اپریل 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈن نے بے نظیر بھٹو کے بارے میں کیا کہا؟||جویریہ اسلم

میری ادنی رائے میں تمام سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر ملکی مسائل کا حل مربوط اصلاحات کے ذریعے نکالنا ہو گا اور ایک ایسا لائحہ عمل عوام کے سامنے رکھنا ہو گا جو سیاسی مفادات اور اختلافات سے بالاتر بھی ہو اور قابل عمل بھی اور محترمہ بے نظیر کے تاریخی الفاظ کہ ڈیموکریسی کین بی فریجائیل بٹ اٹ مسٹ ورک۔
جویریہ اسلم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈن کا وڈیو کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تو میرے بابا کے فون تک پہنچ کر ہمارے گھر میں بھی موضوع بحث بنا۔ میں امتحانات کی وجہ سے پچھلے کچھ دنوں سے سوشل میڈیا زیادہ استعمال نہیں کر سکی مگر میری غیر موجودگی میں غیر ضروری ٹیگز نے مجھے اکاؤنٹ بند کرنے پر مجبور کر دیا جس پر تفصیل سے لکھنے کا ارادہ رکھتی ہوں۔ چلتے چلتے بابا کے فون سے نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈن کے الفاظ میری سماعت سے ٹکرائے کہ ”ڈیموکریسی کین بی فریجائل۔“ (Democracy can be fragile)

پچھلے کچھ دنوں سے وطن عزیز میں جو سیاسی صورتحال رہی اس نے مجھے کافی حساس بنا دیا ہے اور میرے ذہن میں ایسے سوالات اٹھتے ہیں جن کے جواب تو شاید سب کے پاس ہیں مگر یقین سے عاری نظریں اور مایوسی سے بھرے لہجے میرے قلم کو بھاری کر دیتے ہیں۔

وزیراعظم جیسنڈا آرڈن کی زبان سے ہماری سابق وزیراعظم کے ذکر پر اہل پاکستان میری طرح یقیناً متوجہ ہوئے ہیں اور یہ سوال بھی شاید کئی لوگوں کے ذہن میں آیا ہو کہ ہم نے کیسے کیسے ہیرے گنوا دیے ہیں۔ کیوں ہمارا نظام اس قدر کھوکھلا ہوا کہ سیاسی راہنماؤں ہی کو سیاست کی بساط پر سب سے زیادہ غیر اہم بنا کر غیر متعلقہ قوتوں کو طاقتور کر دیا گیا اور یہ سلسلہ یہیں نہیں رکا بلکہ آئینی اداروں کی اساس تک ہلا کر رکھ دی گئی۔ ایسا لگتا ہے کہ ایک پارٹی جب حکومت میں آتی ہے وہ محض دوسری پارٹی کے احتجاج اور دھرنوں کو روکنے کے لئے آتی ہے۔ دھرنے کا سٹیج گزشتہ چند سالوں سے سجا ہی رہتا ہے جس پر کبھی ایک پارٹی تو کبھی دوسری پارٹی کھڑی ہو جاتی ہے اور سیاسی معاملات کو عدالت کے کٹہرے میں پھینک پھینک کر ملک کے اہم ترین اداروں کے وقار کی دھجیاں اڑا دی گئی ہیں۔

ہماری بدقسمتی ہے کہ ادب، سائنس، سیاسیات غرض زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو ہماری انٹلیکچول ایلیٹ جس کی بیرونی دنیا بھی معترف ہوتی ہے، مختلف ممالک سے ان کو پذیرائی ملتی ہے ان کے لئے اپنے ملک میں زمین تنگ کر دی جاتی ہے۔ ایسی ہی مثال ہماری سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو ہیں جن کی سیاسی بصیرت کا اعتراف کرتے ہوئے نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈن نے بتایا کہ جون 1989 میں وزیراعظم پاکستان نے یہاں کھڑے ہو کر خطاب میں کہا تھا کہ جمہوری قوموں کو ضرور اکٹھے ہونا چاہیے، انہوں نے شہریوں کے حقوق کی اہمیت کی بات کی، نمائندہ حکومت، انسانی حقوق اور جمہوریت کی بات کی۔

جیسنڈا آرڈن کا مزید کہنا تھا کہ میں بینظیر بھٹو سے جنیوا میں جون 2007 میں ملی تھی، ہم دونوں نے ترقی پسند جماعتوں کی کانفرنس میں شرکت کی جو دنیا بھر سے آئی تھیں۔ 7 ماہ بعد ان کا قتل کر دیا گیا۔ میری بیٹی نیوتی آروہا آرڈرن گے فورڈ 21 جون 2018 کو پیدا ہوئی جو بینظیر بھٹو کی تاریخ پیدائش ہے۔ یہ حوالہ ان کی محترمہ کے لئے محبت کا ثبوت ہے۔

بے نظیر کے بارے دو باتیں بتانا چاہوں گی۔ وہ پہلی مسلمان خاتون وزیراعظم بنیں۔ وہ دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم تھیں جنہوں نے اپنے عہدے کے دوران بیٹی کو جنم دیا۔ 30 سال بعد وہ اعزاز مجھے حاصل ہوا۔ میری بیٹی اور بے نظیر بھٹو کا جنم دن 21 جون ہے۔ بی بی کا بیٹا بلاول آج پاکستان کا نوجوان ترین وزیرخارجہ ہے۔ بینظیر بھٹو نے 1989 ء میں یہاں اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ”ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ برابری کے حقوق نہ ہوں تو جمہوریت کمزور ہو سکتی ہے“ یہ وہ سچے الفاظ ہیں جو میں نے پاکستان سے کوسوں دور نیوزی لینڈ اپنے دفتر میں کہے تھے۔ بینظیر بھٹو ہماری رول ماڈل ہیں۔

درج بالا خیالات نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کے ہیں مگر بطور پاکستانی محترمہ بے نظیر بھٹو ہمارے لئے بھی سیاست کا ایک معتبر حوالہ ہیں اور میں سیاسیات کی طالبہ ہونے کی حیثیت سے اپنے سیاسی دانشوروں کے سامنے اپنی چند گزارشات پیش کرنا چاہتی ہوں اور اس مایوسی کی طرف ان کی توجہ مبذول کرانا چاہتی ہوں جو مجھ جیسے طلبا کو الیکشن کے نام پر ہونے لگی ہے کہ ہمارے لئے جمہوریت صرف الیکشن کرانے ہی کا نام کیوں ہے؟ میں اس وقت الیکشن کو وقت اور وسائل کا زیاں سمجھتی ہوں بلکہ قرضوں کے بوجھ تلے دبی معیشت کے لئے خطرناک بھی۔

میری ادنی رائے میں تمام سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر ملکی مسائل کا حل مربوط اصلاحات کے ذریعے نکالنا ہو گا اور ایک ایسا لائحہ عمل عوام کے سامنے رکھنا ہو گا جو سیاسی مفادات اور اختلافات سے بالاتر بھی ہو اور قابل عمل بھی اور محترمہ بے نظیر کے تاریخی الفاظ کہ ڈیموکریسی کین بی فریجائیل بٹ اٹ مسٹ ورک۔

ڈیموکریسی کو مضبوط کرنے کے لئے ہمیں الیکشن سے پہلے اپنے اداروں پر کام کرنا ہے اور اگر اس کے لئے آپ کے پاس کوئی اپنا پلان نہیں ہے تو پھر اس مہذب دنیا کے ماڈلز کو دیکھئے جنہوں نے جمہوریت کے راستے پر چل کر ترقی کا سفر کیا مگر ہاں یہ تاخیر آئین پاکستان کی تشکیل کی تاخیر جتنی طویل نہ ہو۔

_

یہ بھی پڑھیے:

جویریہ اسلم  کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: