حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ دیر قبل ہمارے ایک عزیز دوست وسیم اختر ملک کہہ رہے تھے، "سازش تو ہوئی ہے اور وہ امریکہ نے کی ہے”۔ عرض کیا آپ کے محبوبِ دوراں نے گزشتہ سے پیوستہ روز بتایا ہے کہ ’’اپوزیشن میری حکومت گرانا چاہتی ہے یہ بات مجھے جولائی 2021ء میں معلوم تھی‘‘۔ اس کے بعد انہوں نے جی بھر کے تبرا کیا ہم پر اور کرتے بھی کیا اس کے سوا۔
ان دنوں یہ چلن عام ہے کہ جو مبینہ امریکی سازش والے بیانیہ کو نہیں مانتا وہ غدار ہے۔ شکر ہے کہ گزشتہ بیالیس برسوں سے کبھی حب الوطنی کی "عظمت” نے متاثر ہی نہیں کیا۔ غدار ہی اچھے ہیں۔
چلیں خیر ان باتوں کو رہنے دیں خان صاحب نے 20مئی کے بعد اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی کال دینے کا اعلان کیا ہے۔ 20مئی کے کتنے دن بعد یہ وہی بہتر بتاسکتے ہیں۔ کہتے ہیں میں چاہتا ہوں 20لاکھ لوگ اسلام آباد کی طرف مارچ کریں۔ انہوں نے شہباز گل کی گاڑی کو پیش آنے والے حادثے پر بھی کچھ باتیں کی ہیں لگتا ہے انہوں نے بھی حادثے کے فوراً بعد والی نہیں بلکہ دوسرے دن کی تصاویر دیکھی ہیں۔
ویسے خان کو لانگ مارچ کرنا ضرور چاہیے جو بھی کٹی کٹا ہے نکل ہی آئے اور ملک بھی امریکہ سے آزاد ہو۔ چلیں خان ان کی تحریک اور فدائین کے بیانات وغیرہ کو ایک آدھ دن کے لئے اٹھارکھتے ہیں۔
ویسے بھی اس تحریک اور بیانیہ کے خلاف لکھنے والے بقول ایک دوست خوب کمائیں گے ان کے منہ میں گھی شکر اللہ کرے کسی کم بخت کو ہم اور فقیر راحموں بھی دیکھائی دے جائیں تاکہ حیاتی کے آخری آخری سال (جتنے بھی ہیں) کچھ تو مزید اچھے بسر ہوجائیں۔
دوسری طرف کرپٹ اور نااہل حکومت کو گراکر اقتدارمیں آنے والی حکومت کے اب تک کے دور میں تیسری بار فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر فی یونٹ بجلی کی قیمت 2روپے 86پیسے بڑھادی گئی ہے۔ اگر تینوں بار ہوئے فیول ایڈجسٹمنٹ کو اسی حساب سے دیکھیں تو حکومت بجلی کے صارفین سے 96ارب روپے کا بھتہ وصول کرے گی۔
ساعت بھر کے لئے رکئے یہ بتانا تو یاد ہی نہیں رہا کہ خان نے میانوالی کے عظیم الشان جلسہ میں یہ دھمکی بھی دی ہے کہ اگر کسی نے میرے کسی کارکن کو ہاتھ لگایا تو اچھا نہیں ہوگا ویسے انہوں نے "تین سٹوجز اور ان کے ہینڈلرز کو دھمکی دی ہے”
ادھر پرویز خٹک نے نوشہرہ میں کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے انہیں ہدایت کی ہے کہ اگر کوئی مولوی جمعہ کے خطبہ میں اسلام سے ہٹ کر سیاسی باتیں کرے اور پی ٹی آئی کو تنقید کا نشانہ بنائے تو مسجد میں احتجاج کے ساتھ مولوی صاحب کو اٹھاکر باہر پھینک دیں۔
یہ کم بھی ٹھیک ہی ہوگیا۔ گلی گلی تماشے لگیں گے مولانا صاحبان ان کے ہمدرد اور انصافی لشکر آمنے سامنے ہوں گے۔ ارے ہاں قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے والے پی ٹی آئی کے ارکان کی جانب سے تنخواہیں لینے کی خبریں درست نہیں۔
اسمبلی سیکرٹریٹ کے مطابق مستعفی ہونے والے ارکان کو 10اپریل تک کی تنخواہیں بھجوائی گئی ہیں 10اپریل تک وہ رکن تھے تنخواہ ان کا حق تھا ویسے تو شیخ رشید، فواد چودھری اور راشد شفیق نے عدالتوں میں جمع کروائی اپنی درخواستوں میں خود کو رکن قومی اسمبلی قرار دیتے ہوئے سپیکر کی اجازت کے بغیر گرفتاری سے تحفظ چاہا شیخ اور فواد چودھری کی عبوری ضمانتیں اسی نکتہ پر منظور کی گئیں۔
حالانکہ فواد چودھری نے عدالتی ضمانت حاصل کرنے کے بعد اسی شام سوشل میڈیا پر اپنے بیان میں کہا تھا کہ پی ٹی آئی کے مستعفی ارکان کے استعفے "غیرت مند” ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے منظور کرلئے تھے۔ کٹھ پتلی سپیکر کے ڈراموں کو ہم نہیں مانتے۔
خیر ہے سیاست میں تھوڑی بہت غلط بیانی معمولی بات ہے۔ اطلاع یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے مذاکراتی وفد نے 10مئی کو پاکستان قدم رنجہ فرمانا ہے۔
6ارب ڈالر والے قرضہ پروگرام میں 2ارب ڈالر کے اضافے اورایک سال کی توسیع پر عالمی مالیاتی ادارے اور حکومت کے درمیان معاملات کو حتمی شکل دی جانی ہے۔
دوسری طرف سیاسی بے یقینی، مہنگائی اور دوسرے مسائل کے اثرات سٹاک مارکیٹ پر مرتب ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ 76ارب روپے سٹاک مارکیٹ میں ڈوب گئے ہیں۔ ڈالر ایک بار پھر 187روپے کا ہوگیا ہے۔
مہنگائی کی صورتحال بھی تسلی بخش بالکل نہیں۔ گزشتہ ساڑھے تین پونے چار سالوں کی طرح مہنگائی اب بھی بے لگام ہے۔ گزشتہ برسوں میں تو عوام کو یہ کہہ کر بہلالیا جاتا تھا کہ مہنگائی عالمی مسئلہ ہے۔ کسی وزیر کو بہت غصہ آتا تو یہ کہہ دیتا تھا کہ اپوزیشن والے اس مہنگائی کے پیچھے ہیں۔
اب ماضی کی اپوزیشن والے اقتدار میں ہیں مہنگائی کے پیچھے پتہ نہیں کون ہے لیکن مہنگائی ہر گزرنے والے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔
روزمرہ ضرورت کی اشیاء میں سے پیاز، آلو، لہسن اور ٹماٹر کی قیمت سب سے زیادہ بڑھی ہے۔ ٹماٹر کی قیمت ڈالر سے آگے ہے۔ برائلر مرغی کا گوشت لاہور میں 418 سے 470روپے کلو فروخت ہورہا ہے۔
پولٹری ایسوسی ایشن کے صدر کا دعویٰ ہے کہ ڈیمانڈ اور سپلائی میں فرق بڑھنے کی وجہ سے یہ صورتحال پیدا ہوئی لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ عید کی چھٹیوں سے قبل برائلر مرغی کے گوشت کی فی کلو قیمت 374روپے تھی عید کے بعد 418روپے مقرر کی گئی لیکن ’’لگی کے دائو‘‘ کے مطابق 420سے 470روپے تک فی کلو فروخت کیا جارہا ہے۔
روزمرہ ضرورت کی دوسری اشیاء کی قیمتیں بھی روزبروز بڑھ رہی ہیں۔ دوسرے صوبوں کے مقابلہ میں پنجاب میں مہنگائی اس لئے بھی بے لگام ہے کہ حکومت نام کی کسی چیز کا کوئی وجود نہیں۔
کہنے کو حمزہ شہباز وزیراعلیٰ بن چکے ہیں حلف بھی اٹھالیا لیکن روزمرہ کے امور پر کسی کی گرفت دیکھائی نہیں دیتی۔ دادوفریاد کا کوئی نظام نہیں ان حالات میں منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کی چاندی ہی چاندی ہے۔
صوبے میں حکومت کب مکمل ہوگی اس بارے فی الوقت کچھ کہنا مشکل ہے۔ عوام پریشان حال ہیں کہ وہ کس سے کہیں کہ اس مہنگائی پر قابو پایا جائے۔
عید سے قبل سستے داموں فروخت کئے جانے والے آٹے کے 20کلو والے تھیلے کی نئی قیمت 1300روپے وصول کی جارہی ہے جبکہ 10کلو والا تھیلا 650روپے میں فروخت ہورہا ہے۔
بے لگام مہنگائی کا سلسلہ کہاں جاکر رکے گا، رکے گا بھی یا نہیں؟ ہمزادہ فقیر راحموں کے بقول اشیائے ضروریہ کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے ستائے شہریوں کی حالت بہت پتلی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ کسی تاخیر کے بغیر صورتحال کا نوٹس لے،
ملک میں اس وقت جو عمومی صورتحال ہے اس میں دھماکہ خیز انٹری ایوان ہائے صنعت و تجارت کی وفاقی فیڈریشن ’’ایف پی سی سی آئی‘‘ نے ڈالی ہے۔ فیڈریشن نے وزیراعظم کے نام لکھے گئے خط میں معاشی ایمرجنسی لگانے کامطالبہ کرتے ہوئے شرح سود میں کمی کے ساتھ بجلی اور پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی بھی ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ خط ایسے وقت میں لکھا گیا جب چند دن قبل آئی ایم ایف کے وفد نے اسلام آباد پہنچ کر حکومت کے ساتھ ساتویں جائزہ کے حوالے سے مذاکرات کرنے ہیں۔ سادہ لفظوں میں اگر ایف پی سی سی آئی کے خط کا ترجمہ کیا جائے تو اس خط میں 90فیصد باتیں وہی ہیں جو آئی ایم ایف کی شرائط میں شامل ہیں۔ 10فیصد وہ ہیں جو سرمایہ دار اور بڑے کاروباری طبقوں کے مفاد میں ہیں۔
صنعت کاروں اور کاروباری طبقوں نے جن لوگوں سے کمانا ہے یعنی عوام الناس، ان کے بارے میں کوئی بات نہیں بلکہ انہیں دی جانے والی سبسڈی ختم کرنے کو کہا گیا ہے۔
فقیر راحموں نے کل ایک دلچسپ بات کہی وہ یہ کہ موجودہ حکومت تو یہ بھی نہیں کہہ سکتی کہ یہ سارے مسائل پچھلی حکومت کی پالیسیوں کا نتیجہ ہیں۔ وہ کیوں، دریافت کرنے پر بولے شاہ جی، کیا ضرورت پڑی تھی آبیل مجھے مار کی دعوت دینے کی کرنے دیتے خان کو حکومت، زیادہ سے زیادہ کیا ہوتا، دیوالیہ؟ اب بھی تو تیزی سے اس کی طرف ہی بڑھ رہے ہیں۔ دوسروں کی بلا گلے ڈالنے کی ضرورت کیا تھی؟۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ