نومبر 14, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

’’محبوبِ دوراں‘‘ کی سیاست کا نیا دور||حیدر جاوید سید

بنیادی سوال یہ ہے کہ بھاری بھرکم قرضے لے کر کیا کیا گیا؟ چرب زبانی، الزام تراشی اور دھول اڑانے میں پونے چار سال برباد کرنے والوں کو کم از کم اس سوال کا جواب ضرور دینا چاہیے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سوشل میڈیا پر جنگ کا سماں ہے دو تین دن قبل تک حب الرتنی کے بھانڈے کھڑکانے والے جو کچھ لکھ رہے ہیں نقل نہیں کیا جاسکتا۔ بیرون ملک مقیم انصافی مجاہدین نے چند ویڈیوز سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی ہیں ایک میں تین افراد اپنا پاکستانی پاسپورٹ جلارہے ہیں، دوسری میں ایک شخص جھنڈا جلارہا ہے۔ کل تک جو ملٹری اسٹیبلشمنٹ محبوب و محترم تھی اب نعرہ ’’کھا‘‘ رہی ہے۔
سیاسی شعور گیا تیل لینے۔ نظریاتی سیاست کی جگہ شخصیت پرستی لے لے تو یہی کچھ ہوتا ہے جو ان دنوں ہورہا ہے۔ کمرشل لبرلز اور کمرشل ترقی پسندوں کی حالت دیکھنے والی ہے۔ مرگ بر امریکہ والے گروپ کا ایک دھڑا تو باقاعدہ توہین مقدسات پر اترا ہوا ہے۔ تماشے ابھی اور لگیں گے۔
اسی درمیان لاہور سے چند گرفتاریوں کی اطلاع ملی۔ ایف آئی اے حکام کے مطابق سبزہ زار کے علاقے سے گرفتار ہونے والے شخص کے سوشل میڈیا اکائونٹس سے نفرت انگیز مہم چلائی جارہی تھی۔
گرفتار شدگان اور ان کے ورثا کو شکر ادا کرنا چاہیے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے چند دن قبل ان کے محبوب دوراں والا پیکا آرڈیننس غیرقانونی قرا دے دیا تھا وہ آرڈیننس موجود ہوتا تو لمبی سزائیں اور جرمانے تھے۔
جناب عمران خان کی حمایت جرم ہے نہ ان کی مخالفت کفر۔ فقط یہی نہیں بلکہ کسی بھی سیاسی رہنما اور جماعت کی حمایت و مخالفت کو بھی اس تناظر میں دیکھنے سمجھنے کی ضرورت نہیں۔ سیاسی جماعتیں حصول اقتدار کے لئے ہی بنتی ہیں۔
دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ کس جماعت کا منشور کیا ہے اور اس منشور میں عوام کے لئے کیا ہے۔
جناب عمران خان اقتدار میں آئے تو اس ملک کے لوگ فی کس ایک لاکھ اور ساٹھ ہزار روپے کے مقروض تھے وہ اسے سابق حکمرانوں کی بداعمالیوں کا نتیجہ قرار دیا کرتے تھے۔ وہ رخصت ہوئے فی کس قرضہ کتنا یہ لکھنے کی ضرورت نہیں۔
کیا فرق پڑتا ہے لیکن یہ تلخ حقیقت ہے کہ ستر پچھتر سالوں میں جتنا فی کس قرضہ چڑھا عالی جناب کے دور میں اس میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ لیاقت علی خان سے (ن) لیگ کے دور اقتدار کے خاتمے 2018ء تک ماضی کی تمام حکومتوں نے مل کر 30ہزار ارب روپے کا قرضہ لیا تھا محبوب دوراں نے ساڑھے تین پونے چار سالوں میں 25ہزار ارب روپے کا قرضہ لیا۔
ان کے ترجمان ہمیں سمجھاتے رہے کہ یہ قرضے بہ امر مجبوری لئے گئے۔ پچھلے حکمران چور اچکے ڈاکو تھے۔ آنکھیں بند کرکے اپنے اپنے لیڈروں کے فرمودات پر ایمان لانے والوں کی اس ملک میں کمی نہیں اور ’’منکرین‘‘ وہ بھی بے حساب ہیں۔
آج کی تازہ خبر یہ ہے کہ لاہور کے ایک جیولر کو 16کروڑ روپے میں ایک ہار فروخت کیا گیا۔ ایف آئی اے کے مطابق یہ ہار قانونی طور پر نصف قیمت کی بجائے چند لاکھ کے عوض توشہ خانہ سے لیا گیا۔ زلفی بخاری نے اسے لاہور کے ایک جیولر کو فروخت کیا تھا۔ سادھو سنتوں کے دور کی یہ پہلی کہانی ہے۔ ’’ہمیں‘‘ ماننے کی ضرورت نہیں۔ آسان لفظ "سیاسی انتقام اور کردار کشی” ہے۔ معاملات مگر اتنے سادہ بھی نہیں ہیں
بنیادی سوال یہ ہے کہ بھاری بھرکم قرضے لے کر کیا کیا گیا؟ چرب زبانی، الزام تراشی اور دھول اڑانے میں پونے چار سال برباد کرنے والوں کو کم از کم اس سوال کا جواب ضرور دینا چاہیے۔

محبوب دوراں نے اپنی کابینہ میں چُن چُن کر ’’دانے بینے‘‘ جمع کئے تھے۔ وہی انہیں اس مقام پر لاکھڑا کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ کاش انہوں نے بدزبانوں کا کا لشکر جمع کرنے کی بجائے تین سو ماہرین کی اس ٹیم سے کام لیا ہوتا جس کی موجودگی کی خبر دے کر کہا کرتے ہیں ’’فکر کی کوئی بات نہیں ہمارے پاس تین سو ماہرین کی ایک ٹیم ہے وہ نوے دن میں ملک کی گاڑی کو صحیح سمت پر ڈال دے گی‘‘۔
نوے دن کی بجائے تین سال سات ماہ بائیس دن اور آٹھ گھنٹوں کے دور اقتدار میں گاڑی صحیح سمت پر کیا ڈالتے سمت ہی گم کربیٹھے۔
ان کالموں اور دیگر تحریروں میں محبوب دوراں کو متوجہ کرتا رہا کہ حضور جس قماش کے مردوزن جمع کرکے کچھ ٹی وی چینلوں اور سوشل میڈیا پر بیٹھادیئے ہیں یہ عصری علوم ، سیاست اور اخلاقیات سے عاری ہیں ماسوائے گالی اچھالنے کے اس لشکر کو کچھ نہیں آتا۔ یہ نفع کی بجائے خسارے کا سودا ہے۔ اب حساب کا دفتر کھلنے کو ہے کہ اس لشکر کو بھاری بھرکم تنخواہیں کس ’’فنڈ‘‘ سے ملتی تھیں۔
محبوب دوراں اب بھی اڑن کھٹولے پر سوار ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ امریکہ مخالفت کا سودا ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوگا۔ ہماری اب بھی یہ رائے ہے کہ پالے پوسے ترجمانوں کے لشکر کمرشل لبرلز اور کمرشل ترقی پسند انہیں مزید مشکلات سے دوچار کرکے پتلی گلی سے نکل جائیں گے۔
گزشتہ روز کہہ رہے تھے "مجھے کچھ ساتھیوں اور اتحادیوں نے مایوس کیا۔ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ آپ نے خود کو خود ہی مایوس کیا” ،
حضور آپ نے نظریاتی سیاست کے دعوے کئے اور سارے جہاں کے بھتہ خور جمع کرلئے۔ بعض ریاستی محکموں کے سیاسی کردار پر بڑھ چڑھ کر تنقید فرماتے رہے پھر انہی کے کاندھوں پر سوار ہوکر اقتدار میں آئے۔ آئی ایم ایف میں جانے پر خودکشی کو ترجیح دینے کا اعلان کرتے تھے ایک نہیں دو بار آئی ایم ایف کے پاس گئے۔ ڈالر کی قیمت میں اضافے کی خبر آپ کو ٹی وی دیکھ کر ملتی تھی۔
مہنگائی کا تقابلی جائزہ پیش کرتے ہوئے آپ بھول جاتے تھے کہ امریکہ، برطانیہ، یورپی یونین کے ممالک اور خلیجی ممالک میں فی کس آمدنی کی شرح کیا ہے۔
تبدیلی کے نام پر آپ نے نفرت کی فصل بوئی اور خود کو عقل کے "ہمالیاتی تخت” پر برجمان کرلیا۔ سیاسی عمل میں کامیابیوں کو برقرار رکھنے کے لئے خوداحتسابی لازمی ہے لیکن آپ تو احتساب ذات سے ماورا شخصیت بن بیٹھے۔
ساتھیوں کے انتخاب میں غلطی کی بھلا شیخ رشید احمد جیسا بندہ جس کا سیاسی انتخاب ہو اس پر ترس کیوں کھایا جائے۔ غلام سرور خان، شہباز گل کتنے ہی اور ہیں۔ شہریار آفریدی جس کے بھتیجے بلال آفریدی کو چچا کے دور وزارت میں چرس سمگل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ تیین دنوں میں بارہ کلو چرس رکھنے والا کیسے رہا ہوا؟
رانا ثناء اللہ ایک سے زائد سچے کیسوں میں گرفتار ہوسکتا تھا مگر منشیات کے جھوٹے مقدمے میں اسے گرفتار کروانا جناب کی تسکینِ انا کا سامان تھا۔
ادویات سکینڈل کے ذمہ دار عامر کیانی کو وزارت سے نکالا پھر پارٹی کا سیکرٹری جنرل بنادیا۔ کون کون سی غلطی یاد دلائی جائے۔

معاف کیجئے گا محبوب دوراں آپ تو غلطی کر ہی نہیں سکتے۔ آپ کے دور میں 2کروڑ لوگ خط غربت سے نچلی سطح کی کھائیوں میں اترے۔ 105روپے والا ڈالر 189 روپے تک گیا۔ 150روپے والا گھی 500روپے پر پہنچا۔ 35روپے کلو والا آٹا 85روپے کلو تک ہوا۔ دیگر اشیاء کا بھی یہی حال ہے۔
آپ نے ارشاد فرمایا میں کوئی آلو پیاز کی قیمت معلوم کرنے کے لئے نہیں آیا میں تو قوم بنانے آیا تھا۔ معاف کیجئے گا پھر قوم بنالی آپ نے؟
جان کی امان ہو تو عرض کروں ایک نیا فرقہ ضرور بنالیا آپ نے، بات بات پر دوسرے کو گالی دینے، غدار اور دشمن اسلام قرار دینے والا فرقہ۔ مگر محبوب دوراں یہ نیا فرقہ دو کیا ایک موسم کی سختیاں بھی نہیں سہہ پائے گا۔ گرم دوپہر کے احتجاج میں اس نے پگھل جانا ہے۔
ساڑھے تین پونے چار سال بہت بھاشن سنالئے آپ نے۔ ’’صاحب نے کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑتے رہے‘‘ والی صورتحال ہے۔
جس طرز سیاست کو آپ نے رواج دیا اس نے سماجی اخلاقیات کو برباد کرکے رکھ دیا۔ سیاسی اختلافات کو نفرت میں بد لنے پر آپ کو نوبل پرائز ملنا چاہیے۔
بہت ادب سے کہوں وقت نکالئے، خوشامدیوں کو چند دن کی رخصت دیجئے اور اپنی ناکامیوں پر ٹھنڈے دل سے غور کیجئے۔ دوستوں سے مشورہ کا اس لئے نہیں کہا کہ آپ کسی کے دوست بنے ہی نہیں جو جتنا استعمال ہوا اتنا دوست تھا پھر پھینک دیا۔ سیاست کیجئے یہ آپ کا حق ہے
البتہ یاد رکھنے و الی بات یہ ہے کہ ڈیڑھ کروڑ کی آبادی والے شہر میں 30ہزار مردوزن یا پونے تین کروڑ کی آبادی کے شہر میں 20سے 22ہزار مردوزن عشا کے بعد نکل آئیں تو یہ انقلاب کی دستک نہیں ہے ، انقلاب قربانی مانگتا ہے۔ قربانی کون دے گا؟ اس سوال پر غور کرنے کی زحمت کیجئے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author