسن و عشق کے قصے، رقابتیں، آفس پولیٹیکس، اعلی پیشہ ورانہ کارنامے، اہم خبروں کی پس پردہ کہانیاں اور ذاتی تجربات تحریر کیے جاسکتے ہیں
حج پر گیا تو شیطان کے ساتھ تصویر نہیں بنواسکا تھا۔ الحمداللہ یہ خواہش پاکستان میں جیونیوز کے دفتر میں پوری ہوئی۔
یہ اس وقت کی ہے جب اس مردود کا جیو پر مارننگ شو شروع ہونے والا تھا۔ تشہیر کے لیے اسے رات 9 بلیٹن میں وقت دیا گیا۔ پرائم ٹائم بلیٹنز کا پروڈیوسر میں ہوتا تھا۔
یہ تصویر راجو بھائی نے کھینچی اور اپنے موبائل کی اسکرین پر منحوس سے دستخط بھی کروالیے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔
یہ ضرورت اس دن پڑی جب اس نے مجھے دھمکی دی کہ ان دنوں لاپتا بھائی سلمان حیدر کے ساتھ میری تصویر کو ٹی وی پر چلاکر میری جان خطرے میں ڈالے گا۔
اس جیسے لوگ سلمان بھائی کے خلاف مہم چلارہے تھے اور انھیں بلاگر بھینسا اور توہین مذہب کا ملزم قرار دے رہے تھے۔
میں نے اس دن خود ہی توہین مذہب کے ایک مصدقہ مجرم کے ساتھ اپنی تصویر فیس بک پر پوسٹ کردی تھی، یعنی اسی کے ساتھ۔
تصویر اتارنے والے راجو بھائی جیو کے بہترین پروڈیوسروں میں سے ایک ہیں۔ اسپورٹس کی خصوصی ٹرانس میشنوں کے انچارج ہیں۔ تمام بڑے کھلاڑیوں کی میزبانی کرتے ہیں۔ جیو کی ایک ان آفیشل کرکٹ ٹیم بھی بنائی ہوئی تھی۔ پتا نہیں اب بھی وہ میچ کھیلتی ہے یا نہیں۔
راجو بھائی ممتاز براڈکاسٹر اور سوزخواں سید ناصر جہاں کے بیٹے اور اسد جہاں کے بھائی ہیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ