مئی 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آزادی اظہار اور پیکا آرڈیننس کا چنا چور گرم ||حیدر جاوید سید

سوالات سے آنکھیں چرانے کی بجائے ان کا جواب دیا جانا ضروری ہے۔ جوائنٹ میڈیا ایکشن کمیٹی کا موقف درست ہے آزادی اظہار سے کھلواڑ کیا جارہا ہے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جناب عمران خان نے پیکا آرڈیننس پر اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ذاتی کردار کشی کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی ہے‘‘۔ اچھا یہ ذاتی کردار کشی کیا ہوتی ہے۔ کیا اس کی کوئی وضاحت کرے گا۔ سوال تو یہ بھی بنتا ہے کہ اب تک ہوتا کیا رہا۔ جو کہا لکھا اور اُڑا کیاوہ ذاتی کردار کشی نہیں تھا؟
تبدیلی کے میڈیائی شاہینوں نے تنویر زمانی تلاش کی، ایان علی زرداری کے پلے اس لئے ڈالی کہ لطیف کھوسہ اس کے وکیل تھے۔ وکیل ہونا جرم ہے یا کسی کی وکالت کا مطلب کوئی تعلق ہوتا ہے۔ ایان علی جس کے لئے کام کرتی تھی اس کے بڑے بھائی کے لئے خلیفہ ہارون الرشید نے لکھ مارا کے "ان کے گھر میں ایک وقت میں ایک سالن پکتا ہے”۔ کس کے گھر میں وہی پہلے دانشور آرمی چیف کے ، فقیر راحموں کو تو ویسے ہی وہ بہت پسند ہیں کیونکہ ’’وہ بھی‘‘ ڈن ہل کا شوق رکھتے ہیں۔
یہ 2016ء کی بات ہے جب تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے سائبر کرائم ایکٹ کی منظوری پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا ’’حکومت تنقید سے خوفزدہ ہے فوج کی آڑ لے کر کالا قانون مسلط کیا گیا۔ یہ 21ویں صدی ہے سوشل میڈیا کا دور ہے لوگوں کی آواز نہیں دبائی جاسکتی‘‘۔
جو لوگ 2016ء میں عمران خان کے ارشادات پر سردھن رہے تھے وہ اب ان کے پیکا آرڈیننس لانے کو قانون کی حاکمیت قرار دے رہے ہیں۔ اس پر سبحان اللہ کہنا بنتا ہے۔ دوسروں کو ذہنی غلام، سیاسی خاندانوں کے کمی اور نجانے کیا کیا کہنے والے اب جو راگ درباری الاپ رہے ہیں اس پر رویا جائے یا ہنسا جائے؟
میں باردیگر ایک سوال آپ کے سامنے رکھتا ہوں، ذاتی کردار کشی کیا ہوتی ہے؟
پی ٹی آئی کے مجاہدین نے پچھلے 10برسوں میں ایک خاتون اینکرز کی کم از کم تین شادیاں کروائیں۔ سوشل میڈیا پر منہ بھر کے گالیاں بھی دیں۔ کیا یہ ذاتی کردار کشی نہیں تھی۔
ریحام خان کی عمران خان سے شادی ہوئی تو مادر ملت ثانی کے درجہ پر فائز کردیا گیا۔ دونوں میں علیحدگی ہوئی تو ریحام خان کو کیا کیا نہیں کہا گیا بلکہ اب بھی آپ ان کی کسی ٹیوٹ کے نیچے انصافیوں کی اعلیٰ اخلاقیات کے فقیدالمثال مظاہرے دیکھ سکتے ہیں۔
وہ ایک ہندوستانی فلم کا ڈائیلاگ تھا، تم کرو تو درست ہم کریں تو کریکٹر ڈھیلا ہے۔ ہماری رائے میں دونوں غلط کررہے ہیں وہ بھی اور وہ بھی۔
گزشتہ شب ایک مہربان کہہ رہے تھے آپ کا شمار پیپلزپارٹی کے حامیوں میں ہوتا ہے۔ جی درست ہے۔ وہ بولے آپ بھول گئے کہ نواز لیگ نے محترمہ بینظیر بھٹو اور ان کی والدہ کے لئے کون سی زبان استعمال کی تھی؟
عرض کیا اچھا کیا (ن) لیگ کو اس بداخلاقی اور تھڑدلے پن پر نوبل پرائز ملا تھا یا اس ملک کے لوگوں کی اکثریت نے اس بدزبانی کو مسترد کردیا تھا؟
مہربان فرمانے لگے میرا مطلب یہ تھا، ان کی بات کاٹتے ہوئے کہا، مطلب رہنے دیجئے یہاں بدقسمتی سے سبھی اپنی اپنی بدزبانیوں پر تاویلات گھڑتے ہیں حالانکہ بدزبانی اور کردار کشی کی کھل کر مذمت ہونی چاہیے۔
یہ بھی عرض کیا اب خان صاحب کو یاد آیا کہ ذاتی کردار کشی ہورہی ہے۔ وہ دن یاد کیجئے جب ترجمانوں کے ایک اجلاس میں وہ چند بدزبانوں کی تحسین کرتے ہوئے کہہ رہے تھے، آپ لوگ ’’ان کی طرح‘‘ جرات کرکے منہ توڑ جواب دیں۔
مہربان کہنے لگے شاہ جی انہیں اب احساس ہوگیا ہے کہ یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ معذرت کرتے ہوئے کہا کہ احساس نہیں ہوا کہ وہ بھی اب فوج کی آڑ لے کر ایک کالا قانون مسلط فرماچکے۔ یہ بغل میں چھری منہ میں رام رام والی صورتحال ہے۔
ابھی چند دن قبل انہوں نے ایک جلسہ عام میں اپنے مخالفین کے لئے جو زبان استعمال کی وہ کس اخلاقیات کے تحت درست تھی۔

مجھے یاد آیا کہ محترمہ بینظیر بھٹو کی دختران نے عرفان اللہ مروت کی پیپلزپارٹی میں شمولیت کی سختی سے مخالفت کی تھی ایک سے زائد پر بینظیر بھٹو کی بیٹیوں نے اپنی جماعت کے بعض رہنمائوں کو مخالف سیاسی خواتین سے معافی مانگنے پر اخلاقی قوت سے مجبور کیا۔
دوسری طرف لاہور کے ایک حالیہ ضمنی الیکشن کے بعد (ن) لیگ کے طلال چودھری نے آصف علی زرداری اور بلاول کے لئے غلیظ زبان استعمال کی۔ پوری (ن) لیگ لمبی تان کر سوتی رہی اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ (ن) لیگ کا خمیر بھی وہیں سے اٹھا تھا ’’جہاں‘‘ تحریک انصاف کا خمیر گوندھا گیا۔
اصولی طورپر بداخلاقی، زبان درازی کردار کشی کسی طرف سے بھی ہو اس کی کھل کر مذمت کرنی چاہیے۔ جو لوگ مخالفین کو غلیظ گالیاں دیتے اور ان کا تمسخر اڑاتے ہوئے ایسی باتیں کہتے ہیں جنہیں سن کر بیسوائیں بھی انگلیاں دانتوں میں داب لیں۔ انہیں شکوے کرنے کی بجائے اپنا محاسبہ کرنا چاہیے۔
بہت سارے دوست ناراض ہوتے ہیں جب یہ عرض کرتا ہوں کہ جناب وزیراعظم نے اپنے ’’مہربانوں‘‘ کی خوشی کے لئے دو نسلوں کی زبان بگاڑ دی۔ وہ جواب میں کہتے ہیں پہلے کون سا تلاوتیں ہوتی تھیں۔ ارے بھیا کم از کم یہ صورتحال نہیں تھی جو آج ہے۔ پہلے ایک دو یا چند افراد زبان دانی کے مظاہرے کرتے تھے اب تو لشکر دندناتے پھرتے ہیں۔
اچھا یہ معاملہ صرف سیاسی جماعتوں کے مجاہدین تک ہی محدود نہیں۔ دینی سیاسی جماعتوں کے اکابرین اور ان کے ہمنوا بھی کسی سے کم نہیں۔
پی ٹی آئی کے ایک وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور نے حالیہ بلدیاتی انتخابی مہم کے دوران میاں نوازشریف کی صاحبزادی مریم نواز کے لئے اپنی تقاریر میں جو کچھ کہا کیا تحریک انصاف کی قیادت کو اس پر افسوس ہوا؟
یہ جو عسکری دانش کے نوری نت ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر جمہوری نظام اور سیاستدانوں کے حوالے سے بے پرکیاں اڑاتے ہیں یہ کیا ہے۔ ان ساری باتوں کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت ’’زبان دانیوں‘‘ سے نالاں ہے۔
یہ پیکا آرڈیننس حقیقت میں ’’پیکہ‘‘ آرڈیننس ہی ہے۔ ساجھے داری کے اقتدار میں ’’پیکہ‘‘ وہی ہے جو لوگوں کی اکثریت سمجھتی ہے اسی پیکے کی زبردستی عزت کروانا مقصود ہے۔
جان کی امان رہے تو عرض کیا جاسکتا ہے ریحام خان نے اپنی کتاب 2018ء میں شائع کروائی اب 2022ء میں اس کتاب کے خلاف لندن میں مقدمہ کرنے کے اعلانات کیوں کئے جارے ہیں۔ ساڑھے تین سال سے زائد عرصہ لمبی تان کر سونے کی وجہ کیا تھی۔ کیا کسی جوابی کارروائی کی صورت میں کچھ ویڈیوز کے منظرعام پر آنے کے خطرات تھے۔ اب کیا وہ خطرات ٹل گئے؟
مکرر عرض ہے دستور میں ہر ادارے اور محکمے کا کردار اور حدود طے ہیں اپنی دستوری حدود اور کردار سے تجاوز کرنے والوں پر تنقید تو ہوگی۔ چلئے ایک سوال باردیگر پوچھ لینے میں کیا حرج ہے۔ کیا پیکا آرڈیننس کا مقصد کشمیر پر جولائی 2019ء میں غیراعلانیہ طور پر طے پائے معاملات کی پردہ پوشی مزید مقصود ہے؟ بلوچستان کے معاملے پر سوالات کو ملک دشمنی سے تعبیر کرنا مقصد ہے؟ آئی ایم ایف سے ہونے والے معاہدے پر جس کے بعد اس ملک کے لوگوں کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے عام بحث کو روکنا ضروری ہے۔ یا پھر افغان پالیسی پر اعتراض کرنے والوں کو کچلنا مقصد ہے؟
اگر یہ چاروں باتیں نہیں بلکہ یہ محض ہوائیاں ہیں تو پھر پیکا آرڈیننس کی ضرورت کیوں آن پڑی؟
سوالات سے آنکھیں چرانے کی بجائے ان کا جواب دیا جانا ضروری ہے۔ جوائنٹ میڈیا ایکشن کمیٹی کا موقف درست ہے آزادی اظہار سے کھلواڑ کیا جارہا ہے۔
2016ء کے سائبر کرائم قانون میں حالیہ ترمیم کو اگر برما کے حالیہ آزادی اظہار دشمن قوانین کے تناظر میں دیکھا جائے تو ’’عزائم‘‘ سمجھ میں آتے ہیں۔
حرف آخر یہ ہے کہ سول سپر میسی کی علمبردار مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو پیکا آرڈیننس کی مذمت کرنے سے قبل اس قانون کی تخلیق پر عوام سے معافی مانگنی چاہیے۔ یہ قانون (ن) لیگ کے دور میں منظور ہوا وہی آزادی اظہار پر پابندیوں کی حقیقی مجرم ہے۔
اسی طرح آنے والے دنوں میں جب یہ قانون تحریک انصاف کے لوگوں کے خلاف استعمال ہوگا تو انہیں بھی احساس ہوگا کہ اپنے دور میں انہوں نے غلط کیا۔ سوال یہ ہے کہ
’’ہم‘‘ ایسا کام کرتے ہی کیوں ہیں جس پر بعد میں رونا پڑے؟۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: