اپریل 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سفارتکاری کا دور نو اور سیاسی ماحول۔۔۔۔۔۔!|| عادل علی

حکومت چلانے کے لیے کوئی تو چاہیے لہٰذا اب اپنی انا اور ضد کو چھوڑ کر ملک کی بقا کا سوچا جائے کیونکہ پانچ سو سے زاید کاروبار اور دفاعی بجٹ بھی ملک کے قائم دائم و خوشحال ہونے سے ہی منسلک ہے۔

عادل علی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"ہم آپ کے نانا کو جانتے ہیں”
یہ الفاظ برادر اسلامی ملک ترکی کے وزیر خارجہ نے پاکستان کے نوجوان وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری سے کہے جب وہ یونائیٹڈ نیشنز میں پاکستان کی نمائندگی کر رہے تھے۔
پاکستان کے نوجوان وزیر خارجہ نے اپنے نانا شہید ذوالفقار علی بھٹو کی روایت کو قائم رکھتے ہوئے وزارت خارجہ کے قلمدان سے اپنے سفر کا آغاز کیا۔
جیسے ہی انہوں نے عہدہ سنبھالا نہ صرف انہیں دنیا کے تمام بڑے اور پاکستان کے دوست ممالک کی طرف سے مبارکباد کے پیغامات ملنا شروع ہوگئے بلکہ وہ مختصر سے ہی وقت میں پاکستان کو لے کر سفارتی دنیا کی نظروں کا محور بن چکے ہیں۔ ایک نظر ملکی صورتحال پر ڈال کر میں واپس سفارتی معاملات کی طرف آتا ہوں۔
پاکستان اس وقت اندرونی و بیرونی دوونوں طرف سے شدید مشکلات کا شکار ہے جبکہ عوام میں ایک سراسیمگی پھیلی ہوئی ہے۔ ایک بے یقینی کی صورتحال ہے اور اس سب میں کاروباری طبقہ بھی پریشان ہے کہ کیا ہورہا ہےاور کیا ہونے جارہا ہے۔
نئی اتحادی حکومت کے ایوانوں سے بھی اب تک کوئی ٹھوس اور مستقل لائح عمل سامنے نہیں آسکا جس سے عوام کی بے چینی میں آئے دن شدید اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ حالیہ دور میں پاکستان معاشی طور پر مکمل طور پر غیر مستحکم صورتحال سے دوچار ہے تو میرا خیال ہے اس میں کوئی مذائقہ نہیں۔
پاکستان کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر نہ ہونے کے برابر سے بھی کم تر سطح پر ہیں جبکہ روپے کی قدر میں گراوٹ کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔
حکمران جماعتیں شاید اب تک اپنی گرہیں پنڈی سے صحیح طور پر چھڑا نہیں پائیں اس لیے کبھی حکومت کی مدت پوری ہونے تو کبھی اگلے چند گھنٹوں میں نگراں حکومت کے نافذ ہونے کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔
حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلینج سابقہ حکومت کے عالمی مالیاتی ادارے سے سخت شرائط پر کیے گئے معاہدے ہیں۔ اگر انہی شرائط پر معاملات کو آگے بڑھایا جاتا ہے تو مہنگائی کا شاید اب تک کا سب سے بڑا طوفان عوام کو ڈبودے گا اور میری ناقص معلومات کے مطابق وہ جو نیوٹرل ہوئے تھے وہ نا تو کبھی نیوٹرل تھے اور نہ اب ہیں۔
وہ چاہتے ہیں کہ معاہدہ ایسے ہی آگے بڑھے اور اس کے چند ماہ بعد الیکشنز کرادیے جائیں۔ بادی النظر میں مجھے تو اس سب کا مطلب لاڈلے کی فیس سیونگ کی ہی کوئی چال نظر آتی ہے جو کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنی ساکھ کھوتا جارہا تھا اور اب ببانگ دبنگ صبح شام اپنے محسنوں کے بخیے ادھیڑ رہا ہے ساتھ ہی اخلاقیات کی بھی دھجیاں اڑا رہا ہے۔
اب اگر تمام تر حالات کو باریک بینی سے دیکھا جائے تو وزیراعظم شاید اب تک خود کو وزیراعلیٰ ہی سمجھ رہے ہیں۔ ان کی باڈی لینگویج سے ہی ان میں کوئی سخت فیصلے لینے یا اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرانے کی ہمت و حکمت عملی نظر نہیں آتی جبکہ دوسری طرف سفارت کاری کی ماہر والدہ محترمہ بینیظیر بھٹو شہید کے فرزند کمال سیاسی تدبر اور مہارت کے ساتھ سابق وزیراعظم کے دورہ روس کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں اور دنیا کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں۔
لامحالہ اگر مقتدر حلقوں کا زور مان لیا جاتا ہے تو عوام کا تو کوئی پرسان حال نہیں رہنا اور اگر کوئی سخت فیصلہ لے کر حکومت چھوڑ دی جاتی ہے تو جو کوششیں سفارتی محاذ پر دوست ممالک کو سرمایہ کاری کی مد میں مدد کے لیے کی جارہی ہیں وہ بے نتیجہ ختم ہو جائینگی کیونکہ نگران حکومت کے ساتھ کوئی معاہدے نہیں کیے جاسکتے۔
ملک کے وسیع تر مفاد میں دیکھا جائے تو نیوٹرلز کو حقیقی نیوٹرلٹی کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور ثبوت بھی دینا ہوگا ورنہ اب نہ تو عمران خان حکومت میں ہیں اور نہ وہ خود آکر اس شتر بے مہار صورتحال کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے سکتے ہیں۔
حکومت چلانے کے لیے کوئی تو چاہیے لہٰذا اب اپنی انا اور ضد کو چھوڑ کر ملک کی بقا کا سوچا جائے کیونکہ پانچ سو سے زاید کاروبار اور دفاعی بجٹ بھی ملک کے قائم دائم و خوشحال ہونے سے ہی منسلک ہے۔
وزیر خارجہ کے کامیاب دورہ امریکا کے بعد ان کو چین سے دورے کی دعوت موصول ہوچکی ہے اور امید ہے کہ وہ اپنے خاندانی سفارتکاری میں مہارت کے تاج کو مزید روشن کرینگے۔ قوم ان کی طرف دیکھ رہی ہے۔
اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے اور عالمی گدھ ہمیں نوچ کھائیں۔۔۔۔۔۔!
ہم اپنے ملک کو محفوظ بنائیں کیونکہ ملک ہے تو ہم ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

%d bloggers like this: