اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

فکشن سے فلم تک۔۔۔||محمد عامر خاکوانی

تب لگتا تھا شائد یہی فلمیں ہوتی ہیں۔ ان دنوں ایک فلم بڑی ہٹ ہوئی ،ڈسپیریڈوdesperado، اس میں انٹونیو بینڈرس نے مرکزی کردار ادا کیا، اس کا ہیر سٹائل بہت مقبول ہو گیا تھا، سلمیٰ ہائیک اس میں تھی اور ہم نوجوان دل وجاں سے اس ہسپانوی حسینہ کے فین ہوگئے۔

محمد عامر خاکوانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کتابوں سے میری دلچسپی بچپن سے تھی ، فکشن اورنان فکشن دونوں پڑھنے کی کوشش کی۔ہمارے چھوٹے سے شہر میں کتابوں کے حوالے سے رہنمائی فراہم کرنے والے بہت کم تھے ۔اپنے طور پر جو کچھ سمجھ میں آیا پڑھتے رہے ۔اس میں کتابوں کی دستیابی /عدم دستیابی بھی اہم عنصر ہے۔ میرے آبائی شہر احمدپورشرقیہ میں خوش قسمتی سے بلدیہ کے زیراہتمام ایک پبلک لائبریری اور ریڈنگ روم موجود ہے۔ آج کل معلوم نہیں کتابوں کی کیا صورتحال ہے، نئی کتابیں آ رہی ہیں یا نہیں؟ ہمارے زمانے میں اچھی بھلی کتابیں موجود تھیں اور میٹرک ، فرسٹ ائیر کے طالب علم کی آنکھیں کھلی رہ جاتیں۔اسی لائبریری سے کئی مشہور ناول لے کر پڑھے۔ فکشن میں دلچسپی زیادہ اس لئے بھی ہوئی کہ سب رنگ جیسا ڈائجسٹ ہمیں دنیا بھرکی بہترین کہانیوں اور شاہکار ادب تخلیق کرنے والوں سے متعارف کراتا رہا ۔ فکشن پڑھنے کی وجہ سے ہی بعد میں مشہور ناولوں پر بنی فلمیں دیکھنے کا شوق ہوا ۔ایسی بہت سی فلمیں دیکھیں اور ان کا لطف اٹھایا، اگرچہ فلم میں وہ بات نہیں جو اصل ناول میں ہوتی ہے، مگر پڑھے ہوئے کو اپنے سامنے مجسم دیکھنا بھی شاندار تجربہ ہے۔ فکشن کی طرح فلم دیکھنے کا بھی ذائقہ ڈویلپ کرنا پڑتا ہے۔ آپ فکشن میں ہلکے پھلکے ناولوں سے سنجیدہ ادب کی طرف آتے ہیں اور اس کا نقطہ عروج وہ ہے جب ٹالسٹائی کا وار اینڈ پیس، اینا کارینینا اور دوستئوفسکی کا برادرز کرامازوف اور کرائم اینڈ پنشمنٹ جیسے شاہکار پڑھنے کا موقعہ ملے۔ وار اینڈ پیس پڑھنے کے لئے قاری کو ایک خاص قسم کی استطاعت اورذہنی معیار بنانے کی ضرورت ہے، ورنہ عام قاری اس سمندر جیسے گہرے اور پھیلے ہوئے ناول کے ابتدائی صفحات پر موجود بے شمار کرداروں سے گھبرا کر بھاگ جائے گا۔ دوستئو فسکی کو پڑھنے اور سمجھنے کے لئے سٹیمنا کے ساتھ ذہنی پختگی اور چیزوں کو گہرائی تک جا کر دیکھنے ، سمجھنے کی صلاحیت درکار ہے۔ دوستئوفسکی کے ناول دی برادرز کراما زوف اور کرائم اینڈ پنشمنٹ (جرم او رسزا)کے بارے میں ماہرین کہتے ہیں کہ ان کا تخلیق کار کسی بڑے ماہر نفسیات سے کم نہیں تھا۔ انسانی شخصیات اور کرداروں کی اتنی باریک بینی اور عمدگی کے ساتھ عکاسی،اندرونی تضادات کو نمایاں کرنا کسی عام لکھاری کے لئے ممکن ہی نہیں۔ خوش قسمتی سے ان دونوں ناولوں کے اردو تراجم شائع ہوچکے ہیں۔ بک کارنر ، جہلم نے یہ دونوں کتابیں نہایت حسین انداز میں حال ہی میں شائع کی ہیں۔ اب تصور کریں کہ ان عظیم ناولوں پر اگر فلم بنائی جائے تو وہ کیسا تجربہ ہوگا؟ مختلف مزاج اورکردار کے حامل کرامازوف بھائی جن کا ذکر ناول میں ہے، انہیں فلم میں اپنے سامنے جیتے جاگتے دیکھنا ۔ویسے ان شاہکار ناولوں پر کئی فلمیں بن چکی ہیں۔ وار اینڈ پیس پر ایک سے زائد فلمیں بنی ہیں، ان میں سے ایک روسیوں نے بنائی ہے جو چھ گھنٹے طویل ہے، یوٹیوب پر یہ موجود ہے۔ دوستئوفسکی کے کرائم اینڈ پنشمنٹ کو مختلف ادوار میں کئی بار بنایا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس ناول کی ایڈاپٹیشن پچیس تیس بار ہوئی ہے، مختلف لوگوں نے اس ناول کو اپنے انداز میں بنانے کی کوشش کی۔ ان میں سے ایک نیٹ فلیکس پر بھی موجود ہے۔ برادرز کراما زوف پربنی مشہور فلم1958کی ہے ، پرائم ویڈیو امیزون پر یہ موجود ہے۔ ان فلموں کو دیکھنے سے پہلے بھی اچھا خاصا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ اگر اچھی معیاری فلموں کا ذوق پیدا کئے بغیر آپ ان بڑی فلموں کو دیکھنے چل نکلیں گے تو شائد مایوسی اور بوریت ہو۔ آرٹ فلموں کا ذوق میرے اندر میرے ایک بہت پیارے اور نہایت مخلص دوست ڈاکٹر مجید نے پیدا کیا۔ ڈاکٹر مجید آج کل نیوجرسی، امریکہ میں مقیم ہیں، ایک زمانے میں ہم ہاسٹل میں اکھٹے رہے۔ وہی تعلق پھر آگے چلتا رہا۔ ڈاکٹر مجید نے گلزار کی فلموں سے متعارف کرایا۔ کمل ہاسن کی فلمیں بھی ان کے ساتھ ہی دیکھیں، جن میں بھارت کی پہلی خاموش فلم پشپک بھی شامل تھی۔گلزار کی فلموں کی کیا ہی بات ہے۔ اجازت تو خیر ان کی مشہور فلم ہے، اس کا ایک گیت تو لافانی ہوچکا ۔ گلزار کی دیگر فلمیں بھی کمال ہیں۔آندھی، کتاب، کنارہ، خوشبو، نمکین، موسم، پریچے انگور وغیرہ وغیرہ۔ ماچس شائد آخری فلم ہے، سکھ المیہ پر بنی ، اس کے دو گیت چپا چپا چرخہ چلے… اور چھوڑ آئے ہم وہ گلیاں…کمال ہے۔ اس سے پہلے مجھے یاد ہے کہ ہاسٹل کے دیگر دوستوں کے ساتھ بڑے ذوق شوق سے ہم جیمز بانڈ فلمیں دیکھنے لاہور کے پلازہ اور گلستان سینما جایا کرتے تھے،پلازہ میں ان دنوں انگریزی فلمیں لگا کرتی تھیں۔ چارلیز اینجلز اور بروس ولس کی کئی فلمیں یہیں دیکھیں۔ تب لگتا تھا شائد یہی فلمیں ہوتی ہیں۔ ان دنوں ایک فلم بڑی ہٹ ہوئی ،ڈسپیریڈوdesperado، اس میں انٹونیو بینڈرس نے مرکزی کردار ادا کیا، اس کا ہیر سٹائل بہت مقبول ہو گیا تھا، سلمیٰ ہائیک اس میں تھی اور ہم نوجوان دل وجاں سے اس ہسپانوی حسینہ کے فین ہوگئے۔ بعد میں کوئی بیس سال بعد میں نے بڑے شوق سے یہ فلم اہلیہ کے ساتھ دیکھنے کا ارادہ کیا تو شدید مایوسی ہوئی۔ ایسی ہی مایوسی چارلیز اینجلز کو دوبارہ دیکھنے پر ملی۔ یقین نہیں آتا تھا کہ ایسی بکواس فلمیں اتنے شوق سے دیکھتے رہے۔ لگا کہ فلم کا قصور نہیں، وہ تو ویسی ہے، ہم ہی آگے چل دئیے۔ ؎ جیسے جیسے ذوق بہتر ہوتا گیا، فلموں کی چوائس بھی بدلتی گئی ۔ میرے حساب سے اچھی بات یہ ہوئی کہ تنوع برقرار رہا۔ ایک طرف تو وار اینڈ پیس جیسی فلم یا گاڈ فادر ، کلوپیٹرا،لارنس آف عریبیہ،بن حر،ڈانسز ودھ ولف،نو کنٹری فار اے اولڈ مین، جینگو ان چینڈاوردیگر آسکر ایوارڈیافتہ فلموں کی طویل فہرست۔ دوسری طرف ہیری پوٹر سیریز اور لارڈ ز آف دی رنگ ٹائپ فلمیں بھی دیکھیں بلکہ ایک سے زائد بار۔ ہیری پوٹر فلمیں پہلے دیکھیں اورناول بعد میں پڑھے۔ بڑی حیرت ہوئی اور متاثر بھی ہوا کہ ڈائریکٹر نے ان ناولوں کو کیسی کمال مہارت سے پردہ سکرین پر مجسم کر دیا۔ ناول پڑھ کر فلم دیکھیں یا فلم پہلے دیکھی ہو تو ناول پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ کیسی کمال کاسٹنگ ہوئی۔ جو کردار مصنف نے بیان کیا، اسے پڑھ کر جس طرح کی شخصیت ہم سوچتے رہے ،بالکل ویسا ہی کردار فلم سکرین پر دیکھنے کو ملتا ہے۔ گاڈفادر تو میں نے بلامبالغہ درجنوں بار دیکھی ہوگی۔ ابھی تک حال یہ ہے کہ کسی چینل پر گاڈ فادر لگی ہو تو میری بیوی روشنی کی رفتارسے بھی زیادہ تیزی سے چینل بدل دیتی ہے کہ اگر اس کی نظر پڑ گئی تو پھر یہی لگا رہے گا۔ شائد ایک وجہ یہ ہے کہ گاڈ فادر میری زندگی کا پہلا انگریزی ناول ہے۔ کالج کے زمانے میں اسے پڑھا تو بہت پسند آیا، اسے دو تین بار انگریزی میں اور کم از کم دو بار اس کے اردو تراجم پڑھ چکا ہوں۔ فلموں کے حوالے سے مجھے ایک معروف فیس بک گروپ’’ مووی پلینٹ‘‘ کا بڑا فائدہ ہوا۔ وہاں کئی نوجوان فلم بین حضرات کی تحریروں سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ علم کے لئے عمر شرط نہیں، شوق اور محنت اہم ہے۔بہت سی اچھی ، معیاری فلموں کا پتہ چلا اور انہیں دیکھا تو سحرزدہ رہ گیا۔ اندازہ ہوا کہ اچھی فلم اور اچھا کام کیسا ہوتا ہے۔ تب معروف اداکاروں کو فالو کرنا شروع کیا۔ مارلن برانڈو، رابرٹ ریڈ فورڈ، الپچینو، ڈی کیپریو ، ٹام کروز وغیرہ۔ ان کی مشہور فلمیں نیٹ سے سرچ کر کے نکالیں اور دیکھتے رہے۔ الپچینو میرا آل ٹائم فیورٹ ہے۔ اس کی مشہور فلم سینٹ آف ویمن میں جو آخری حصے میں تقریر ہے، اسے درجنوں بار دیکھا، ہر بارلطف ملا۔ پھر کچھ عرصہ بعد چیزوں کی مزید سمجھ آئی۔ یہ پتہ چلا کہ آواز اورڈائیلاگ ڈیلیوری کمال چیز ہے، مگراس سے کچھ آگے بھی ہے۔ تب انتھونی ہاپکنز کی عظمت کا قائل ہوا۔ اگرچہ اس کی ایک مشہور فلم سائلنس آف لیمب پہلے دیکھ چکا تھا۔ لاڑکانہ سے ایک ڈاکٹر مگسی’’ مووی پلینٹ‘‘ میں لکھا کرتے تھے، ان کی ایک پوسٹ سے ڈینئل ڈی لیوس کا تب پتہ چلا ،جو دنیا کا واحد اداکار ہے جس نے تین آسکر ایوارڈ جیت رکھے ہیں۔ اس کی فلمیں وین دیئر از بلڈ، گینگز آف نیویارک، ان دی نیم آف فادر، لنکن، فینٹم وغیرہ کمال ہیں۔ جیک نکولسن کی فلمیں بھی تب دیکھیں، اس نے بہت متاثر کیا، ون فلیو اوور دی ککوز نیسٹ تو خیر بہت ہی مشہور ہے۔ ڈی پارٹیڈ،ایز گڈ ایز اٹ گیٹس،چائنا ٹائون، دی شائننگ حیران کن ہیں۔ جیک نکولسن کو دیکھنا بھی ایک اچھوتا تجربہ ہے۔ یہ وہ اداکار ہیں جو پاور فل ڈائیلاگز یا بلند آواز کے محتاج نہیں۔ پھر ایک اور موڑ آیا اور انہی فلم گروپوں سے سیکھا کہ اداکار کو نہیں، فلم ڈائریکٹرز کو فالو کرنا چاہیے، حقیقی بادشاہ گر اور خواب تخلیق کرنے والے وہی ہیں۔ (جاری ہے)

 

 

یہ بھی پڑھیے:

عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

محمد عامر خاکوانی کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: