مئی 20, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

عالمی سازشوں کی "کہانیاں” ||حیدر جاوید سید

اس رائے کے حاملین اپنی رائے کے نتائج سے ناواقف ہیں یا پھر سادہ ہیں۔ ہم گمنام جزیرے پر آباد نہیں کرہ ارض کے نقشہ میں موجود ہیں۔ کسی کو حمید گل بننے کا شوق چرایا ہے تو اسے یہ بات سمجھنا ہوگی کہ اُن (حمید گل) کی اڑان کا اختتام کیا ہوا تھا۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حیرانی ہے اُن اہل صحافت و سیاست پر جنہیں کل کی بات یاد نہیں رہتی اور بلاوجہ کا شور مچانے لگتے ہیں۔ مثلاً گزشتہ روز مولانا فضل الرحمن نے 23 مارچ کے لانگ مارچ کا اعلان کرنے کے دوران پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا ’’اسلام آباد میں نماز ظہر ادا کرکے فیصلہ کریں گے کہ واپس جانا ہے کارکنوں نے یا بیٹھنا ہے‘‘۔
اس کے بعد سے ہنگامہ برپا ہے۔ منہ آئی ہر بات اچھالی جارہی ہے۔ دور کی کوڑی یہ لائی گئی کہ ’’یہ لانگ مارچ او آئی سی وزرائے خارجہ کانفرنس کو ناکام بنانے کے عالمی ایجنڈے کا حصہ ہے‘‘۔
یاد کیجئے غالباً دسمبر کے آخری یا رواں سال جنوری کے پہلے ہفتے میں پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں 23مارچ کو مہنگائی کے خلاف ملک گیر لانگ مارچ کا اعلان کرتے ہوئے کہا گیا تھا پی ڈی ایم کے کارکن 23مارچ کی نماز ظہر ڈی چوک میں ادا کریں گے۔ تب ان سطور میں سوال کیا تھا،
"بندگان خدا لوگ مہنگائی سے بدحال ہیں آپ 23مارچ کو احتجاج کرنے کا اعلان کررہے ہیں خیر تو ہے؟”
گزشتہ شب سے جو وزراء اور یوٹیوبرز لشکر سازشی تھیوریوں کی مالا جپنے میں مصروف ہیں تب یہ سارے پی ڈی ایم کے لانگ مارچ کے اعلان پر کہہ رہے تھے ’’23مارچ کو ڈی چوک پر یوم پاکستان کی پریڈ ہوتی ہے اور لانگ مارچ کا اعلان پاکستان کے خلاف سازش ہے ، جبکہ پی ڈی ایم والے کہہ رہے تھے ہم نماز ظہر کے وقت پہنچیں گے پریڈ اس سے پہلے ختم ہوجاتی ہے۔
ہمارے ہاں سب سے من پسند کھابا سازشی تھیوریوں کا رزق ہے۔ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو بھی عالمی سازش کا چوغہ پہنایا جارہا ہے۔
اچھا کوئی بتلائے تو یورپ اور امریکہ کو کیا آن پڑی ہے عمران خان کے خلاف سازش رچانے کی؟ کیا یہ دنیا یا پاکستان میں پہلی بار ہورہاہے؟
جی نہیں آئی آئی چندریگر اور محترمہ بینظیر بھٹو کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد آئی تھی۔ جاپان، برطانیہ اور دیگر کئی ممالک میں ماضی میں وزرائے اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئی۔ کامیاب بھی ہوئی اور گاہے ناکام بھی ، تحریک عدم اعتماد سے رخصت ہونے والے کسی وزیراعظم نے نہیں کہا کہ میرے خلاف عالمی سازش ہوئی ہے؟
بس ایک ہم ہیں ’’کلی جند تے دُکھ ہزار‘‘ ساری دنیا ہمارے خلاف ہے۔ ہم ہی تو دنیا کا رونق میلہ لگائے ہوئے ہیں ہم نہ ہوتے تو کرہ ارض شہر خموشاں کا منظر پیش کررہا ہوتا۔ یار کوئی حد ہوتی ہے یہاں تو بے حد ہے۔
حالت یہ ہے کہ مرحومین کے ورثا کو ایوان وزیراعظم بلاکر تعزیت کرنے والے ہمارے وزیراعظم بہادر آباد گئے۔ چودھریوں کے گھر پہنچے۔ گزشتہ روز بلوچستان عوامی پارٹی والوں سے ملنے پارلیمانی لاجز تک چلے گئے۔ پھر بھی دعویٰ ہے خان تنہا ہے چوروں کے خلاف اور ڈٹ کر کھڑا ہے۔
حالانکہ حکمران اتحاد میں تحریک انصاف، ق لیگ، مسلم لیگ پگاڑا، جی ڈی اے، ایم کیو ایم، بی اے پی، آزاد ارکان شامل ہیں۔ مرحوم غلام مصطفی جتوئی کے صاحبزادگان اسی اتحاد کا حصہ ہیں پھر بھی کپتان اکیلا اور ڈٹ کر کھڑا ہے۔
معاف کیجئے گا یہ باتیں رہنے دیں ان کا فائدہ کوئی نہیں۔

آئی آئی چندریگر کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تھی۔
محترمہ بینظیر بھٹو کے خلاف آپریشن مڈنائٹ جیکال نامی تحریک عدم اعتماد ناکام، اس تحریک عدم اعتماد کو کامیاب کروانے کے لئے مرحوم اسامہ بن لادن نے ایک ارب روپیہ بھی دیا تھا۔
جس دن یہ تحریک عدم اعتماد ایوان میں پیش ہوئی خورشید چیمہ نامی ایک رکن نے اپوزیشن کے بنچوں سے شور مچایا جناب سپیکر مجھے اغوا کر کے یہاں رکھا ہے انہوں نے ، اور پھر چیمہ صاحب حزب اقتدار کے بنچوں کی طرف چلے گئے۔ چھانگا مانگا اسی دور کی اصطلاح ہے۔
پیپلزپارٹی کے ایک مرحوم رکن قومی اسمبلی عارف اعوان بریف کیس لے کر محترمہ بینظیر بھٹو کے پاس پہنچ گئے بولے بی بی یہ نوٹوں سے بھرا بریف کیس مجھے بریگیڈیئر امتیاز احمد نے دیا ہے آپ کے خلاف ووٹ دینے کے لئے۔ بہرطور یہ تحریک ناکام ہوئی۔ تحریک کی ناکامی کے بعد محترمہ نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے جن خیالات کا اظہار کیا وہ خیالات قومی اسمبلی کے ریکارڈ میں محفوظ ہیں۔
قصہ مختصر انہوں نے کہا تھا ہماری ” کسی سے ذاتی دشمنی نہیں۔ عدم اعتماد کی تحریک لانا اپوزیشن کا حق تھا۔ افسوس اسامہ بن لادن سے ایک ارب روپیہ لینے اور دو خفیہ ایجنسیوں کا حکومت کے خلاف آپریشن زیرو زیرو سیون کرنے پر ہے” ۔

موجودہ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کئے جانے سے اب تک فی ووٹ 18کروڑ قیمت سے بات شروع ہوئی 20کروڑ تک گئی۔ کسی ایک رکن کو تو چاہیے تھا کہ وہ 18 یا 20 کروڑ روپے کے ہمراہ میڈیا کے سامنے آتا اور کہتا کہ یہ رقم مجھے دی گئی ہے اب میں اسے اپنے حلقہء انتخاب کے مستحقین میں تقسیم کردوں گا ۔
آگے بڑھنے سے قبل دو باتیں عرض کئے دیتا ہوں اولاً یہ کہ سیاسیات و صحافت کے طالب علم کی حیثیت سے میری رائے یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی بجائے اس حکومت کو وقت پورا کرنے دیں۔ یہاں سوال یہ ہے کہ اگر یہ حکومت رخصت ہوجاتی ہے تو کیا عبوری مدت کیلئے بننے والی حکومت عوام کو ریلیف دے پائے گی؟
ثانیاً یہ کہ تحریک عدم اعتماد وزیراعظم کے خلاف ہے۔ ظاہر ہے اگر یہ کامیاب ہوتی ہے تو تحریک انصاف ایک حقیقت کے طور پر ایوان میں موجود ہوگی تب اسے کردار ادا کرنا ہوگا۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا تحریک انصاف موجودہ حیثیت میں برقرار رہے گی؟ فارورڈ بلاک کی اطلاعات ہیں مگر تشکیل دینے کے آرزو مندان تحریک عدم اعتماد کا نتیجہ دیکھنا چاہتے ہیں۔
اب ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ اگر حکومت کے پاس ووٹ پورے ہیں تو معاملہ لٹکانے اور اسے 24مارچ کے بعد لے جانے کی کیا تک تھی۔
ایک طالب علم کے طور پر مجھے جو بات سمجھ میں آئی ہے وہ یہ ہے کہ 1971ء کے بعد ایک بار پھر اسٹیلشنمٹ کو محفوظ راستہ درکار ہے۔ وجہ ایک نہیں کئی ہیں۔ اہم ترین وجہ سفارتی تنہائی ہے۔ (آپ کو عدم اتفاق کا پورا پورا حق ہے) خوفناک سفارتی تنہائی کیوں مسلط ہوئی اور اس کے باوجود کہ ’’ہم نیوٹرل‘‘ ہیں؟ معاف کیجئے گا ا سٹیبلشمنٹ کی جنرل مشرف کے آخری ایام سے بھی پتلی حالت ہے۔
کیا متحدہ اپوزیشن کو چاہیے کہ اسٹیبلشمنٹ کو محفوظ راستہ دے؟ اس سوال پر دو آراء ہیں۔ ایک یہ کہ بالکل نہیں جو بویا ہے اسے وہ کاٹنے دیں۔ دوسری رائے یہ ہے کہ بہرصورت یہ ہمارا ملک ہے اسٹیبلشمنٹ کا احتساب ہونا چاہیے لیکن دستور کے مطابق معاملات آگے بڑھنے چاہئیں۔
ایک حلقہ تیسری رائے بھی رکھتا ہے وہ ایک صاحب بارے کہہ رہا ہے کہ اپوزیشن کو خطرہ ہے کہ رواں سال کے اختتام تک وہ صاحب فیصلہ کن حیثیت حاصل کرلیں گے ان کی یہ حیثیت اپوزیشن جماعتوں کی سیاسی موت ثابت ہوگی۔
اس رائے کے حاملین اپنی رائے کے نتائج سے ناواقف ہیں یا پھر سادہ ہیں۔ ہم گمنام جزیرے پر آباد نہیں کرہ ارض کے نقشہ میں موجود ہیں۔ کسی کو حمید گل بننے کا شوق چرایا ہے تو اسے یہ بات سمجھنا ہوگی کہ اُن (حمید گل) کی اڑان کا اختتام کیا ہوا تھا۔
مکرر عرض ہے جب پچھلی حکومتوں میں وزیر مشیر اور ترجمان رہنے والے بعض موجودہ وزراء اور مشیر یہ کہتے ہیں کہ حکومت کے خلاف سارے چور ا کٹھے ہوگئے ہیں تو پتہ نہیں ہنسی کیوں آتی ہے۔ اصل میں دھوبی کی وہ دکان مستقل طور پر بند ہونی چاہیے جو چوروں ڈاکوئوں کے سابق لشکریوں کو نہلادھلاکر پوِتر بنانے کا کام کرتی ہے۔
چلتے چلتے ایک خبر یہ کہ وفاقی کابینہ کا اجلاس چوتھی بار ملتوی کردیا گیا۔ سپیکر قومی اسمبلی کی حفاظت کا کام رینجرز کو سونپ دیا گیا ہے۔ جناب اسد قیصر کو کیا خطرہ ہے۔ خطرہ تو ارکان کو ہے اور سپیکر نے انہیں تحفظ دینے کی بجائے اپنے تحفظ کا سامان کرلیا۔
حرف آخر یہ ہے کہ حکمران اتحاد کی صفوں میں کتنا اتحاد اور محبت ہے اس کا اندازہ اسد عمر کی کنونشن سنٹر والی تقریر سے لگالیجئے۔ اس تقریر کے آفٹر شاکس سے پریشان ہوکر اسد عمر سمیت دیگر وزراء اور معاونین کو اتحادیوں کے خلاف بیان بازی سے گریز کرنے کا کہا گیا ہے۔
مکرر عرض ہے، عالمی سازشوں کی رام لیلائیں سنانے اور دھمکیاں دینے کی بجائے جمہوری روایت پر کھلے دل سے عمل کیجئے۔ فقط حکومت نہیں اپوزیشن بھی۔
دونوں کا فرض ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ جمہوریت کی راہ کھوٹی نہ ہونے پائے۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: