حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریک انصاف کے سربراہ اور سابق وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں ’’کوئی یہ نہ سمجھے کہ ڈیل ہوئی ہے۔ اس بار پوری تیار سے آئیں گے۔ خون خرابے سے بچنے کیلئے لانگ مارچ ختم کیا۔ حکومت، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے پاس چھ دن کا وقت ہے‘‘
(6میں سے 3دن بیت چکے ہیں) انہوں نے حکومت کو مشروط مذاکرات کی پیشکش بھی کی۔ گزشتہ روز پشاور میں ان کی پریس کانفرنس گرما گرمی کے بعد تلخی بھری ناراضگی پر ختم کردی گئی۔ صحافی عارف یوسفزئی کے طویل سوال کو انہوں نے تقریر قرار دیتے ہوئے کہا کہ میں بھی سخت جواب دے سکتا ہوں۔ بہرطور سوال کے جواب میں وہ اپنا موقف بیان کرکے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے پریس کانفرنس سے اٹھ کر چلے گئے۔
یہ درست ہے کہ عارف یوسفزئی کا سوال طویل تھا۔ غالباً سوال کی طوالت کو ہی خان نے تقریر قرار دیا۔
’’بڑے لوگوں‘‘ کی پریس کانفرنس میں چونکہ دوسری بار سوال کرنے کا موقع کم ملتا ہے اس لئے اکثر صحافی کوشش کرتے ہیں کہ ایک سوال میں دو سوال اور باندھ دیئے جائیں۔ عارف یوسفزئی نے بھی یہی کیا۔ اس لئے بھڑکنے اور ناراض ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔
خان کے حامی کہتے ہیں کہ بدتمیزی، گالم گلوچ، کردار کشی کو (ن) لیگ نے شروع کیا۔ درست لیکن جس ’’معراج‘‘ پر اسے انصافیوں نے پہنچایا ہے اس معاملے میں (ن) لیگ سو سال پیچھے ہے۔
آپ یہ کہہ سکتے ہیں وقت بدلتا رہتا ہے (ن) لیگ کے دور میں(کہنا ویسے پہلے دور کو اسلامی جمہوری اتحاد کا دور چاہیے) صرف پرنٹ میڈیا تھااور لے دے کرایک پی ٹی وی ، اب ذرائع ابلاغ میں درآئی جدت نے سماں باندھ رکھا ہے۔
خان کی اس بات پر سرتسلیم خم کہ انہوں نے اپنے چاہنے والوں کو بدتمیزی نہیں بنایا۔ ” وہ انہیں اسی حال میں ملے تھے” آپ گزشتہ روز پشاور میں سوال کرنے والے صحافی کے سوشل میڈیا اکائونٹس پر جاکر دیکھ لیجے خان کے حامی دودو ہاتھ کرنے میں جُتے ہوئے ہیں ، کسی دن بعض ان خواتین صحافیوں کے سوشل میڈیا اکاونٹس کا چکر لگا کر دیکھئے جو تحریک انصاف کی ناقد ہیں، تحریک انصاف کے حامی وہاں ہر وہ گالی دیتے ہیں جو مارکیٹ میں دستیاب ہے۔
یہ عرض کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اپنی گالم گلوچ، بدزبانی اور مخالفین کی کردار کشی کی پردہ پوشی کے لئے (ن) لیگ کے ماضی کو زیربحث لانے کا مقصد خود کو معصوم ثابت کرنا ہے یا پھر یہ کہ یہ سب تو سیاست کا چلن رہا ہے ہم نے کون سا نئی بات کی ہے۔
خان کے حامی اپنے حامی صحافیوں کو محب وطن، بااصول، بہادر سمجھتے ہیں ناقدین کے لئے جو الفاظ وہ استعمال کرتے ہیں یہاں لکھنے سے قاصر ہوں۔ خیر خان خود بھی تحمل کے ساتھ بات نہیں کرپاتے اوئے توئے تو گفتگو کا بنیادی رزق ہے۔ ہمارے ہاں بدزبانی بہادری کادرجہ رکھتی ہے۔
مکرر عرض ہے عارف یوسفزئی کا سوال طویل ضرور تھا لیکن غلط نہیں۔ پی ٹی آئی کے حامی یوٹیوبرز اور سوشل میڈیا پر جنگ لڑنے والے جو زبان استعمال کرتے ہیں اس کا تصور بھی شرمندہ کردیتا ہے۔
چلیں ماضی میں اگر بداخلاقی بدزبانی اور کردار کشی ہوئی تو کیا آج اس کی پیروی میں 2قدم آگے بڑھ کر ’’حق‘‘ ادا کرنا درست ہوگا؟ ایسا نہیں ہے جو کل غلط تھا وہ آج بھی قابل مذمت ہے۔
پی ٹی آئی کے حامیوں میں ایک طبقہ وہ ہے جو اکتوبر 2011ء تک سیاست کو گالی دیتا تھا۔ دوسرا طبقہ (ن) لیگ کی مخالفت کو ایمان کا حصہ سمجھ کر اسی عرصہ میں پیپلزپارٹی سے الگ ہوا۔ تیسرا طبقہ وہ ہے جو حلقہ ہائے انتخاب رکھنے والے ’’نجیب‘‘ سیاستدانوں کا پشیتنی وفادار ہے۔ کچھ وہ بھی ہیں جو پہلے ہی پارٹیاں بدلنے کے عادی ہیں۔ ان تینوں چاروں کے نزدیک ان (خان کے) مخالفین چور، غدار، لٹیرے، مجرم اور وہ سب کچھ ہیں جو یہ سمجھتے ہیں ایک اکیلا خان محب وطن، ایماندار، باضمیر، بااصول، سمارٹ اور نجات دہندہ ہے۔
خان خود کہہ چکا کہ یوٹرن لیڈر ہی لیتا ہے اس لئے ان کے محبین کا ہر دعویٰ مان لیا جانا چاہیے۔
تمہید طویل ہوگئی ہم ابتدائی سطور کی طرف پلٹتے ہیں۔ پشاور کی پریس کانفرنس میں تین باتیں اہم ہیں، پہلی یہ کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ ڈیل ہوئی ہے، ثانیاً یہ کہ اب کی بار پوری تیار سے آئوں گا۔ ثالثاً یہ کہ حکومت، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے پاس 6دن ہیں۔ رابعً یہ کہ خون خرابے سے بچنے کے لئے لانگ مارچ ختم کیا۔
ان کی پہلی بات پر ادب کے ساتھ ایک سوال ہے وہ یہ کہ کیا عمران خان عوام یا کم از کم اپنے حامیوں کو یہ بتاسکتے ہیں کہ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ محمود خان کو 24مئی کو کس نے ملاقات کے لئے بلایااور ان سے کہا کہ لانگ مارچ کا پشاور سے آغاز سیاسی تصادم کو جنم دے سکتا ہے اس لئے آغاز کا مقام تبدیل کرلیں۔
اس ملاقات کے بعد باہمی مشورہ سے لانگ مارچ کے آغاز کے لئے صوابی انٹرچینج کا انتخاب ہوا۔ اس سوال کے جواب میں ڈیل ہونے یا نہ ہونے کی پوری کہانی پوشیدہ ہے۔
خون خرابے سے بچنے کیلئے لانگ مارچ ملتوی کیا، وقعی ایسا ہے تو یہ اچھا جذبہ ہے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ انہوں نے 20لاکھ افراد کے ہمراہ اسلام آباد آنا تھا لیکن 20ہزار بھی نہ لاسکے۔
ان کی جماعت کی سینئر قیادت (چند کے ایک کے علاوہ) اپنے اپنے علاقوں سے جلوسوں کی قیادت کرکے اسلام آباد روانہ ہونے کی بجائے پشاور کے ’’بنکر‘‘ میں ’’محفوظ‘‘ ہوگئی۔
کچھ لوگ سابق سپیکر اسد قیصر کے گھر صوابی میں مہمان ہوئے۔ یہ وہ عمل ہے جس نے کارکنوں اور حامیوں کو مایوس کیا۔ ورنہ جہاں مقامی لیڈروں یا نمایاں افراد نے حوصلہ دیکھایا وہاں
رونق میلہ خوب رہا۔ لاہور کی مثال سب کے سامنے ہے
جو جی میں آئے کوئی کہے لیکن لاہور میں ڈاکٹر یاسمین راشد اور حماد اظہر نے جرات کا مظاہرہ کیا۔
الفاظوں کو چباچباکر اظہار کا ذریعہ بنانے والے پیرانِ پیر آف ملتان پشاور میں تھے ان کے صاحبزادے نے جو قومی اسمبلی میں ’’موروثیت کی وجہ سے نہیں ذاتی جدوجہد سے پہنچے تھے‘‘، ملتان سے جلوس کی قیادت کیوں نہ کی؟ یہ ایک مثال ہے۔
فیاض چوہان راولپنڈی کی سڑکوں پر پہلے پورے 9افراد کے ساتھ مل کر کچھ دیر احتجاج کرتے رہے پھرا یک موٹرسائیکل پر دستیاب تھے۔ شیخ رشید چلیں چھوڑیں وہ تو کرہ ارض کے سب سے بڑے ’’جہادی‘‘ ہیں۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انہیں سینئر قیادت کے ساتھ اپنے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی سے جواب طلب کرنا چاہیے صرف قومی اسمبلی کے 100ارکان ہی 500،500 افراد لے کر اسلام آباد کے لئے روانہ ہوتے تو 25مئی کو ان کے ہمراہ صوابی انٹر چینج سے آنے والوں کے علاوہ 50ہزار افراد موجود ہوتے۔
حکومت کو 6دن کی مہلت دینے والی بات سمجھ میں آتی ہے مگر عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کو یہی مہلت کیوں؟ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کو سیاسی معاملات کی بجائے اپنے فرائض پر توجہ دینی چاہیے۔
انہوں نے عدلیہ کا نام اس لئے تو نہیں لیا کہ اس کے ایک فیصلے سے انہیں فیس سیونگ ملی؟
اسٹیبلشمنٹ کو تو وہ کہہ رہے تھے اب ’’نیوٹرل‘‘ ہی رہنا، اب کیا ہوا؟
انہیں (عمران خان) سیاسی حکمت عملی وضع کرنے حکومت مخالف تحریک چلانے اور اپنے اہداف کے حصول کے لئے جدوجہد کرنے کا پورا حق ہے البتہ دو رنگی چھوڑ کر یکسو ہونا ہوگا۔
ایک ہی وقت میں رابطے، مذاکرات، وعدوں کے حصول کے لئے کوششیں اور دھمکیاں یہ سب کچھ عجیب ہے۔
حرف آخر یہ ہے کہ پریس کانفرنسوں میں اب یوٹیوبرز، پسندیدہ صحافی اور اینکرز ہی نہیں ہوں گے اس لئے سوالات کا برانہ منایا کریں بلکہ پہلے اعلان کردیا کریں صحافی دو تین سوال کرسکتے ہیں البتہ تین سوالوں کا ایک سوال بناکر ’’تقریر‘‘ نہ کیا کریں۔
۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر