مئی 10, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

وزیر اعظم کا دورہ کراچی||ظہور دھریجہ

کراچی کے گھروں میں اکثر سرائیکی وسیب کی خواتین کام کرتی ہیں ۔ کام کرنے والی خواتین کی عمریں چھ سال کی بچی سے لیکر 60 سال کی بوڑھی تک ہوتی ہیں ۔ وہاں پر ان کو ماسی کہا جاتاہے ۔ یہ بھی ایک ستم دیکھئے کہماسی ماں کی بہن کو کہتے ہیں اور یہ مقدس ترین رشتہ ہے جو کہ نوکرانی کے معنوں میں تبدیل ہو گیا ہے ۔

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کراچی کے دورہ کے دوران وزیر اعظم شہباز شریف نے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو یقین دلایا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے ان کے ساتھ ہر ممکن تعاون کیا جائے گا۔ وزیر اعظم کی سوچ مثبت ہے کہ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی شہر ہے ، قومی خزانے کو سب سے زیادہ ریونیو دیتا ہے اور کراچی کو منی پاکستان اس بناء پر کہا جاتا ہے کہ اس میں پاکستان بھر سے تمام زبانیں بولنے والے لوگ رہتے ہیں۔
وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ مزار قائد پر مہمانوں کی کتاب میں لکھا کہ ’’اے قائد! 74سالوں میں ہماری جو کارکردگی رہی اس سے آپ کی روح کو تسکین نہیں پہنچی ہو گی لیکن ہم کوشش کریں گے کہ آپ کی پیروی کریں اور پاکستان کو آپ کے خواب کے مطابق بنائیں‘‘۔
اچھی بات ہے کہ وزیر اعظم کو اس بات کا احساس ہے کہ قائد اعظم کی روح خوش نہیں ، سچی اور حقیقی بات تو یہ ہے کہ قائد اعظم کی روح تو اس وقت تڑپ گئی ہو گی جب پاکستان دو لخت ہوا ہوا اور قائد اعظم کی روح کو یقینا اس بات کا بھی صدمہ ہوگا کہ پاکستان کے بہت سے علاقے محرومی اور پسماندگی میں بہت پیچھے چلے گئے اور پاکستان کے کروڑوں افراد آج بھی خط غربت سے نیچے زندگی گزار نے پر مجبور ہیں۔ قائد اعظم کی روح کو اس بات کا بھی افسوس ہوگا کہ منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے اور یہ بھی کہ کیسے کیسے ایسے ویسے ہو گئے اور ایسے ویسے کیسے کیسے ہو گئے۔
کراچی کے مسائل کے سلسلہ میں تمام سٹیک ہولڈرز کو سوچنا ہوگا اور جو لوگ کراچی میں پیدا ہوئے وہ خود کو مہاجر نہ کہلوائیں کہ مہاجر کوئی قوم نہیں۔ کراچی کی تاریخی حیثیت بارے بتاتا چلوں کہ کراچی ڈویژن پانچ اضلاع پر مشتمل ہے ، کراچی غربی ، کراچی شرقی ، کراچی جنوبی، کراچی وسطی اور ضلع ملیر، کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور صوبہ سندھ کا دارالحکومت ہے ، آبادی تقریباً دو کروڑ کے لگ بھگ ہے، بندرگاہ اور بین الاقوامی ہوائی اڈے کا حامل یہ قدیم شہر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سکندر اعظم کا بحری بیڑا یہاں پہنچا تو یہ ‘‘کروکالا‘‘ کہلاتا تھا۔
 اصل میں یہاں کارک نامی ایک گائوں آباد تھا جو دریائے کے کنارے موجودہ کراچی سے سولہ میل کے فاصلے پر تھا۔ کراچی کی بندرگاہ ریت سے اٹ گئی تھی تو وہاں کے باشندوں نے سیٹھ بھوجومل کی سرکردگی میں کسی دوسری جگہ کی تلاش شروع کر دی ، چنانچہ انہیں کلاچی جو گوٹھ کے نام سے نئی جگہ مل گئی یہ بستی مائی کلاچی کے نام سے تھی ۔ مائی کلاچی روڈ اب بھی موجود ہے ، یہ روایت بھی ہے کہ یہ سرائیکی بولنے والے تھے ۔جسے عرب جہازراں ’’کراشی‘‘ بولتے تھے اس گائوں نے بعد ازاں کراچی کا نام اختیار کر لیا۔
تالپور خاندان کے دور اقتدار (1795-1839ئ) میں اس نے خاصی ترقی کی ۔ 1843ء میں انگریزیوں نے اس پر قبضہ کر لیا، سرچارلس نیپڑ نے اپنا صدر مقام حیدر آباد سے یہاں منتقل کر دیا۔ اس زمانے میں بندر گاہ اور فوجی اسٹیشن کی حیثیت سے اس نے نمایاں ترقی کی۔ جب 1936ء میں سندھ بمبئی سے الگ صوبہ بنا تو کراچی صوبے کا صدر مقام قرار پایا ۔ 1947ء میں قیام پاکستان کے وقت اسے پاکستان کا دارالحکومت بنایا گیا، اس وقت یہاں کی آبادی دو لاکھ کے قریب تھی اور بندرگاہ بھی بڑی نہ تھی لیکن قیام پاکستان کے بعد ہندوستان کے مسلم اقلیتی صوبوں سے آنے والے مہاجرین کی وجہ سے آبادی بڑھی۔ آبادی کا دوسرا بہائو پانچویں اور چھٹی دہائی میں آیا جب اس کے نواح میں صنعتی علاقے اور بڑے کارخانے قائم ہونے لگے ۔ حصول روزگار کی تلاش میں سرحد اور پنجاب کے لوگ آنے لگے ، کپڑے کے کارخانوں، تعمیرات اور ٹرانسپورٹ کے کاموں میں ان کی کھپت ہونے لگے۔
پنجابیوں اور پٹھانوں نے اپنی بستیاں بنالیں ،سندھی یہاں قیام پاکستان سے پہلے بھی آباد تھے اور اندرون سندھ سے مزید آ گئے۔ اس طرح شہر میں مختلف نسلوں کے مختلف زبانیں بولنے والے لوگ بکثرت اپنی اپنی ثقافتی روایات کے ساتھ آباد ہو گئے لیکن ان میں سوائے روزگار اور مذہب کے ،تمدنی اور تہذیبی ہم آہنگی اور اتحاد کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ 1963ء میں جب اسلام آباد کو دارلحکومت بنایا گیا تب بھی کراچی کی رونق میں فرق نہ آیابلکہ آبادی میں برابر اضافہ ہوتا رہا۔ 1991ء تک کراچی کی آبادی 80لاکھ تک پہنچی، نئی مردم شماری کی صورت میں آبادی دو کروڑ سے زائد ثابت ہو گی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کراچی میں سب سے زیادہ آبادی سرائیکی بولنے والوں کی ہے ، سرائیکی پورے کراچی میں رہتے ہیں مگر وہ نہ تو بستیاں بنا سکے اور نہ ہی اپنے کمرشل ایریاز، کچھ لوگ کرائے کے مکانوں میں رہتے ہیں ، زیادہ جھگیوں میں رہتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کراچی میں سرائیکیوں کو کبھی سرائیکی گینگ کا نام دے کر قتل کر دیا جاتا ہے ،کبھی گھروں میں کام کرنے والی بچیوں اور خواتین پر تشدد کیا جاتا ہے ، کراچی میں یہ آئے روز کے واقعات ہیں ، کراچی میں حصول روزگار کیلئے سرائیکی لاکھوں کی تعداد میں مقیم ہیں ۔
کراچی کے گھروں میں اکثر سرائیکی وسیب کی خواتین کام کرتی ہیں ۔ کام کرنے والی خواتین کی عمریں چھ سال کی بچی سے لیکر 60 سال کی بوڑھی تک ہوتی ہیں ۔ وہاں پر ان کو ماسی کہا جاتاہے ۔ یہ بھی ایک ستم دیکھئے کہماسی ماں کی بہن کو کہتے ہیں اور یہ مقدس ترین رشتہ ہے جو کہ نوکرانی کے معنوں میں تبدیل ہو گیا ہے ۔ دنیا کی کسی لغت میں ماسی کا مطلب نوکرانی نہیں ہے مگر کراچی میں کام کرنے والی خواتین کی بہتات کی وجہ سے چھ سال کی بچی بھی ماسی ہے اور ساٹھ سال کی بوڑھی بھی ۔ ایک ستم یہ بھی ہے کہ جیسے مختلف شہروں میں مزدوروں کے اڈے ہوتے ہیں،اسی طرح کراچی میں نوکرانیوں کے ماسی بازار ہیں ،جہاں سے گھروں میں کام کرنے والی خواتین ملتی ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ سرائیکی وسیب میں وسائل کی کوئی کمی نہیں ، افرادی قوت بھی وافر مقدار میں موجود ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ وسیب میں ٹیکس فری انڈسٹریل زون قائم کئے جائیں اور وسیب کے لوگوں کو وفاق پاکستان میں صوبہ دیا جائے تاکہ وسیب کے لوگ اپنے وسیب کے لوگوں کو روزگار کے مواقع مہیا کر سکیں اور ان انہیں کراچی ہجرت پر مجبور نہ ہونا پڑے۔

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: