مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت بچپن میں ایک ڈرامے کا کافی ذکر سنا تھا اور کوئی ایک آدھ جھلک بھی حافظے میں محفوظ رہ گئی تھی۔ نام تھا، دبئی چلو۔ 1978 میں پی ٹی وی پر نشر ہوا تھا۔ میں اس کے چھبیس سال بعد دبئی گیا اور وہاں چار سال رہا۔ اس عرصے میں حیران ہوتا رہا کہ دبئی تو میرے سامنے بن رہا ہے اور ترقی کررہا ہے، تو ستر کی دہائی میں دبئی چلو کیوں لکھا گیا اور اتنا ہٹ ہوا۔
وہ ڈراما محترم عارف وقار نے لکھا تھا۔ مجھے یہ بات کچھ عرصہ پہلے ہی معلوم ہوئی، حالانکہ میں بہت سال سے ان کے نام سے واقف تھا۔ بی بی سی سننے اور اس کی ویب سائٹ دیکھنے والا ہر شخص انھیں جانتا ہے۔
میری کہانیوں کی پہلی کتاب چھپی تو انھیں بھیجی اور انھوں نے تبصرہ کیا جو اخبار میں چھپا۔ ایک دو بار فون پر بھی بات ہوئی لیکن ملاقات کبھی نہیں ہوئی تھی۔
ممتاز ڈراما آرٹسٹ شعیب حسن یہاں ورجینیا میں رہتے ہیں اور میرے بڑے بھائی جیسے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ عارف وقار امریکا آئے ہوئے ہیں۔ میں نے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ کل شعیب بھائی کے گھر پر محفل ہوئی تو مجھے بھی طلب کیا گیا۔ عارف صاحب سے ملنے کی تمنا پوری ہوئی۔
یہ بات بھی مجھے ابھی پتا چلی کہ عارف صاحب بی بی سی لندن سے پہلے وائس آف امریکا واشنگٹن میں کئی سال کام کرچکے تھے۔ بلکہ ان کی بہن عابدہ وقار تو پچیس سال کام کرکے ریٹائر ہوئیں۔ ان دونوں کے والد وقار انبالوی مشہور شاعر تھے۔
عارف صاحب نے واشنگٹن میں اسٹیج کے لیے ڈرامے لکھے اور شعیب بھائی اور ان کے کزن، اداکار اور فلم ڈائریکٹر نور نغمی نے ان میں کام کیا۔ کل کی محفل میں اس تھیٹر گروپ کے تین چار اور ارکان بھی آئے اور ماضی کی یادیں تازہ کیں۔
عارف صاحب بہت مزے کی گفتگو کرتے ہیں اور خالص لاہوری انداز میں قصے سناتے ہیں۔ کئی گھنٹے قہقہے لگاتے گزرے۔
کھانا بھی ہوا۔ فاروق صاحب نے ایسے شاندار کباب بنائے کہ بس۔ میں نے نظر بچا کے کئی اڑائے۔ فاروق صاحب نے شباب کیرانوی مرحوم کی فلموں میں کام کیا تھا بلکہ شاید ان کے خاص کارکن تھے۔
میں عارف صاحب کے ساتھ سیلفی لینا چاہتا تھا لیکن درخواست کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ کسی بڑے آدی سے پہلی بار ملیں اور تصویر بنانے کی خواہش کریں تو احتمال ہوتا ہے کہ وہ ملاقات کا مقصد صرف یہی نہ سمجھ بیٹھے۔ آج کل بہت سے ملاقاتیں فقط سیلفی کی خاطر ہوتی ہیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ