نومبر 16, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اب انتخابات ناگزیر ہیں!||رسول بخش رئیس

اخلاقیات کے درس اگرچہ پاکستان کی سیاست میں اہمیت نہیں رکھتے‘ مگرخان صاحب زورلگا رہے ہیں‘ اور اب وہ اسلامی کارڈ کا بھی استعمال کھل کر کرنے لگے ہیں۔ اپنی سیاسی جنگ کو ''خیر‘‘ اور ''بدی‘‘کی لڑائی قرار دے کر عوام کو غیر جانبدار نہ رہنے کا بھی کہا ہے۔ نئے انتخابات ہوں گے تو سب کچھ سامنے آ جائے گا‘ شرط یہ ہے کہ ہارنے والے مان بھی لیں۔

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ملکی سیاست میں دو طرفی تقسیم ‘ زبان و کلام میں سمویا ہوا زہر‘ جتھے بازی اور جذبات کا بڑھتاہوا درجہ حرارت‘ ان سب چیزوں نے جس قدر استحکام تھا‘ اسے نابود کردیا ہے۔ ہم نے پہلے بھی ایسے بحران دیکھے ہیں‘ مگر جو شدت اس وقت ہے‘ وہ کبھی نہ دیکھی۔ ماضی میں نظریاتی لوگ بھی موجودگی کا احساس دلاتے تھے اور اس بات کا بھی‘ کہ کچھ سیاست کے بھی اصول ہوتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں کہیں زیادہ منظم تھیں۔ سیاسی بازار لگانے کا رواج بعد میں پڑا جب مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی نے ایک دوسرے کی حکومتیں گرانے کی روش متعارف کرائی۔ خیال تھا کہ وہ کچھ سیکھ چکے ہوں گے‘ مگر ہم زیادہ خوش فہم واقع ہوئے ہیں۔ چارٹر آف ڈیموکریسی کی سیاہی ابھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ ان میں سے ایک فریق نے جنرل پرویز مشرف کے ساتھ اقتدار میں شرکت کا خفیہ معاہدہ کر لیا تھا۔ اب وہ دونوں اور دیگر موروثی جماعتیں تحریکِ انصاف کی منتخب حکومت کو گرانے کی کوشش میں ان کی جماعت کے اراکین کا ”ضمیر جگا‘‘ کر تاریک ماضی کی لوٹا بازی کی سیاست کو فروغ دے کر جمہوریت کا چراغ روشن رکھنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں۔ مانتے ہیں عدم اعتماد آئینی عمل ہے‘ مگر با اصول پارلیمانی جمہوریتوںمیں یہ فیصلہ جماعت کے اندر ہوتا ہے۔ کچھ دھیان برطانیہ کی طرف کر کے دیکھ لیں۔ بورس جانسن وزیر اعظم اپنی پارٹی کے اندر سے بنے۔ بات تو ہم ایسی جمہوریت کی کرتے ہیں‘ مگر خرید و فروخت کی منڈیاں برسرِ عام لگاتے ہیں۔ چلو یہ بھی مان لیتے ہیں کہ تحریکِ انصاف میں بغاوت ہوئی اور یہ بارہ پندرہ اراکین اب اس جماعت اور اس کی قیادت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے۔ اس کا جمہوری طریقہ بھی سب کو معلوم ہے۔ بالکل ایسا کرنا جائز ہے‘مگر اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے کر دوبارہ عوام کے پاس جانا ضروری ہوتا ہے۔
اب معلوم ایسے ہی ہوتا ہے کہ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ گیا ۔ کوئی شک کی گنجائش نہیں کہ تحریکِ انصاف کے اراکینِ اسمبلی کا ”ضمیر جاگ‘‘ اٹھا ہے اور انہوں نے علمِ بغاوت بلند کر کے حکومتِ سندھ چلانے والوں کے آہنی حصار میں پناہ لے لی ہے۔ واقعات کے تانے بانے ملتے نظر آتے ہیں کہ جب ”ضمیرجگانے ‘‘کی خبریں گردش میں آئیں تو پانچ‘ چھ اراکین والی دو تین جماعتوں نے بھی ”ہمیں کیا ملا‘‘ اور ”جو وعدے کئے گئے تھے وہ پورے نہیں ہوئے‘‘کی سیاسی مالا بہ آوازِ بلند کیمروں کے سامنے صبح‘شام جپنی شروع کر دی‘ اور ساتھ ہی پسِ پردہ اپنے دیرینہ کام میں مصروف سیاسی سوداگروں نے آوازیں لگانا شروع کر دیں کہ حکومت عددی اکثریت قائم کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ ہم ان کے ساتھ ہیں۔ اگر ایسا ہی ہے‘جو ایک ہفتے کے اندر سب کو معلوم ہو جائے گا‘ تو عمران خان صاحب کو با وقار طریقے سے پارلیمان کے اندر اپنی شکست تسلیم کرکے اقتدار کی سب کنجیاں ایک ایک کر کے موروثیوں کی جیبوں میں خود نہیں‘کسی کو کہہ کر فوراً ڈلوا دینی چاہئیں‘ کہ جمہوریت کو بچانے کے لیے ان رہنمائوں نے ساڑھے تین سال نہ جانے کتنی مصیبتیں اور مشقتیں برداشت کی ہیں‘ اور عوام کا غم اور پریشانی بھلا کب ان سے برداشت ہوتی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو ہمارے کالم کا عنوان ہو گا”کرسی کی مبارک باد‘‘۔
تادمِ تحریر مجھے تو معلوم نہیں کہ اتوار‘ ستائیس مارچ کو کون سا سرپرائز حزبِ اختلاف کو دیں گے۔ بہت سوال ہوئے مگر یہ درویش کئی جواب تراشنے کے بعد بھی کسی ایک سے مطمئن نہیں۔ امکانات کی دنیا تو بہت وسیع ہوتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ مخالفین کو للکاریں اور کہیں: محلاتی سازشیں کر کے حکومت گرانے والو! اب میدان میں آئو‘ عوام کے سامنے میں بھی اپنا مقدمہ پیش کرتا ہوں اور آپ بھی اپنا مقدمہ لڑیں۔حکومتیں گرانے اور بنانے کے فیصلے لوٹے ہوئے سرمائے سے نہیں‘ بلکہ عوام کی رائے کے مطابق ہونے چاہئیں۔ یہ باتیں تو ہر عوامی جلسے میں‘ جہاں پہلے سے کہیں زیادہ لوگ نظر آتے ہیں‘ وہ کہہ رہا ہے‘ مگر جونہی عددی لحاظ سے ملک کی بڑی سیاسی جماعت حزبِ اختلاف کی نشستیں سنبھالے گی‘ تو پارلیمان کے اندر اور باہر کا ماحول یکسر تبدیل ہو جائے گا۔ اس کے بارے میں زیادہ بات تھوڑی دیر بعد میں ہو گی‘ پہلے ایک دوسرے منظر نامے کی طرف جاتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ دوسری جانب سے بھی معزز اراکین اپنی جماعتوں کی منشا کے خلاف وزیر اعظم کو اعتماد کا ووٹ دینے کے لیے آمادہ ہوں‘ یا منحرف اراکین کی کچھ تعداد دوبارہ واپس آ جائے‘ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اتحادی گروہوں کی ”شکایات کا ازالہ‘‘کر کے انہیں راضی کر لیا جائے اور حکومت عدمِ اعتماد کی ہزیمت سے بچ جائے۔ میرا خیال ہے کہ ایسی کمزور حکومت چلانے سے بہتر ہے کہ خان صاحب نئے انتخابات کا اعلان کردیں۔ حالات ان کے موافق نظر آ رہے ہیں۔ کسی کو معلوم نہیں کہ وہ سب‘ جو ماضی کی حکومتوں میں ملک کی معیشت اور اداروں کو تباہ کرنے کے ذمہ دار ہیں‘ اب کس بات پر اکٹھے ہیں۔ عمران خان کو اقتدار سے ہٹایا جائے۔ ضرور‘ ایسا کرنا حزب اختلاف کا جمہوری حق ہے‘ مگر منڈیاں لگا کر ایسا کرنا کہاں جمہوری اور آئینی روایات میں سے ہے۔ یہ بات میں خود نہیں کہہ رہا‘ بلکہ ایسی باتیں دو بڑی جماعتوں کے اکابرین ماضی میں ایک دوسرے کی حکومتوں کو گرانے کے بیانیوں میں کہتے رہے ہیں۔ ہمارے جیسے کمزور لوگوں میں سکت کہاں۔ وہ سب معزز‘ محترم اور بہت اچھے ہیں۔
عجیب بات ہے کہ حزبِ اختلاف کا سارازور اس وقت عدم اعتماد کے ذریعے حکومت گرانے پر ہے۔ لانگ مارچ تو صرف مرچ مسالا ہی ہے‘ ایسے تو وہ کئی بار کرچکے ہیں اور ہر دفعہ ‘پھر ملیں گے‘ کے وعدے کر کے اسلام آبادسے رخصت ہوئے۔ دوسری طرف عمران خان کا زور اگلے انتخابات پر ہے۔ بیانیہ تازہ صورت حال کی روشنی میں مرتب کر کے اس کے ٹریلر دوسرے دن ہونے والے عوامی جلسے میں چلا رہے ہیں۔ اس کے سب خدوخال آہستہ آہستہ واضح ہو رہے ہیں۔وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کے خلاف سازش ہوئی ہے‘ انہیں آزاد خارجہ پالیسی بنانے‘ ملک کو عزت اور خود مختاری بخشنے کی سزا دی جا رہی ہے۔ دو بڑی جماعتوں والے مغرب کی بڑی طاقتوں کے ہاتھ میں کھلونا ہیں‘ اس لیے کہ ”چوری کا دھن‘‘ انہوں نے وہاں حفاظت سے رکھا ہوا ہے‘ اور اس کی ایک قیمت ہے‘ بلکہ وہ یہاں تک جاتے ہیں کہ وہ ان کے ”غلام‘‘ ہیں۔ بیرونی ممالک میں ان کے سرمائے‘ جائیدادوں اوردولت کے بارے میں تو وہ بیس سال سے زیادہ عرصے سے بات کرتے آئے ہیں۔ دوسری بات وہ تسلسل سے کہتے آئے ہیں اور اس پرزور اب کہیں زیادہ ہے ۔ وہ یہ ہے کہ یہ سب اکٹھے اس لیے ہوئے ہیں کہ حکومت کو گرا کر احتساب اور ایک دوسرے کے خلاف کرپشن کے مقدمات کو ختم کریں۔ تیسرے یہ کہ وہ کرپٹ اور غیر اخلاقی ہتھکنڈے استعمال کر کے وفاداریاں تبدیل کرارہے ہیں۔لوٹا ہوا پیسہ استعمال ہو رہا ہے‘ اور جو لوگ نوٹوں کی چمک میں ان کی پارٹی چھوڑکرحزبِ اختلاف کے ساتھ جا رہے ہیں ‘ ان کے خلاف عوام کو اٹھ کھڑاہونا چاہیے کہ ان کا ووٹ اپنا نہیں تحریکِ انصاف کا تھا۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ اس بیانیے کا عوام پہ کیا اثرہوتا ہے‘ مگر حزبِ اختلاف کے اکٹھ میں مہنگائی‘ بے روزگاری‘ ”نااہلیت‘‘ اور ”ناقابلیت‘‘ کے سوااپنے دفاع میں کچھ زیادہ نہیں ہے۔
اخلاقیات کے درس اگرچہ پاکستان کی سیاست میں اہمیت نہیں رکھتے‘ مگرخان صاحب زورلگا رہے ہیں‘ اور اب وہ اسلامی کارڈ کا بھی استعمال کھل کر کرنے لگے ہیں۔ اپنی سیاسی جنگ کو ”خیر‘‘ اور ”بدی‘‘کی لڑائی قرار دے کر عوام کو غیر جانبدار نہ رہنے کا بھی کہا ہے۔ نئے انتخابات ہوں گے تو سب کچھ سامنے آ جائے گا‘ شرط یہ ہے کہ ہارنے والے مان بھی لیں۔

یہ بھی پڑھیے:

رسول بخش رئیس کے مزید کالم پڑھیں

About The Author