اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اظہر کلیانی کی شاعری: تل وطنی کی تہذیبی شناخت||محمد الیاس کبیر

دیگر موضوعات کے علاوہ اس مجموعے میں کلہیپا(تنہائی)کو بالخصوص موضوع بنایا گیا ہے۔ تنہائی جو نہ صرف اس خطے کاایک بڑا حوالہ ہے بلکہ ہر نوآبادیاتی خطے کی شناحت بھی ہے۔مزیں برآں انھوں نے بے نظیر بھٹو، ا شو لال، تانگھ، گنجی والا بلوچ، لوبھ،سوکھا کم، پہلا درشن اور اسی قبیل کی بہت سی دوسری نظمیں اظہر کے فن پر گرفت کا واضح ثبوت ہیں۔

محمد الیاس کبیر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(محمد الیاس کبیر)
۔۔۔۔۔
بشکریہ محترمہ شائرین رانا
روزنامہ” بیٹھک” ملتان
9 مئی 2022ء
۔۔۔۔۔
کسی بھی خطے کے اکھوے اپنی زمین، اپنی زبان اوراپنے لوگوں سے پھوٹتے، پھلتے پھولتے اور پروان چڑھتے ہیں۔ یہیں سے اُس خطے کا مزاج متعین ہوکر کسی بڑی تخلیق کا حصہ بنتا ہے اور اس بات کو بھی قطعاً جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ تخلیق کار جب تک اپنی بھوئیں (دھرتی) کے ساتھ جڑت کو برقرار اور مستحکم نہیں رکھ سکتا یا اسے اپنے لیے حرزِ جان نہیں بنا تا تب تک تخلیق میں ہمیشگی کا رہنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوتا ہے اوراِس اعزاز و فضیلت کے حامل فقط چند ہی لوگ ہوتے ہیں۔ ان کے کلام میں پائے جانے والے متعدد دیگر فنی اور فکری تنوعات کے ساتھ یہ اختصاصی جہت بھی شامل ہوجائے تو کلام میں تاثیر کا در آنا لازمی امر ہے۔ اسی تناظر کو پیش نظر رکھ کر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ہزاروں سالہ روشن تاریخ کی گواہ وادیِ سندھ اس دولت سے مالا مال ہے۔ یہا ں کے تخلیق کاروں نے ہمیشہ اپنی زبان کو عزت دی جس کے نتیجے میں انھیں وقار اور اعتبار حاصل ہوا۔
اس سیاق کو مدنظر رکھ کر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اظہر کلیانی اس خطے کا ایک ایسا تخلیقی ضمیر ہے جس نے اپنی شاعری کو معتبر اور مؤقر بنانے کے لیے اپنی ماء بولی کا انتخاب کیا اور اس میں اُنھیں خاطرخواہ کامیابی حاصل ہوئی۔ وہ جدید سرائیکی شاعری کی رسمیات کو بخوبی سمجھتے ہوئے اس کے پاتال میں اترے اور اسے تخلیقی روپ دیا۔ انھوں نے اپنے تشکیلی دور کا آغاز نظم سے کیا۔اُن کے پیش نظر سرائیکی نظم کی بہت توانا روایت اشولال، رفعت عباس، ارشاد تونسوی، عزیز شاہد، احمد خان طارق،اقبال سوکڑی، عزیز شاہد اور اصغر گورمانی جیسے تخلیق کاروں کا سرمایہئ فن موجود تھا۔ ان تخلیقی ذہنوں کا بہ نظر غائر مطالعہ کیا، اپنے مشاہدے کا حصہ بنایا اور ان بڑے ناموں کی موجودگی میں اپنے لیے الگ راہ نکالی۔
اظہر کلیانی نے اپنے پہلے شعری مجموعے کو ’دراگٖوں کچنال‘ کا نام دیا اور اسے ۷۱۰۲ء میں خمیس یاتر ا ملتان کے اہتمام سے سرائیکی شاعری کے قارئین کے سامنے پیش کیا۔اس کتاب کا انتساب انھوں نے اپنے ماموں رحیم خان کلیانی (مرحوم) کے نام کیا ہے:
ہک خبر دے ناں
جیکوں سنْدیں ہوئیں
اساں ماء اپنیْ کوں کول بٖلہا
بٖہوں دیر تائیں پرچایا ہا
ہک قبر دے ناں
جیندی مٹی وچ
اساں اکھ اپنیْ کفنائی ہئی
اساں دل اپنْاں دفنایا ہا
ترجمہ: ایک خبر کے نام
جسے سنتے ہی
ہم نے اپنی ماں کو اپنے پاس بٹھایا
بہت دیر تک (اس سے) تعزیت کی
ایک قبر کے نام
جس کی مٹی میں
ہم نے اپنی آنکھ کو کفن پہنایا تھا
(اور) ہم نے اپنے دل کو دفنایا تھا
اس نظمیہ مجموعے کے خالق نے مقامیت کو بالخصوص کلیدی موضوع کے طور پر اپنایا ہے۔ یہ مقامیت ہر اُس تخلیق کار کا بنیادی وظیفہ ہے جس نے اپنی بھوئیں (زمین) سے تعلق کو اس طور نبھایا کہ اس کی تہذیبی اورثقافتی شناخت بن گئی۔اُن کی نظموں کی پڑھت سے بعض اوقات یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ کسی قدیمی فراق کا نوحہ لکھ رہا ہے اور یہ نوحہ تاریخی جبر کو دیکھ کر پروان چڑھا ہے۔ اظہر کے ہاں یہ مقامیت متنوع رنگوں سے جلوہ افروز ہے۔ فکر ِ معاش کے لیے شہر جانے والے نوجوان کے لیے ایک بزرگ کا نوحہ ایک ایسے پیرائے میں نظر آتا ہے جو شاید پہلے ہماری نظروں سے نہیں گزرا۔ اس کی ہر ہر سطر میں ایک دکھ اور مونجھ کی کیفیت دکھائی دیتی ہے۔ اس حوالے سے اظہر کی نظم ’میڈٖا پتر بٖڈھیپا اپیْ جا‘ کی چند سطریں ملاحظہ کیجیے کہ کس طرح کہنہ سال والد اپنے بیٹے کو شہر جانے اور وہاں کے مسائل کی نشاندہی اور اپنی لاچاری کا دکھ بھرے انداز میں بیان کررہاہے۔
میڈا پتر بڈھیپا اپنیْ جاہ
میڈی گال تاں بڈھڑی نیں تھی گئی
تیڈے شہر ونجنْ دے نال جیویں
ساڈی وستی نکڑی نیں تھی گئی؟
توں شہریں ونج ہڑتال کریں
پیا روز چھپیں اخباریں وچ
کیویں چوک اچ روٹی مل پوسی
کیویں غربت مکسی نعریں وچ
ترجمہ: (میرے بیٹے! بڑھاپا اپنی جگہ
(لیکن)میری بات تو بوڑھی نہیں ہوگئی
ہمیشہ جیتے رہو، تمہارے شہر جانے سے
ہماری بستی چھوٹی تو نہیں ہوگئی؟
تم شہر جا کرہڑتال کرو
(اور)روز اخباروں میں چھپتے رہو
چوک میں روزی کیسے ملے گی
(اور)نعروں کے ذریعے کیسے غربت ختم ہوگی)
نظم کے ابتدائی حصے میں کہنہ سال والد نے بیٹے کے سامنے شہر کی اہمیت سے انکار نہیں کیا لیکن اس کے ساتھ ہی اپنی بستی کو بھی کم اہم نہیں جانا۔ اسی نظم کے آخری حصے میں کہنہ سال والد اپنی بے بسی کو کس طرح بیان کر رہاہے۔ ایک ایسے المیے کی کیفیت ہے جس نے نظم کی تخلیق کے دوران بھی کرب کی کیفیت کو واضح کردیا ہے۔
توں شہریں ونج پکڑیج پوویں
اساں کوٹ کچہریاں کیا جانوْں
اساں دانےْ چھٹ کے ہوک پوندوں
اساں شہر دیاں چاڑھیاں کیا جانوْں
میڈا پتر بڈھیپا اپنیْ جاہ
میڈی گال ہمیشہ یاد رکہیں
ساڈے ہتھ ہن مال دے گھاہ جوگے
ساڈے پیر ہن کھوہ دے راہ جوگے
ترجمہ: (تم شہر جا کر گرفتار ہوجاؤ
ہم کورٹ کچہریوں کو نہیں جانتے
گندم کے دانے صاف کرتے ہوئے ہمارا سانس پھول جاتا ہے
ہم شہر کی چڑھائی کو نہیں جانتے
میرے بیٹے! بڑھا پا اپنی جگہ
میری بات ہمیشہ یاد رکھنا
ہمارے ہاتھ گھاس(کاٹنے) کے لیے ہیں
(اور) ہمارے پاؤں کھیت کی راہوں کے لیے ہیں
اظہر کلیانی کے سامنے روا یتی ڈھول ماہیے، مرثیے، کافی وغیرہ کی ایک مضبوط روایت موجود ہے اور اس پورے شعری تنوعات کا انھوں نے بخوبی مطالعہ بھی کیا ہے۔ اس کے علاوہ وہ اپنے خطے کی محرومیوں کے شکوہ کناں بھی نہیں رہے بلکہ اُنھوں نے جدید سرائیکی شاعری کی رمز کو بخوبی سمجھا اور متعدد دیگر موضوعات کے ساتھ عشق کو نئی معنویت اور مقامی آنکھ سے دیکھا۔ ان کے ہاں عشق کا تصور صوفیانہ شاعری کا ہم مزاج ہے لیکن یہاں پر بھی انھوں نے جدت آفرینی کا راستہ چنا اور یکسر مختلف بات کی۔ عشق کی وجدانی کیفیت کو نہ صرف اپنے اوپر طاری کیا بلکہ اسے مزید وسعت پذیر کرکے اپنے قاری کو بھی اس میں برابر شریک کیا۔ عشق کے حوالے سے اُن کی نظمیں ’عشق ابالہا، عشق ایہو منصور، کھنب عشق دے رنگلے ہن‘ جیسی نظمیں اظہر کے تخلیقی وجدان کی واضح گواہی ہیں۔ عشق کے حوالے سے ایک مثال دیکھیں:
عشق پوائے چولے ساکوں
عشق لہایاں جھنڈوں
آونْ والے کہیں موسم کوں
کر نہ سٖگوں کنڈوں
ترجمہ: عشق نے ہمیں چولے پہنائے
(اور) عشق نے (نوزائیدہ بچے کے) بال کٹوائے
آنے والے کسی موسم کو
(ہم نے) پس پشت نہیں ڈالا
اس مجموعے میں اظہر کلیانی نے ملتان شہر سے محبت اور اُس کی قدامت کا ذکر بھی کیا ہے اور اس کی خوش حالی اور حملہ آوروں کی یلغار کو بھی موضوع بنایا ہے۔ اس حوالے سے اُن کی نظم ’مولتان‘ ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ جس میں انھوں نے ملتان کی قدامت کا تذکرہ کرتے ہوئے یہاں کے درو دیوار کا مشاہدہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ انھوں نے یہاں کے لٹھے کبوتروں، نیلی اینٹوں اور ایک تاریخی کردار موہراں کا تذکرہ بھی کیا ہے جو محمد شاہ تغلق کے دورمیں ایک رقاصہ تھی اور جس نے ’ضیائی فرمان‘ سے انکار کرتے ہوئے اپنے گھر کی منڈیر پر چراغ جلایا تھا۔ جس کی پاداش میں اُسے تختہئ دار پر لٹکادیا گیا۔
دیگر موضوعات کے علاوہ اس مجموعے میں کلہیپا(تنہائی)کو بالخصوص موضوع بنایا گیا ہے۔ تنہائی جو نہ صرف اس خطے کاایک بڑا حوالہ ہے بلکہ ہر نوآبادیاتی خطے کی شناحت بھی ہے۔مزیں برآں انھوں نے بے نظیر بھٹو، ا شو لال، تانگھ، گنجی والا بلوچ، لوبھ،سوکھا کم، پہلا درشن اور اسی قبیل کی بہت سی دوسری نظمیں اظہر کے فن پر گرفت کا واضح ثبوت ہیں۔
’وسوں نال وساخ‘ اظہر کلیانی کا دوسرا مجموعہ ہے جو غزلوں پر مشتمل ہے۔اسے ۰۲۰۲ء میں سرائیکی ایریا سٹڈی سنٹر بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے اہتمام سے شایع ہونے والی کتاب کی پڑھت سے اندازہ ہوتا ہے کہ اظہر کے ہاں فکری اور تخلیقی انجماد نظر نہیں آتا بلکہ انھوں نے ’دراگوں کچنال‘ سے ایک جست اور بھری اور نئے موضوعات کو اپنی تخلیق کا حصہ بنایا۔ نظم کا شاعر جب غزل کی طرف آتا ہے تو اسے بہت سے اہتمامات کرنا پڑتے ہیں۔ بالخصوص نظم میں بات کرنے کی پوری آزادی ہوتی ہے جبکہ غزل میں کچھ ضابطوں کی پاسداری کرنا پڑتی ہے۔ جس کی تنگ دامنی کا غلہ غالب جیسے شاعر نے بھی کیا تھا۔ غزل چوں کہ فارسی شاعری کی ایک نمایاں صنف ہے جس نے فارسی داں طبقے کو حافظ شیرازی جیسا شاعر عطا کیا۔فارسی غزل جب اردو دنیا میں آئی تواپنے ساتھ لفظیات، تشبیہات و استعارات کا ایک وافر ذخیرہ لائی اور جسے خوب برتا گیا۔ لیکن جب یہی غزل سرائیکی میں نظر آئی تو اس نے روایتی اسلوب اور پامال لفظیات کو برتنے کی بجائے اس خطے کی لفظیات کو برتا۔
اظہر کلیانی نے نظم کی طرح جدید سرائیکی غزل میں اپنے تفرد کو برقرار رکھا اور اس میں اپنی شناخت قائم کی۔ اس مجموعے میں اس خطے پر ہونے والے نوآبادیاتی یلغار اور اس یلغار کے نتیجے میں جنم لینے والی مونجھ کوموضوع بنایا۔ انھوں نے اس مونجھ کو اپنی کمزوری نہیں بنایابلکہ مونجھ کی انتہائی کیفیت ’برھا‘ میں سے بھی خوشیوں کا ایک جہان دریافت کیا:
اساں اپنْیاں مونجھاں ساریاں پُھلیں اندر ورتیاں
اساں اپنیْ برھا وچوں در خوشیاں دا کھولیا
ترجمہ: ہم نے اپنی ساری مونجھ پھولوں کے اندر برتیں
(اور) ہم نے اپنی برھا (مونجھ کی انتہائی کیفیت) سے خوشیوں کا دروازہ کھولا
ایک اور جگہ پر مونجھ کواس طرح بیان کیا ہے:
اساں تیڈی مونجھ وچ جگ سونہاں کیتا ہا
ساڈٖے کولوں پچھ ناں وسارا کیویں تھیا ہا
ترجمہ:ہم نے تمہاری مونجھ میں ایک جہان کوشناسا کیا
(اگر) ہم سے پوچھو تو یہ بھول کیسے ہوئی تھی
ہمارے معاشرے میں انسان کی مادی ترقی نے ماحول کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا، فطرت کو تباہ و برباد کرنے کا سب سے بڑا ذمہ دار انسان خود ہے، آرنلڈ نے دہائیاں پہلے ہمیں خبردار کردیا مگر ہم نے عدم توجہی سے کام لیا اور آج ہمیں اس کے منفی اثرات سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے۔فطرت اور ماحولیات کے ساتھ محبت اور جڑت اس دھرتی کے تقریباً ہر تخلیق کارکی بنیادی شناخت ہے۔ اظہر کلیانی نے بھی اس شناخت کو برقرار رکھا اور اسے تخلیق کا روپ دیا۔
سندھو تیڈے پانیْاں اندر پکھڑو مارنْ کیتے
بٖیڑی دیوچ تولھے بدھ کیں تلنْ پئے گٖئی دنیا
٭٭٭
سندھو تیڈے پانیْاں اندر ساہ ساڈے دی بٖیڑی
جیونْ جوگی جھوک وچالے جھنبھرے جھگے بٖیلے
٭٭٭
دریا کیا ہے بٖیڑی کیا ہے کیا ہے میر مہاناں
پانیْ توں ودھ جینویں شالا تھیسی کوں سیانْاں
٭٭٭
ہک مرغابی پھٹڑ تھی کیں لڑھدیں پانْیاں آکھیا
سندھو تیڈی چھول چھپولی گولی تانیْ گھن آئی
اظہر کلیانی کی غزل میں مزاحمت ایک توانا آواز کی مانند سنائی دیتی ہے۔ یہ مزاحمت نہ صرف نوآبادیاتی جبرکے خلاف ہے بلکہ ہمہ قسم جبر کے خلاف نظر آتی ہے۔ ’وسوں نال وساخ‘ کے مطالعے سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جدید سرائیکی غزل مقامی آنکھ سے پورے جگ جہان کو دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور وہ بھی ایک نئے زاویہئ ہائے نگاہ سے۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ اظہر کی غزل نے جدید شاعری کومتعدد نئی جہتوں سے آشنا کیا ہے۔

اے وی پڑھو:

%d bloggers like this: