مئی 16, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سچ آکھیاں بھانبڑ مچدا اے ||حیدر جاوید سید

ضامن جو محافظ بھی ہو اس کا ہی گلہ دبادیا جائے تو نتیجہ کیا نکلے گا۔ چند لمحے نکال کر ٹھنڈے دل سے بس اس ایک نکتہ پر غور کرلیجئے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جس بنیادی سوال کو مجاہدین بنی گالہ شریف نظرانداز کرکے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی پڑھی گئی رولنگ کو حرف آخر قرار دے رہے ہیں وہ یہ ہے کہ کیا جس نکتہ پر رولنگ دی گئی ’’تحریک عدم اعتماد غیرملکی سازش کا حصہ ہے‘‘ اس کی تحقیقات کہیں ہوئی تھی ۔ ہوئی ، تو کیا اقدامات اٹھانے کا فیصلہ ہوا۔ اقدامات اٹھائے گئے؟
عمران خان ان کے حامی کارکن اور قانون دانوں کے ساتھ امریکہ مخالفت کی موسمی بیماری میں مبتلا کمرشل ترقی پسند اور کمرشل لبڑل سبھی کے ’’درد‘‘ میں افاقہ ہوسکتا ہے اگر وہ نیشنل سکیورٹی کونسل کے اجلاس کے بعد جاری ہونے والے پریس ریلیز کا کسی سیانے بندے سے ترجمہ کرواکر پڑھ لیں۔ اس پریس ریلیز میں عدم اعتماد اور دھمکی کا کہاں ذکر ہے؟
سپریم کورٹ میں اتوار کی سپہر ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران بھی عدالت نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 5کے تحت دی گئی سپیکر کی رولنگ جس معاملے پر ہے کیا وہ نماٹایا گیا تھا؟ یعنی تحقیقات ہوئیں، ذمہ داروں کا تعین ہوا ، کارروائی کیا ہوئی؟ یہ سب نہیں ہوا تو رولنگ کو دیکھنا پڑے گا۔
بجا کہ سپیکر کی رولنگ اور اسمبلی کی کارروائی چیلنج نہیں ہوسکتے مگر یہاں اصل سوال یہ ہے کہ کارروائی آئین کے آرٹیکل 195 پر عمل تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ تک محدود کیوں نہ رہی۔
ڈپٹی سپیکر نے کیسے وقفہ سوالات کا کہہ کر فواد چودھری کو فلور دیا؟ فواد چودھری نے سوال کیا، سپیکر نے جھٹ منگنی پٹ بیاہ کے مصداق رولنگ پڑھ دی۔ تحریک عدم اعتماد مسترد، اجلاس ملتوی۔ جبکہ اصولی طور پر اپوزیشن لیڈر کو جواب دینے کیلئے فلور دیا جانا چاہئے تھا
اگلے چند منٹوں میں وزیراعظم نے اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری صدر کو بھجوادی۔ صدر مملکت نے اسمبلی تحلیل کرنے کا حکم نامہ جاری کردیا۔ یوں قومی اسمبلی اور وفاقی حکومت تحلیل ہوگئے۔ اسی دوران عمران خان نے خطاب بھی پھڑکالیا۔
یہ سب چند منٹوں میں ہوا۔ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ یہ سارا عمل پہلے سے طے شدہ منصوبے کے مطابق ہوا۔ ایک کاغذ فواد چودھری نے پڑھا۔ ایک کاغذ کی تحریر ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے اور کھیل ختم۔
معاف کیجئے گا معاملہ اتنا سادہ اور آئین کے مطابق نہیں ہے۔ معاملہ اب عدالت میں ہے عدالت کیا فیصلہ کرتی ہے اس کا انتظار واجب ہے۔
مگر قومی اسمبلی کی کارروائی اور ہونے والے تماشے پر سوالات کو روکا نہیں جاسکتا۔ آئین کا آرٹیکل 195جس امر کا متقاضی ہے وہ کام کیوں نہ ہوا؟ تحریک عدم اعتماد جمع ہوئی، اور ایوان میں پیش ہوکر بحث و ووٹنگ کیلئے منظور بھی حالانکہ یہ کام تاخیر سے ہوا۔ مختصر بحث بھی نہیں ہوپائی اور اجلاس اتوار 3اپریل گیارہ بجے تک کے لئے ملتوی کردیا گیا۔
اتوار کے اجلاس میں صرف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونا تھی۔ اسپیکر اس کے علاوہ کوئی نکتہ اور معاملہ ایوان میں پیش کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے تھے۔ چلیں مان لیا اسپیکر کی رولنگ درست تھی۔ اب بتایئے 7مارچ سے 3اپریل کے دوران وزیراعظم کے عائد کردہ سنگین الزامات سازش و دھمکی دونوں کی تحقیقات کس نے اور کہاں کیں۔ تحقیقات ہوئیں تو کیا متاثرہ فریق یا یوں کہہ لیجئے اپوزیشن جس پر غیرملکی سازش کا مہرہ ہونے کا الزام ہے اسے اپنا موقف پیش کرنے کا موقع دیا گیا۔ صفائی و بحث کے بعد کیا فیصلہ ہوا؟
اتوار کو قومی اسمبلی کو خالہ کا آنگن اور ماموں جان کی عدالت بناکر جو کچھ ہوا وہ دستور اور جمہوریت پر خودکش حملہ ہی قرار پائے گا ، امریکہ کی درشنی فیشنی مخالفت کے شوقین کمرشل ترقی پسند اور بھاڑے کے لبڑل ہوں یا وہ طبقہ جس کے ’’بڑوں‘‘ کی روزی روٹی مردہ باد امریکہ سے چلتی ہے اہمیت نہیں رکھتے۔ اہم فقط دستور ہے ،
وزیراعظم کا الزام اس وقت تک یکطرفہ ہے جب تک اس کی کہیں تحقیقات نہ ہوں۔ معاف کیجئے گا پورے نظام کو باندھ کر بند گلی میں پھینک دیا گیا ہے۔ غدار غدار کھیلنے کی بجائے غداری ثابت کرنا ہوگی۔
محض عمران خان کا یہ کہہ دینا کافی نہیں ہے کہ میرے خلاف امریکہ نے سازش کی، اپوزیشن اس سازش کا حصہ ہے پھر اس پر خودساختہ تشریحات و فیصلوں کی عمارت کھڑی کرلینا کسی بھی طرح درست نہیں اور اگر یہ درست ہے تو یہ پھر اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اس سارے منصوبے جس پر اتوار کو حکومتی گروپ نے چند منٹوں میں عمل کیا یہ منصوبہ اسرائیل میں بنا اور نریندر مودی کی معرفت پاکستان پہنچا تو کیا کسی تحقیقات کے بغیر اس الزام کو اسی طرح درست مان لیا جائے گا جو عمران خان 27مارچ سے اچھال رہے ہیں؟
ایسا نہیں ہے صاحب، یہ بہت حساس معاملہ ہے۔ دھمکی آمیز خط کی حقیقت پر اس کالم میں تفصیل کے ساتھ عرض کرچکا ہوں۔ اب اس ضمن میں جو نئی بات سامنے آرہی ہے وہ یہ ہے کہ پاکستانی سفیر کو امریکی دفتر خارجہ میں بلاکر وزیراعظم کے روس یوکرائن تنازع پر دیئے گئے چند بیانات اور تقریر پر ناپسندیدگی ظاہر کی گئی تھی ،
اتوار کو جو ہوا اس کا پس منظر تو یہ ہے کہ لاکھ ہاتھ پائوں مارنے اور وزارت داخلہ کے ماتحت محکموں کے ذریعے خوف و ہراس پھیلانے کے باوجود حکومت اکثریت کھوچکی تھی۔

2اپریل کی شام وزیراعظم کی طرف سے دیئے گئے عشائیہ میں جس استعفیٰ تحریک کا آغاز ہوا اس پر 123 ارکان نے لبیک کہا۔ عشائیہ میں 136ارکان تھے۔ حکومت کا دعویٰ 142 سے 145تک کا ہے۔ ہم حکومت کا 145کا دعویٰ مان لیتے ہیں اسستعفوں پر 123ارکان نے دستخط کردیئے۔
یہاں سوال یہ ہے کہ عشائیہ میں موجود دوسرے 22ارکان نے استعفوں پر دستخط کرنے سے کیوں انکار کیا؟
اس ایک پہلو پر آپ کو توجہ دلانے کا مقصد یہ ہے کہ سابق حکمران گروپ "الہامی” ہدایات آگے نہیں بڑھارہا۔
اچھا امریکی سازش کا مہرہ بنی اپوزیشن تو حکومت گرانا چاہتی تھی پھر آپ نے اپنے ہاتھوں اپنی حکومت کیوں گرادی؟ اس سوال کا سادہ سا جواب موجود ہے مگر طبع نازک پر گراں گزرے گا۔
سپیکر کی متنازعہ رولنگ کا مطلب یہ ہے کہ ایوان میں اس وقت تحریک عدم اعتماد کے حق میں ووٹ دینے کے لئے موجود 179ارکان ( اپوزیشن کے دعویٰ کے مطابق ) اسمبلی غدار ہیں صرف یہی نہیں ان کی جماعتیں بھی امریکی سازش کا مہرہ بن کر غداری کی مرتکب ہوئیں۔ کمال نہیں ہوگیا یہ، غدار اکثریت کا سلسلہ کیا یہیں رک جائے گا؟
اس سوال پر غور ضرور کیجئے۔

آئین کے آرٹیکل 5کے استعمال پر خود معزز جج صاحبان تشویش ظاہر کرچکے۔ ازخود نوٹس کی بنیادی وجہ آرٹیکل 5کے تحت دی گئی رولنگ ہے یہی سمجھنے والی بات ہے۔ کوئی نہیں سمجھنا چاہتا تو اس کی مرضی۔ ویسے بھی ہم (یعنی ہم سب) کتابوں میں لکھے کی بجائے پسندیدہ بندوں کے فرمائے پر ایمان رکھتے ہیں۔
مجھے تو یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ دستور سے کھلواڑ ہوا اور اس کھلواڑ میں دوسرا مرکزی کردار اس شخص نے ادا کیا جو جعلی ووٹوں سے رکن اسمبلی بننے پر نااہل ہوا اور پھر ایک حکم امتناعی کے سہارے مسلط ہوگیا۔ حکم امتناعی کی کوئی مدت ہوتی ہے یا یہ قیامت تک کے لئے جاری ہوجاتا ہے؟ حیران ہوں کہ ماضی میں ٹیکس تنازع میں حکم امتناعی لینے والے ایک میڈیا ہائوس کے خلاف آستینیں الٹ اور گلے پھاڑ کر نعرے لگانے والے قاسم سوری کو ملے حکم امتناعی پر ایک دن بھی نہیں بولے۔
عدالت حکم امتناعی دے سکتی ہے سرِتسلیم خم یہ اس کا دائرہ اختیار ہے، عدالت کا احترام سر آنکھوں پر لیکن کیا عوامی مینڈیٹ چرانے والے ایک جعلساز کو لامحدود مدت کیلئے حکم امتناعی ملنا چاہیے تھا؟
اس کے باوجود بھی کہ عملی طور پر ثابت ہوگیا ہو کہ دو چار سو نہیں ہزارہا ووٹ جعلی تھے۔
چھوڑیئے اصل موضوع پر بات کرتے ہیں۔ صحافت کے کوچے میں سنتالیس برسوں سے قلم مزدوری کرتے ٹوٹتے بنتے سیاسی منظرناموں، مارشل لائوں، نظریہ ضرورتوں اور جرنیلی جمہوریتوں کو بھگتے دیکھتے مجھ طالب علم کی یہی رائے ہے کہ اتوار کو دی گئی اسپیکر کی رولنگ بذات خود دستور سے متصادم ہے۔
اسپیکر اس سے پہلے بھی ایک جرم کرچکے انہوں نے تحریک عدم اعتماد جمع کرائے جانے کے بعد مقررہ مدت کی بجائے تاخیر سے قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا حالانکہ قواعدوضوابط واضح ہیں۔ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ اسپیکر آفس وزیراعظم کے احکامات کی بجاآوری کے لئے ڈاکخانہ بن گیا ہو۔
معاف کیجئے گا سازش وہ نہیں ہے جو عمران خان بیان کرتے آرہے ہیں سازش یہ ہے جس پر اتوار کو عمل ہوا۔
لائی لگ قوم امریکہ مخالف جذبات کے بہائو میں بہنے کوتیار ہے لیکن اگر اس دوران مفت امریکی ویزوں کا اعلان ہوگیا تو یہ سارے امریکی سفارتخانے کے باہر لائنوں میں لگے ہوئے ہوں گے۔ حرفِ آخر یہ ہے کہ ہم ایسے طالب علموں کے لئے عمران یا اپوزیشن نہیں دستور اہم ہے یہ دستور جیسا بھی ہے،اس فیڈریشن کے اتحاد کی واحد ضمانت ہے۔
ضامن جو محافظ بھی ہو اس کا ہی گلہ دبادیا جائے تو نتیجہ کیا نکلے گا۔ چند لمحے نکال کر ٹھنڈے دل سے بس اس ایک نکتہ پر غور کرلیجئے۔ فی الوقت یہی ہے کہ
” سچ آکھیاں بھانبڑ مچدا اے "۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: