نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

خاموش انقلاب (ناقابل اشاعت)||شبیر حسین امام

تحریک انصاف کی کارکردگی کا ایک رخ کثیرالمعیادی حکمت عملیوں پر مبنی ہے اُور اِن میں صرف ایک پہلو کا ذکر کیا جا رہا ہے‘ جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مستقبل پر نظر رکھتے ہوئے کس طرح ایک ایسے نئے پاکستان کی تشکیل کے لئے بنیاد رکھی گئی جو ’خودکفالت اُور خودانحصاری‘ کی جانب پیشقدمی ہے۔

شبیر حسین امام

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

تحریک انصاف کے سربراہ (چیئرمین) عمران خان نے ایبٹ آباد میں جلسہ عام (آٹھ مئی دوہزاربائیس) سے 35 منٹ (سہ پہر چار بجکر چونتیس منٹ سے پانچ بجکر نو منٹ تک) خطاب کے دوران ایک نہایت ہی بنیادی سوال اُٹھایا اُور اگر اِس ایک سوال کے تناظر میں صورتحال کو دیکھا‘ سوچا اُور سمجھا جائے تو اِس میں ’تحریک انصاف‘ کا عروج و زوال سمٹا دکھائی دیتا ہے۔ یہی وہ کامیابی کی سیڑھی تھی جسے اختیار کر کے تحریک انصاف اقتدار میں آئی اُور اِسی ہتھیار سے ہنستی بستی تحریک ِانصاف حکومت کو شکار بھی کیا گیا۔

دنیا سوشل میڈیا اُور مین سٹریم میڈیا (جملہ ذرائع ابلاغ) کے حصار میں ہے اُور آج کی حقیقت یہ ہے کہ ’میڈیا مینجمنٹ‘ کے ذریعے کسی بھی سیاسی و غیرسیاسی شخصیت اُور جماعت کی کارکردگی کو اُجاگر یا اُس کی ساکھ کو نقصان پہنچایا جا سکتا ہے۔ تحریک ِانصاف کے خلاف ذرائع ابلاغ کے وسائل کا استعمال کرتے ہوئے ”مہنگائی کو اُچھالا گیا“ اُور اِس مہنگائی کے لئے تحریک انصاف کو کچھ اِس منظم انداز سے ”تن تنہا ذمہ دار“ ٹھہرایا گیا کہ جیسے 1: مہنگائی عالمی نہیں بلکہ قومی مسئلہ ہے اُور اِس کا ماسوائے تحریک انصاف کوئی دوسرا محرک نہیں اُور 2: پہلی مرتبہ وفاقی حکومت میں آنے اُور انتظامی امور کی ناتجربہ کاری کے باعث ’تحریک انصاف‘ مہنگائی کے لئے تن تنہا ذمہ دار ہے اُور اِس بیانیئے نے اِس قدر مقبولیت حاصل کی کہ خود ’تحریک انصاف‘ کے کارکن بھی یقین کرنے لگے کہ اگر ’مہنگائی‘ بے قابو نہ ہونے دی جاتی تو تحریک سے زیادہ حکمرانی کا حقدار اُور متبادل کوئی دوسری سیاسی جماعت نہیں۔ یہی وہ مغالطہ (غلط فہمی) ہے جس میں مہنگائی کو پاکستان کے اندر اُٹھتے اُور پاکستان کے عوام کو اِس سے متاثر ہوتے دیکھا اُور دکھایا گیا جبکہ کورونا وبا سے معاشی‘ کاروباری و تجارتی سرگرمیوں میں کمی‘ تجارتی خسارہ‘ حکومت کی آمدنی کم اُور زیادہ اخراجات کے باعث (بجٹ خسارہ) جبکہ روس یوکرائن جنگ کی وجہ سے صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ خطے اُور عالمی سطح پر مہنگائی میں اضافہ ہوا اُور قابل ذکر تھا کہ تحریک انصاف اُن سماجی رفاہی اقدامات کا ذکر کرتی‘ جس کی وجہ سے کم آمدنی رکھنے والے طبقات کی کئی صورتوں سے مدد کی گئی اُور اِس میں نہ صرف علاج معالجے کی مفت سہولیات شامل تھیں بلکہ رعایتی نرخوں پر خوردنی اشیا کی فراہمی اُور مہنگائی کے اثرات کم کرنے کے لئے غریب طبقات کو دی جانے والی نقد امداد بھی شامل تھی اُور یہ سارا کام تین سال جیسے مختصر عرصے میں ٹیکنالوجی کے استعمال سے ممکن ہوا جو ’کورونا وبا‘ سے نمٹنے کی ”قابل ذکر“ قومی حکمت ِعملی کے علاؤہ ہے جس میں گھر گھر جا کر مفت ویکسینشن تک انفارمیشن ٹیکنالوجی کے عمومی وسائل سے خصوصی استفادہ کرتے ہوئے ’کوووڈ ویکسی نیشن‘ کے لئے ’آن لائن ممکنات‘ کا بھرپور اِستعمال کیا گیا‘ جس کی پاکستان کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ تحریک ِانصاف سے قبل حکومت کی جانب سے مستحق طبقات کے لئے ہر سال اربوں روپے غیرمستحق افراد میں تقسیم کئے جا رہے تھے کیونکہ کسی پاکستانی کی مالی حیثیت سے متعلق کوائف (ڈیٹا) کا خاطرخواہ استعمال نہیں کیا جا رہا تھا بالخصوص نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا)‘ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اُور پاکستان ٹیلی کیمونیکشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے پاس الگ الگ صورتوں میں محفوظ تھا۔

تحریک انصاف نے نہ صرف ہر پاکستانی کے بارے میں اِن کوائف کو ایک جگہ جمع (مربوط) کیا بلکہ ’گھر گھر سروے‘ کے ذریعے مستحق طبقات کی درست نشاندہی کرتے ہوئے اُن کی درجہ بندی اُور اِس درجہ بندی کو مستقل (حتمی) نہیں رکھا بلکہ وقتاً فوقتاً تبدیلیوں پر خودکار ٹیکنالوجی (مصنوعی ذہانت) کے ذریعے مستقل نظر رکھی گئی اُور یوں نہ صرف حکومت کو اربوں روپے کی بچت ہوئی بلکہ مستحق افراد کی درست نشاندہی بھی ممکن ہوئی اُور بالخصوص وہ افراد و طبقات بھی گنتی میں شمار ہوئے جن کا سیاسی اثرورسوخ نہیں تھا اُور جو کسی رکن قومی یا صوبائی اسمبلی اُور سینیٹر کے حلقہ انتخاب و تعلق سے جڑے ہوئے نہیں تھے لیکن صحت بیمہ سے اُن خاندانوں کو بھی مفت طبی سہولیات فراہم کی گئیں‘ جو اِس کے مستحق نہیں تھے اُور یوں ایک طرف جو سینکڑوں ارب روپے غیرمستحق افراد بشمول سرکاری ملازمین کے کھاتوں میں منتقل ہونے سے بچائے گئے تو دوسری طرف ’صحت بیمہ‘ کی صورت آمدنی کے لحاظ سے مستحکم مالی حیثیت رکھنے والے خاندانوں میں تقسیم کر دیئے گئے جن کی نشاندہی ذرائع ابلاغ کرتے کرتے تھک گئے لیکن تحریک انصاف کے مرکزی اُور صوبائی فیصلہ سازوں نے سُنی اَن سُنی کر دی۔ مجموعی طور پر تحریک انصاف کی کوشش تھی کہ ہر کس و ناکس (مستحق اُور غیرمستحق) فرد کو ’مہنگائی کی تپش‘ سے بچائے رکھا جائے لیکن اِس نیک نیتی پر مبنی کوشش کا آج بھی دور دور تک تذکرہ اُور حوالہ نہیں اُور کہا جا رہا ہے کہ عمران خان ’پے در پے‘ جلسوں میں حکومت پر تنقید تو کر رہے ہیں لیکن اپنی حکومتی کارکردگی کا ذکر نہیں کر رہے!

تحریک انصاف کی کارکردگی کا ایک رخ کثیرالمعیادی حکمت عملیوں پر مبنی ہے اُور اِن میں صرف ایک پہلو کا ذکر کیا جا رہا ہے‘ جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مستقبل پر نظر رکھتے ہوئے کس طرح ایک ایسے نئے پاکستان کی تشکیل کے لئے بنیاد رکھی گئی جو ’خودکفالت اُور خودانحصاری‘ کی جانب پیشقدمی ہے۔

سال 2013ء کے عام انتخابات کے بعد خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کو حکومت بنانے کا موقع ملا اُور سال 2014ء میں ”10 ارب درخت (ٹین بلین ٹری سونامی)“ نامی شجرکاری مہم (حکمت عملی) کا اعلان کیا جو پاکستان میں ”خاموش انقلاب“ قرار دیا جا سکتا ہے اُور اِس سے سینکڑوں ہزاروں ایکڑ پر زیتون کی کاشت عمل میں آئی جو پہلے تجرباتی بنیادوں پر چاردیواریوں کے اندر ہوتی تھی اُور ایک موقع پر جب خیبرپختونخوا ’زیتون کی کاشتکاری‘ کے ثمرات سے مستفید ہونے ہی والا تھا کہ 8 اپریل 2010ء کے روز اٹھارہویں آئینی ترمیم منظور کی گئی جس سے زرعی شعبہ مرکز سے صوبوں کو منتقل کر دیا گیا اُور زیتون کی کاشت کے تجربات جہاں تھے وہیں رک گئے۔ حکومت کو دی گئی اراضی اُور حکومتی اراضی بمعہ زیتون کے درخت بااثر افراد نے لوٹ لی اُور زیتون کی کاشت و تیل کشید کرنے والے سبھی تجربہ کار سرکاری ملازمین کو غیرمتعلقہ محکموں میں کھپا کر ضائع کر دیا گیا۔

تحریک انصاف نے زیتون کی کاشت کاری پر توجہ دی اُور دنیا میں زیتون کی پیداوار کرنیو الے ممالک کی تنظیم (انٹرنیشنل اولیو کونسل) کا 19واں رکن بن چکا ہے اُور پاکستان زیتون تیل کی سالانہ 1500 ٹن (ڈیڑھ لاکھ کلوگرام) پیداوار کر رہا ہے علاؤہ ازیں تحریک انصاف کی شجرکاری پر توجہ سے کاشتکار موسمی اثرات کا مقابلہ کرنے کے قابل بھی بنے۔ زمین کی زرخیزی اُور زمین کا کٹاؤ روکا گیا۔ کیا یہ کارکردگی نہیں کہ پاکستان سالانہ 2.1 ارب ڈالر مالیت کا ’خوردنی تیل (کوکنگ آئل)‘ درآمد کرتا ہے اُور یہ کوکنگ آئل درآمد کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے پاکستان سے زیادہ بھارت (5.1 ارب ڈالر) اُور چین (4.1 ارب ڈالر) مالیت کا تیل درآمد کرتا ہے اور جب پاکستان میں تیلدار اجناس کی پیداوار بڑھے گی تو اِس سے خوردنی تیل کی درآمد میں ہر سال کمی آتی رہے اُور زیتون کا تیل جو نسبتاً مہنگا اُور اِس کا استعمال صحت کے لئے مفید ہوتا ہے اگر مقامی پیداوار کے طور پر سستے داموں پاکستان کو میسر آئے گا تو اِس سے قومی صحت کا معیار بھی بلند ہوگا۔ کیا مستقبل کی فکرمندی اُور زرعی خودکفالت و غذائی خودانحصاری سے زیادہ بہتر کوئی دوسری کارکردگی ہو سکتی ہے؟

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

شبیر حسین امام کی مزید تحریریں پڑھیے

(شبیر حسین امام سینئر صحافی ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

About The Author